اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

کائنات ایک پہیلی جیسی ہے لیکن اس میں اور پہیلی میں ایک فرق ہے، پہلی سُلجھائی جاسکتی

دو سیاروں کا مِلّن (The Great Conjuction)

کائنات ایک پہیلی جیسی ہے لیکن اس میں اور پہیلی میں ایک فرق ہے، پہلی سُلجھائی جاسکتی ہے

مگر کائناتی رازوں کو سُلجھانا ممکن نہیں لگتا کیونکہ اس کی وسعتوں کا کنارہ ہماری سوچ پر ہنستا دکھائی دیتا ہے۔ 400 سال قبل ہمیں لگتا تھا کہ کُل کائنات ہماری زمین کے گرد محو گردش ہے، مگر پھر گیلیلیو نے ٹیلی سکوپ ایجاد کرکے جب مشتری کے چاندوں کو اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو یک دم ہمارے لیے کائنات کو سمجھنے کا زاویہ بدل گیا، یہ بہت بڑی دریافت تھی، کیونکہ اس کے ذریعے ہمیں تصدیق ہوگئی کہ تمام سیارے ہمارے گرد نہیں بلکہ زمین اور تمام سیارے، سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
اس کے بعد ایک اور بریک تھرُو ایڈون ہبل کے ذریعے 90 سال قبل ہوا، جب ہمیں پتہ چلا کہ کائنات رُکی ہوئی نہیں بلکہ پھیل رہی ہے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ 90 سال قبل ہم ملکی وے کے علاوہ صرف ایک ہی کہکشاں کو جانتے تھے جسے اینڈرومیڈا کہا جاتا تھا، یہی سب ہمارے لیے کُل کائنات تھی، لیکن آج ہمارے لیے کائنات میں کہکشاؤں کی تعداد 2 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے! صرف 90 سال میں ہم نے وہ کچھ جان لیا جو انسانیت مجموعی طور پر ہزاروں سال میں نہیں جان پائی۔
مگر یہاں ایک مسئلہ ہے، وہ یہ کہ یہ تمام باتیں وہ ہیں جنہیں آپ اسپیس آبزرویٹریز میں جاکر کروڑوں ڈالر مالیت کی ٹیلی سکوپس کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں، کیا ہم کسی ایسے فلکیاتی واقعے کے گواہ بن سکتے ہیں جو عام آنکھ سے دکھائی دے؟ بالکل! تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، ابھی بھی اگر آپ عام آنکھ سے فلکیاتی واقعات کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ایسے بےشمار واقعات یکے بعد دیگرے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 21 دسمبر 2020ء کی شام کو ہونے جارہا ہے، جب شام کے وقت مغرب کی جانب ہم غروب آفتاب کے فوراً بعد سیارہ زحل اور مشتری کو "ایک” ہوتا دیکھ سکیں گے! یہ دونوں سیارے اگرچہ ہر 20 سال بعد نزدیک آتے ہیں مگر اس حد تک نزدیک آجائیں کہ زمین سے دیکھنے پر ایک ستارے جیسے دکھائی دیں، ایسا صدیوں بعد ہوتا ہے! آخری بار یہ گلیلیو کے دور میں یعنی 1623ء میں ہوا تھا مگر اس دوران یہ سورج کے اتنا قریب تھے کہ ان کا بآسانی مشاہدہ ممکن نہیں تھا، جبکہ اس سے پہلے 4 مارچ 1226ء کو صبح فجر کے وقت یہ اتنا قریب آئے تھے، یعنی آسان الفاظ میں کہا جائے تو انسانیت 800 سال بعد ایسا نظارہ دیکھ رہی ہے۔ مشتری اور زحل سے ہماری”یاری“ اس خاطر بھی ہے کیونکہ یہ ہمارے”محافظ“ بھی ہیں یعنی نظام شمسی کے کنارے سے ہماری جانب آنے والے پتھروں کو یہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے اتنے درجنوں کے حساب سے چاند ہیں، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو آوارہ بھٹک رہے تھے اور مشتری زحل نے انہیں قید کرلیا۔ بہرحال کورونا وائرس کے اس دور میں، جب آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تو اِن فلکیاتی ایونٹس کو مِس مت کیجیئے! 21 دسمبر 2020ء کو شام کے وقت اپنی فیملی کے ساتھ لان میں بیٹھیے، انہیں اس نظارے کے متعلق بتائیں اور یہ بھی بتانا مت بھولیے گا کہ سامنے جو ستارہ نما سیارہ دکھائی دے رہا ہے اس میں مشتری اتنا بڑا سیارہ ہے کہ اس میں 1300 زمینیں سما سکتی ہیں، جبکہ سیارہ زحل میں 764 زمینیں سما سکتی ہیں، یعنی جو ستارہ نما نقطہ آپ کو دکھائی دے رہا ہے جس میں مجموعی طور پر دو ہزار زمینیں سما سکتیں ہیں! یہ ہیں ہمارے نظام شمسی کے دیوہیکل گیسی سیارے اور یہ اِن کے مِلّن کا وقت ہے!!
زیب نامہ
نظام شمسی کے کس چاند پر ناسا ننھی آبدوز اتارنے کے لیے تیار ہے؟ کونسا چاند ایسا ہے جہاں ڈی این اے نما آرگینک مالیکیول ہمیں مل چکے ہیں؟ اس Great Conjuction کے متعلق مزید معلومات کے لئے:


#زیب_نامہ
#thegreatconjunction #مشتری #زحل

تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You