زمین جیسے سیاروں کی کھوج انسان ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں اور آج ہم نے زمین جیسے سینکڑوں
![](https://bbcurdutv.com/wp-content/uploads/2020/12/FB_IMG_1607960074604-720x470.jpg)
زمین جیسے سیاروں کی کھوج
پراکسیما بی (b) کی دریافت
زمین جیسے سیاروں کی کھوج انسان ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں اور آج ہم نے زمین جیسے سینکڑوں سیارے دریافت کئے ہیں۔
یہ امیزینگ سیریز صرف اور صرف زمین جیسے سیاروں کے بارے میں ہونے والی ہے۔ اس سیریز میں ہم آپکوں کائنات میں موجود ایسے سیاروں کی سیر کروائے گے جو بلکل زمین جیسے ہیں اور جہاں شاید زندگی بھی موجود ہے۔ آج کی پہلی قسط میں ہم شروعات کرینگے اپنے سب سے قریبی ستارے پراکسیما سنٹوری سے جسکے گرد ایک ایسا سیارہ چکر لگا رہا ہے جو نا صرف زمین جیسا ہے بلکہ وہاں پانی کی موجودگی کے امکانات بھی ہیں۔
تحریر___کاشف احمد
پروکسیما سنٹوری ایک سرخ بونا ستارا ہے جو زمین سے 4 نوری سال کے دوری پر واقع ہے۔ لمبے عرصے سے ماہرین فلکیات اس ستارے کا جائزہ لے رہے تھے اس امید کے ساتھ کے شاید ہمیں وہا کوئی سیارا مل جائے کیونکہ یہ ستارا کائنات میں موجود اربوں کھربوں بے شمار ستاروں میں ہمارے سب سے قریب واقع ہے اور اسکے گرد موجود اگر کوئی سیارا دریافت ہوتا ہے تو یہ ایک بڑی دریافت ہوگی بلکہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم کارنامہ ہوگا۔ بلاخر سائینسدانوں کی یہ امید رنگ لے آئی اور بیسوی صدی کے آخر میں اس بونے ستارے کے گرد ایک سیارے کی دریافت ہوئی۔ اس سے پہلے بھی ماہرین فلکیات نے ہزاروں سیارے دریافت کئے تھے اور ان دریافت ہونے والے ہزاروں سیاروں میں کچھ مخصوص سیارے ہی ایسے تھے جنکوں زمین کی جڑوا یا زمین جیسے سیارے کہہ سکتے ہیں لیکن پراکسیما سنٹوری کے گرد ہونے والے سیاری کی دریافت نے فلکیات سے دلچسپی رکھنے والے ہر انسان کے چہرے پہ خوشی بکھیر دی کیونکہ دریافت ہونے والا یہ سیارا نا صرف ہمارے سب سے زیادہ قریب تھا بلکہ یہ اپنے ستارے کے اسی زون میں چکر لگارہا تھا جسے زندگی کیلئے موزون مانا جاتا ہے اور یہ وہی زون ہے جہاں پانی لیکویڈ حالت میں موجود ہوسکتا ہے اور پھر جب بات پانی کی آتی ہے تو سیارے پر زندگی کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پراکسیما سنٹوری کے گرد چکر لگانے والے اس سیارے کو پراکسیما بی کا نام دیا گیا ہے۔
ستارے پراکسیما سنٹوری کی اگر بات کی جائے تو یہ ستارا ہمارے سورج سے کافی چھوٹا ہے یعنی اگر اس ستارے کی سائز میں دس گنا اضافعہ کردیا جائے تب ہی یہ ہمارے سورج کے برابر ہوجائیگا۔ اگر کسی انسان کو اس ستارے کے گرد گھومنے والے سیارے پراکسیما بی پر بھیجا جائے تو وہاں سے سورج کافی بڑا نظر آئے گا ہماری زمین کے نسبت کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سرخ بونے ستارے دیگر ستاروں کے نسبت کم گرم ہوتے اور کم روشن ہوتے ہیں یعنی یہ ٹھنڈے ستارے ہوتے ہیں اسلئے ان کے گرد گھومنے والے سیارے قریب سے ان کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں چونکہ پراکسیما بی بھی اپنے سورج کے کافی قریب سے چکر لگارہی ہے اسلئے اس سیارے سے اسکا ستارا زمین کے نسبت زیادہ بڑا نظر آئے گا۔ اگر ہمارے سورج کی بات کی جائے تو زمین سورج سے کچھ 93 میلین میل کی دوری سے آربٹ کررہی ہے لیکن پراکسیما بی اپنے ستارے کے گرد تقریبا 4.6 میلین میل کی دوری سے اپنا ایک چکر مکلمل کررہی ہے اور یہ دوری ہمارے زمین اور سورج کی دوری کا تین فیصد بھی نہیں ہے۔ اتنے قریب سے چکر لگاتے ہوئے آپ لوگوں کے زہن میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ پراکسیما بی پر زندگی ممکن کیسے ہوگی اگر یہ اتنے قریب سے اپنے ستارے کے گرد چکر لگا رہی ہے ؟؟
اسکا جواب میں نے اوپر بھی دیا ہے کہ بونے ستارے زیادہ گرم نہیں ہوتے اور نا زیادہ روشن ہوتے اسلئے ان کے گرد سیاروں پر زندگی ڈھونڈنے کیلئے ہمیں ستارے کے قریب سیارے تلاش کرنے ہوتے ہیں۔
4 نوری سال دور اس پڑوسی ستارے کو زمین پر سے دیکھنے کیلئے ہمیں ایک ٹیلی سکوپ کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ ایک چھوٹا اور کم روشن ستارا ہے لیکن پراکسیما بی سیارے کی سطح پر کھڑے ہوکر جب آپ آسمان کی طرف دیکھیں گے تو وہاں سے آپ بنا کسی ٹیلی سکوپ کے بھی ہمارے سورج کو ایک معمولی چوٹے سے نقطے کی مانند دیکھ سکیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سورج زیادہ روشن ہے اور پراکسیما کی دوری بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔
پلینیٹ پراکسیما بی ہماری زمین سے 1.3 گنا زیادہ بڑا ہے اور اس سائز کے سیاروں پر چٹانیں بھی موجود ہوتی ہیں اسلئے سائینسدان کافی پر امید ہے کہ یہاں بڑے بڑے پہاڑ موجود ہونگے اور اس سیارے کی آربٹ زون کو دیکھتے ہوئے وہاں پانی کی موجودگی بھی ممکن ہوسکتی ہے تاہم سائینسدانوں نے ابھی تک اس سیارے سے نکلنے والی گیس کو ٹھیک طرح سے ڈی ٹیکٹ نہیں کیا ہے مطلب ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ وہاں کی درجہ حرارت کتنی ہوگی اور وہاں پر موحول کیسا ہوگا وغیرہ۔ ماہرین فلکیات صرف اتنا جانتے ہیں کہ اپنے ستارے کی جس زون میں یہ سیارا موجود ہے وہاں زندگی پنپنے کے زیادہ امکانات ہیں اور شاید وہاں پہلے سے ہی کسی قسم کی زندگی موجود ہوں البتہ شرط یہ ہے کہ وہاں پانی بھی ہونا چاہیے کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔
ماہرین فلکیات زمین جیسے سیاروں پر پانی کی تلاش اسلئے کرتے ہیں کیونکہ اگر دیکھا جائے تو زمین پر زندگی کی شروعات پانی سے ہی ہوئی تھی اسلئے پانی زندگی کیلئے ایک اہم جز بن جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی سیارے پر اکسیجن موجود ہے یا نہیں لیکن اس بات سے فرق ضرور پڑتا ہے کہ کسی سیارے پر پانی موجود نہیں ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پراکسیما بی ہماری زمین کے نزدیک واقع سیاروں میں سب سے زیادہ قریب واقع ہے اور یہ ایک زمین جیسا سیارا بھی ہے لیکن یہ بات زہن میں رکھئے کہ ابھی تک ماہرین فلکیات کو اس سیارے پر پانی کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور نا ہی ماہرین فلکیات اس سیارے کی فضا اور درجہ حرارت کے بارے میں جانتے ہیں اسلئے یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اس سیارے کی دریافت نے ہمیں خوش ضرور کردیا تھا لیکن دیکھا جائے تو ہماری ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس نہیں ہوئی ہے کہ اس سیارے تک رسائی حاصل کرسکے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس سیارے تک پہنچنے میں 6،400 سال کا عرصہ لگے گا یعنی فی الحال ہمارے لئے وہا پہنچنا ناممکن ہے بس ہم صرف تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں کیا کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا لیکن جیمز ویب جیسی ٹیلی سکوپ سے ہمیں یہی امیدیں ہیں کہ وہ ایسے سیاروں کی فضاء سے نکلنے والی مختلف گیسوں کا جائزہ لے کر ہمیں وہاں کی ماحول کے بارے میں بتائیں گی جوکہ آنے والے 2 تین سالوں میں لانچ کی جائیگی جسکا ہم سب کو انتظار ہے کیونکہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے ہمیں کائنات کے بہت سارے راز معلوم ہوجائینگے لیکن ہم بلکل یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ ضرور یہ کارنامہ سرانجام دے گی بلکہ یہ محض ہم لوگوں کی امیدیں ہیں جو آنے والے دور سے وابسطہ ہیں۔ یہ زمین جیسے سیاروں کے بارے میں پہلی قسط تھی اور زمین جیسے سیاروں کی یہ سیریز ہم جاری رکھے گے۔ انشاءاللہ اگلی قسط میں ملاقات ہوگی تب تک کیلئے اللہ حافظ ۔۔۔
سائینسدانوں نے ایک ایسے سیارے کی کھوج بھی کی ہے جہاں پانی کے سمندر موجود ہیں۔ سیارے K2-18-b کے بارے میں ڈاکومینٹری دیکھنے کیلئے یہاں اس لنک پر کلک کریں👇👇
https://youtu.be/jeNsfMeWYxc