انٹرنیشنلاہم خبریں

یروشلم: اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے دمشق گیٹ کھول دیا

پچاس سالہ ام ماجد الرئیس نے دھماکوں کی آوازیں سنیں تو خوف سے چیختی ہوئی وہ اندھیرے میں اپنے چاروں بچوں کی طرف بھاگیں۔ غزہ سٹی میں وہ رات کے وقت اپنے فلیٹ میں تھیں کہ اس بلند عمارت پر تابڑ توڑ اسرائیلی بم گرنے لگے تھے۔
بدھ بارہ مئی کی رات اس اپارٹمنٹ بلڈنگ پر گرنے والے اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے، دروازے اکھڑ کر دور جا گرے تھے اور کنکریٹ کی دیواریں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس طرح نیچے زمین پر جا گریں کہ ان کا ملبہ دور دور تک جا گرا تھا۔ ام ماجد الرئیس چیخ رہی تھیں اور اس کوشش میں تھیں کہ ان کے بچے محفوظ رہیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری، درجنوں فلسطینی ہلاک

غزہ پٹی کے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین موجودہ خونریزی 2014ء کی جنگ کے بعد سے اب تک کی شدید ترین اور سب سے ہلاکت خیز کشیدگی ہے، جس میں انسانی جانوں کا ضیاع مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے میں الرئیس خاندان کی طرح بہت سے دیگر فلسطینی کنبے بھی ایک بار پھر وہی سوال پوچھ رہے ہیں، جو وہ پہلے بھی پوچھتے رہے تھے: ‘ہم کہاں جائیں؟‘‘

غزہ پٹی ‘جیل کی طرح ہے‘
ام ماجد الرئیس اپنے فلیٹ والی عمارت پر اسرائیلی بمباری کے بعد اپنے ایک جاننے والے فلسطینی خاندان کے گھر عارضی طور پر پناہ لے چکی ہیں۔ انہوں نے جانے سے پہلے اپنے فلیٹ کے ایک کچھ کم تباہ ہونے والے کمرے کی ایک الماری سے چند کپڑے ایک تھیلے میں بھر کر ساتھ لے لیے تھے اور اپنے دو ٹین ایجر بیٹوں اور دونوں کم عمر بیٹیوں کو لے کر گھر سے نکل پڑی تھیں۔

موضوعات
غزہ پٹی
اشتہار

‘اسرائیلیوں سے بچ کے رہنا‘

Israel I Gaza I Erneute Angriffs- und Zerstörungswelle im Nahen Osten
غزہ سٹی میں اسرائیلی فضائیہ کی طرف سے بدھ بارہ مئی کو دن میں کیے گئے اایک فضائی حملے کے بعد کی ایک تصویر
انہوں نے بعد ازاں اپنے میزبان گھرانے کی رہائش گاہ سے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ”اسرائیلی فضائی حملے کسی بھی پیشگی وارننگ کے بغیر کیے گئے۔ یہ پورا علاقہ ہی ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ بالکل جیل کی طرح۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں، آپ نشانے پر ہی ہوں گے۔‘‘

دو ملین کی آبادی والی ساحلی پٹی
غزہ پٹی تقریباﹰ دو ملین کی بہت گنجان آبادی والا ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے، جہاں فضائی حملوں کی صورت میں تنبیہ کے لیے نا تو سائرن بجتے ہیں اور نا ہی وہاں کوئی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ اس تنازعے کے دوران گزشتہ برسوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔

غزہ پر اسرائیل بمباری، بچوں سمیت بیس افراد ہلاک

گزشتہ دو دنوں کے دوران غزہ پٹی کے علاقے میں اسرائیلی فضائی حملوں میں تین ایسی بڑی بڑی رہائشی عمارات کو منہدم کر دیا گیا، جو ‘ہاؤسنگ ٹاورز‘ کہلاتی تھیں اور جن میں فلسطینی تنظیم حماس کے چند اہم دفاتر بھی تھے اور چند کاروباری اداروں کے بزنس آفس بھی۔ کچھ مقامی باشندوں کے مطابق ان ہاؤسنگ ٹاورز پر فضائی حملوں سے قبل اسرائیلی فوج نے چند تنبیہی فائر بھی کیے تھے، جن کا مقصد ان عمارات میں موجود افراد کو خوف زدہ کر کے وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا تھا۔

یروشلم: مسجد اقصٰی میں پرتشدد جھڑپیں، 180 افراد زخمی

Palästina Gazastreifen | Israelische Luftschläge in der Nacht
غزہ سٹی کے رہائشی علاقے میں جمعرات تیرہ مئی کو علی الصبح کیے گئے ایک اسرائیلی فضائی حملے کے بعد کی تصویر
درجنوں ہلاک شدگان میں بچے اور خواتین بھی
اسرائیلی جنگی طیاروں نے اس گنجان آباد علاقے میں بغیر کسی وارننگ کے کئی بلند و بالا رہائشی عمارات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ عین اس علاقے کو نشانہ بنانے کی وجہ اسرائیل کا یہ الزام بنا کہ اسی علاقے میں فلسطینی عسکریت پسند رہتے تھے۔

Jerusalem – Mount of Olives (Reuters/R. Zvulun)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔

Jerusalem 1967 view from Mount of Olives (Reuters/Government Press Office)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔

Jerusalem al-Aqsa-Mosque (Reuters/A. Awad)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔

Jerusalem 1967 – al-Aqsa-Mosque (Reuters/)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔

Jerusalem – Damascus Gate (Reuters/R. Zvulun)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔

Jerusalem 1967 Damascus Gate (Reuters/)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔

Israel – Jerusalem – Altstadt (Reuters/A. Awad)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔

Jerusalem 1967 Old City scene- Altstadt (Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔

erusalem Western Wall-(Reuters/R. Zvulun)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔

Jerusalem 1967 Western Wall Reuters/Fritz Cohen/Government Press Office)
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔

1 | 10
اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی توسیع روکنے کا مطالبہ

غزہ میں پیر کے دن سے جمعرات تک مجموعی طور پر 65 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں۔ مرنے والوں میں عسکریت پسند بھی تھے اور عام شہری بھی۔ اس کے علاوہ اپارٹمنٹ بلڈنگ پر فضائی حملے میں بھی کم از کم دو خواتین اور کئی بچے ہلاک ہو گئے۔

ہسپتال میں متاثرین کے بیانات
ان حملوں کے بعد غزہ کے ایک ہسپتال میں بہت سے متاثرہ فلسطینیوں نے اپنے کئی تجربات بیان کیے کہ کس طرح انہوں نے تباہ شدہ عمارات کے ملبے سے اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں نکالیں۔ ایک فلسطینی خاتون نے بتایا کہ اس کا چار سالہ پوتا اور حاملہ بہو بدھ بارہ مئی کو اس وقت مارے گئے، جب اسرائیلی فضائیہ نے اپنے حملوں کے دوران ایک ایسی دو منزلہ عمارت کو بھی نشانہ بنایا، جس میں یہ خاتون اور اس کے اہل خانہ رہتے تھے۔

یروشلم: اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے دمشق گیٹ کھول دیا

غزہ کے اسی ہسپتال کے مردہ خانے میں سسکیاں لے لے کر روتی ہوئی ایک خاتون ام محمد الطلبانی نے بتایا، ”انہوں (اسرائیل) نے کسی بھی طرح کی وارننگ کے بغیر بمباری کی۔ ہمارے گھر میں تو بچوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘

An explosive device injured four Israeli soldiers at the border on February 17.
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔

Gazastreifen UNRWA Versorgung Palästinenser (picture-alliance/Zuma/S. Jarar’Ah)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔

Palästina Anschlag auf Rami Hamdallah im Gazastreifen (Reuters/I. Abu Mustafa)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔

Israel greift Ziele im Gazastreifen an (Reuters/I. A. Mustafa)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔

Palästina Vor dem Marsch der Rückkehr in Rafah (picture-alliance/dpa/ZUMA Wire/APA Images/A. Amra)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

Tausende Palästinenser kommen zum Marsch der Rückkehr (Getty Images/AFP/M. Hams)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
لینڈ ڈے مارچ
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔

Proteste im Gazastreifen (Reuters/I. A. Mustafa)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔

Speaking on April 9 in the Israeli town of Sderot, near Gaza, Prime Minister Benjamin Netanyahu said: "We have one clear and simple rule and we seek to express it constantly: if someone tries to attack you — rise up and attack him. We will not allow, here on the Gaza border, them to hurt us. We will hurt them.”
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔

Proteste in Gaza City (Reuters/M. Salem)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔

Proteste in Gaza City (Getty Images/AFP/M. Hams)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔

1 | 10
اسرائیلی حکومت کا الزام
اسرائیلی حکومت ایک عرصے سے فلسطینی تنظیم حماس پر یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ جب فلسطینی عسکریت پسند رہائشی علاقوں سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کرتے ہیں، تو بعد میں اسرائیلی جوابی کارروائی سے بچنے کے لیے حماس کے شدت پسند عام انسانوں کو اپنے لیے ڈھال بنا لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حماس اور دیگر فلسطینی شدت پسند تنظیموں نے اپنے کمانڈ سینٹر مختلف رہائشی عمارات میں قائم کر رکھے ہیں۔

یروشلم: رمضان میں جھڑپیں، 100 سے زائد فلسطینی زخمی

اسرائیل کا یہ الزام اپنی جگہ، لیکن 2014ء کی جنگ میں بھی اسرائیل کی اس حکمت عملی پر شدید تنقید کی گئی تھی، جس کے تحت اس نے تب بھی غزہ میں عام رہائشی عمارات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔

آج کئی سال بعد غزہ پٹی کے علاقے میں ایک بار پھر یہی ہو رہا ہے۔

غزہ کے شہریوں کا المیہ
غزہ کے شہریوں کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ ماضی کی کسی بھی جنگ کی خوف ناکیوں کو بھلا بھی نہیں پاتے کہ ویسی ہی تباہی اور ہلاکتیں ایک بار پھر ان کے دورازوں پر دستک دینے لگتی ہیں۔ ان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ وہ غزہ میں رہتے ہوئے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

فلسطینی علاقوں میں ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم: عالمی عدالت میں تحقیقات کی راہ ہموار

Palästina Gazastreifen Instagram Frauen (Getty Images/AFP/M. Hams )
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔

Palästina Gazastreifen Instagram Frauen (Getty Images/AFP/M. Hams )
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔

Palästina Gazastreifen Instagram Frauen (Getty Images/AFP/M. Hams )
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔

Palästina Gazastreifen Instagram Frauen (Getty /AFP/M. Hams )


’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔

Palästina Gazastreifen Instagramm Frauen (G/AFP/M. Ha


’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔

Palästina Gazastreifen Instagramm Frauen (Gett
/AF


’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔

Palästina Gazastreifen Instagram


’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا


اسرائیل بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ

تکلیف کی بات یہ بھی ہے کہ وہ غزہ چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ ان کے مصائب میں یہ حقیقت بھی اضافے کا سبب بنتی ہے کہ یہ چھوٹی سی اور بہت تنگ ساحلی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔

چودہ سال سے زمینی اور سمندری ناکہ بندی
اسرائیل اور مصر نے مل کر اس خطے کی ناکہ بندی اس وقت سے کر رکھی ہے، جب 2007ء میں وہاں فلسطینی تنظیم حماس کی حکومت بنی تھی۔ جہاں تک غزہ کی زمینی سرحدوں کی بات ہے، تو وہاں سینسرز والی باڑیں لگی ہوئی ہیں، کنکریٹ کی بہت اونچی اونچی دیواریں ہیں اور ایسی فولادی رکاوٹیں بھی جن کے باعث وہاں سے نکلنا ممکن ہی نہیں۔

اسرائیل نے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کر کے بہت بُرا جوا کھیلا، ایران

جہاں تک غزہ کی سمندری حدود کا تعلق ہے تو اس کے بحیرہ روم سے جڑے ساحلوں کی بھی اسرائیل نے مسلسل کئی برسوں سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اسرائیلی بحریہ کی گشتی کشتیاں کسی بھی بحری جہاز یا کشتی کو غزہ کی بندرگاہ سے لے کر 16 سمندری میل تک پھیلتے ہوئے بحری علاقے میں داخل ہونے ہی نہیں دیتیں۔


م م / ک م (اے پی)

ISIS Kämpfer in Rakka Syrien
2014ء: مشرق وسطیٰ کے لیے ناقابل فراموش سال
آئی ایس کی پیش قدمی
انتہا پسند تنظیم آئی ایس 2013ء ہی میں شام کے شہر رقعہ میں اپنے قدم جما چکی تھی۔ جنوری میں یہ تنظیم عراقی شہر فلوجہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب یہ تنظیم عراقی صوبہ انبار تک پہنچ چکی ہے اور بغداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You