اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

26۔ ہیروں سے لَدے مُردہ ستارے (Dead stars full of diamonds

عجائباتِ_کائنات

26۔ ہیروں سے لَدے مُردہ ستارے (Dead stars full of diamonds

سورج جیسا درمیانے درجے کا ستارہ جب اپنی زندگی پوری کرتا ہے تو اس کے درمیان میں نیوکلیائی چولہا توانائی بنانا بند کر دیتا ہے۔ یہ ستارہ سکڑ کر اپنے حجم سے تین لاکھ گنا سے بھی زیادہ چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر (ستاروں کا عام ایندھن) ہائیڈروجن اور آکسیجن نہیں ہوتی بلکہ کاربن کے ایٹمز ہوتے ہیں۔ ایسے ستارے سفید بونے white dwarf کہلاتے ہیں۔ چوں کہ ماضی میں یہ ستارے اربوں سال تک کئی ہزار کھرب ٹن وزنی اپنی کمیت کو کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرات پر دہکاتے اور سلگاتے رہے ہوتے ہیں، اسی لیے اس طرح کے ستارے فیوژن کا عمل بند ہونے کے بعد بھی مزید اربوں سال تک اپنے اندر کی گرمی اور روشنی کو باہر خارج کرتے رہتے ہیں۔

ہماری کائنات میں زیادہ تر ستارے اکیلے نہیں بلکہ دو دو یا تین تین کے جَتھوں میں ایک دوسرے کی کشش ثقل میں بندھے ہوئے ایک دوسرے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی ہمارے سورج جیسا بڑا ستارہ (عموماً بڑے ستارے پہلے ختم ہوتے ہیں) اپنی زندگی پوری کر کے سفید بونے میں تبدیل ہوتا ہے تو اس ستارے کا مستقبل دو طرح کا ہو سکتا ہے۔

1۔ یہ سفید بونے ستارے اپنے ساتھی ستارے کے اتنا قریب ہوتے ہیں کہ اپنی طاقتور کشش ثقل کی بدولت اپنے ساتھی ستارے سے خام مال (ہائیڈروجن وغیرہ) چُرانا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی دوسرے ستارے کا خام مال سفید بونے ستارے کی کمیت (mass) میں شامل ہوتا ہے تو سفید بونے ستارے کی کمیت بڑھ جاتی ہے۔ کمیت بڑھتے ہی اس کے اندر حرارت اور گرمی بھی بڑھ جاتی ہے۔ حرارت اور گرمی بڑھنے پر سفید بونے ستارے میں موجود کئی ہزار کھرب ٹن موجود کاربن کے لاتعداد ایٹموں میں نیوکلئیر فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ سفید بونا ستارہ مر کر دوبارہ زندہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن یہاں اس سفید بونے ستارے کے لیے ایک مشکل بن جاتی ہے۔ اپنی پہلی زندگی میں جب اس کے اندر فیوژن کا عمل جاری تھا تو اس کے پاس ایک پورا نظام موجود تھا۔ جو اسے پھٹنے نہیں دیتا تھا اور اس کے اندر موجود ایندھن کو آہستہ آہستہ استعمال کر رہا تھا۔ مگر اب اس کے پاس فیوژن سے پیدا ہوئی توانائی کے دباؤ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے اب کچھ بہت ہی نرالا ہونے جا رہا ہے۔ بہت ہی بھیانک اور کائنات کا ایک عجیب نظارہ وجود میں آنے کو ہے۔

جیسے ہی اس سفید بونے میں کاربن یا اکسیجن کی فیوژن شروع ہوتی ہے تو اس میں موجود کئی ہزار کھرب ٹن مادہ ایک لمحے میں فیوژن کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ آنکھ جھپکتے ہی سفید بونے ستارے کا سارے کا سارا خام مال توانائی (energy) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہوئی روشنی کچھ لمحوں تک اس قدر تیز رہتی ہے کہ کئی سو کروڑ ستاروں کی روشنیوں کے برابر ہوتی ہے۔ یہ دھماکہ سپرنووا وغیرہ سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس تباہی کے بعد سفید بونے ستارے کا نام و نشان تک بھی نہیں بچتا۔ اس سفید بونے کا ایک ایک ایٹم (ذرّہ) توانائی میں بدل کر خلا کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے۔ یعنی اس کا ہمیشہ کے لیے قصہ تمام ہو جاتا ہے۔

2۔ کائنات میں کچھ ستارے اکیلے اکیلے بھی ہیں، جیسا کہ ہمارا سورج۔ اس طرح کے ستاروں کا (یا پھر ان ستاروں کا جو اپنے ساتھی ستاروں سے بہت دوری پر رہ کر محو گردش ہوں، ان کا) انجام سفید بونے بننے کے بعد مختلف اور حیران کن ہوتا ہے۔ ایسے اکیلے سفید بونے ستارے نہ ہی کسی دوسرے ستارے کا خام مال چُرا سکتے ہیں۔ نہ ہی اپنے اندر کمیت اور درجہ حرارت کو بڑھا کر دوبارہ سے فیوژن کا عمل جاری کر سکتے ہیں۔

تنہائی کے مسافر یہ سفید بونے اندر سے سرد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ سے لاکھوں پہ آتے ہیں اور لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ سے ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرات تک پہنچ جاتے ہیں۔ زمین پر موجود بڑی دوربینوں کی مدد سے فلکیاتدانوں نے ایک ایسے سفید بونے ستارے کے متعلق معلومات لیں کہ جو اب فقط 2700 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہی رکھتا ہے۔ یعنی یہ سفید بونا ستارہ سورج سے پانچ ہزار گنا زیادہ ٹھنڈا ہو چکا ہے۔

• کاربن کے ایٹموں کا مخصوص پریشر اور درجہ حرارت میں سے گزرنا انہیں کرسٹلز کی شکل دے دیتا ہے۔ یعنی 1000 ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر 1200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرات کی موجودگی میں ایک مربع انچ پر تین لاکھ انتیس ہزار 329000 کلوگرام کا دباؤ کاربن کو ہیرے میں بدل دیتا ہے۔ کاربن اس مخصوص پریشر اور درجہ حرارت پر ہیرا Diamond بن جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ کائنات میں کئی ایک سفید بونے ستارے مکمل طور پہ ہیرے میں ڈھل چکے ہوں۔ ان ستاروں کے اندر پریشر، مطلوبہ درجہ حرارت اور کاربن موجود ہوتا ہے، سو ان میں ہیروں کا بننا ناممکن نہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک عام بونے ستارے کا وزن سورج کے برابر یعنی 2000000000000000000000000000000 کلوگرام ہو سکتا ہے۔ یہ اتنا وزن ہے کہ اس کے مقابلے میں تین لاکھ تینتیس ہزار 333000 زمینوں کو ایک ساتھ ترازو کے ایک پلڑے میں تولا جا سکتا ہے۔ اور 81 زمینی چاند ایک زمین کے وزن کے برابر ہیں۔ ہمارے زمینی چاند کا وزن تقریباً 80,900,000,000,000,000,000 ٹن ہے۔
اگر ہیروں کے ایک چاند کو اس وقت دنیا میں موجود آٹھ ارب انسانوں پر تقسیم کیا جائے تو ہر ایک انسان کے حصے میں دس ارب گیارہ کروڑ پچیس لاکھ 10112500000 ٹن ہیرے آئیں گے۔

دنیا میں موجود سب سے بڑا ہیرا621 گرام (آدھا کلو سے کچھ زیادہ) وزنی Chullinan diamond ہے۔ جس کی قیمت تین سو ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ فقط621 گرام وزنی ہیرے کی قیمت ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ "ایک عام سفید بونے ستارے کو (جو کہ ہیروں میں تبدیل ہو چکا ہو) اگر دنیا کے تمام انسانوں پر تقسیم کیا جائے تو ہر ایک انسان کے حصے میں کتنے کتنے بڑے ہیرے آئیں گے؟ کاربن سے ہیروں میں تبدیل ہوا ایک سفید بونا ستارہ white dwarf star جو ہمارے سورج جتنا وزن رکھتا ہو، اگر اسے دبیا کی کُل آبادی پر بانٹا جائے تو دنیا کے ہر ایک انسان کے لیے اس ایک سفید بونے ستارے میں سے 2.7276446e+17 ٹن ہیرے آ سکتے ہیں”

تو اے حضرتِ انسان! کس بات کے جھگڑے ہیں؟ کس کو نیچا دکھانا اور کس کی روزی تنگ کرنی ہے؟ کسے قتل کرنا ہے؟ اور کس ریاست میں خون ریزی برپا کرنی ہے؟ کس کی زمین پر قبضہ کرنا ہے؟ کیوں کسی دوسرے انسان کی گردن کو ناحق اڑانا ہے؟ کیوں ایٹمی ہتھیاروں سے دودھ پیتے بچوں کو ان کی ماؤں کی گودوں میں بوٹی بوٹی کرنا ہے؟ اور کس لیے یہ سب کچھ کرنا ہے؟ مال و زَر کے لیے؟ معدنیات کے لیے؟ سونے، جواہرات اور ہیروں کی کانوں (mines) کے حصول کے لیے؟ تیل کے کنوؤں کے لیے؟ ان تمام خزانوں سے تو کائنات بھری پڑی ہے۔ یہ قابل مشاہدہ کائنات اتنی بڑی ہے کہ

"اس کائنات میں ہر روز اندازًا تیس کروڑ کے لگ بھگ ستارے ختم ہو کر بلیک ہولز، نیوٹران اسٹارز اور سفید بونوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اتنے ہی ستارے نئے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ختم ہو جانے والے ستاروں میں سب سے زیادہ ستارے سفید بونے بن جاتے ہیں۔ ان سفید بونوں میں سے کچھ ہمیشہ کے لیے توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور کچھ ٹھنڈے سرد پڑتے پڑتے ہیروں میں بدل جاتے ہیں۔ کائنات میں ان خزانوں کی کمی نہیں ہے۔ ہاں کمی ہے تو انسان کی کمی ہے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلکیات کو سیکھیے۔ فلکیات کو جانیے۔ یہ صرف ایک چھوٹا سا سائنسی علم ہی نہیں ہے۔ یہ کائنات اور قوانینِ کائنات کو جاننے کی کُنجی ہے۔ یہ میری، آپ کی اور پوری انسانیت کی سوچ کو بدل دینے والا ایک وسیع علم ہے۔ ہم ابتداء میں لکھ آئے تھے کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ سر! فلکیات پر لکھ کر اور چاند ستاروں اور کائنات پہ غور کر کے آپ کو کیا فائدہ ملتا ہے؟ اس پر میرا مختصر سا یہ جواب ہے کہ "چاند ستاروں اور کائنات پہ غور کر کے ہمیں وسیع سوچ، شعور اور فہم و ادراک ملتا ہے۔ انسانیت کا درد، نعمتوں کی تقسیم اور اپنی ذات کی پوزیشن سمجھ آتی ہے”

تو آئیں، فلکیات پر غور کریں۔ خزانوں اور عجائبات سے بھری اس کائنات میں غوطہ زن ہو کر اپنی حیثیت کو جانیں”

(جاری ہے)

تحریر : محمد یاسر لاہوری

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You