فائر وال کیا ہے، کیسے کام کرتا ہے؟
چین میں حکومتی پالیسی کی وجہ سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال باقی دنیا کی طرح آسان اور آزاد نہیں ہے، 90ء کی دہائی میں جب چین میں انٹرنیٹ عام ہوا تو اس وقت حزب اختلاف میں موجود ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کیا۔
جس کی بنا پر حکومت کو تنقید و منفی پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت حکومت نے اس کا توڑ نکالنے کیلئے سر جوڑ لیے، اب اس کا انتظام کرنے کیلئے کمیونسٹ حکومت نے اس انفارمیشن کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا تھا جس کیلئے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ بیٹھے اور انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اس کا حل انٹرنیٹ ٹریفک کے بہاؤ پر کچھ فلٹر انسٹال کرنے کا مشورہ دیا، یہ پہلی نسل کے فائر وال تھے۔
فائر وال اصل میں ایک ایسا سافٹ ویئر ہوتا ہے جو کسی بھی نیٹ ورک پر آنے والی اور اس سے باہر جانے والی ٹریفک کو فراہم کئے گئے رولز کے حساب سے بلاک کرتا ہے یا ترسیل کی اجازت دیتا ہے، چین میں 1998ء سے 2006ء تک وہ پہلا مرحلہ تھا جب ملک میں انٹرنیٹ پر فائروال انسٹال کیا گیا اور 2013ء تک دوسرا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔
یہ فائروال کوئی سادہ یا عام طور پر استعمال ہونے والا فائروال نہیں ہے بلکہ اس میں جو ایک چیز سب سے اہم استعمال کی جاتی ہے وہ ڈیپ پیکٹ انسپکشن (Deep packet inspection) ‘‘ ہے۔
پیکٹ کیا ہے؟
انٹرنیٹ پر انفارمیشن کا تبادلہ پیکٹس کی صورت میں ہوتا ہے جس میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک پیکٹ ہیڈر‘‘ (Packet Header) اور دوسرا پیکٹ پیلوڈ(Packet Payload) ‘‘ پہلے میں بھیجنے والے اور موصول کرنے والے کا ایڈریس، پروٹوکول، پورٹ اور سکیورٹی انفارمیشن ہوتی ہے جبکہ پے لوڈ پیکٹ میں اصل میسج یا بھیجی گئی معلومات ہوتی ہیں۔
عام طور پر فلٹر یا فائروال میں پیکٹ کا صرف ہیڈر چیک کیا جاتا ہے اور اس پر ٹریفک رولز کے حساب سے عمل کیا جاتا ہے اس کو Shallow packet inspection )کہا جاتا ہے، میسج کے اندر کیا ہے وہ چیک نہیں کیا جاتا لیکن DPI کی صورت میں پیکٹ کا اصل میسج بھی چیک کیا جاتا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ انسپکشن صارفین کی پرائیویسی کا خیال نہیں کرتی۔
ڈیپ پیکٹ انسپکشن کیلئے انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں(ISPs) کے آلات میں مخصوص سافٹ وئیر اور ہارڈوئیر انسٹال کئے جاتے ہیں، DPIکا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کی جانچ کر کے کوالٹی کو بہتر بنانا ہے، چند دن پہلے یورپی یونین نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں Child abuse کے متعلق مواد کو سکین کرنے کیلئے ایک ایسا سسٹم متعارف کرایا جائے گا، آپ نے Encryptionکے بارے بھی سنا ہوگا مثلاً وٹس ایپ End-to-end encryption کا استعمال کر کے چیٹ کرنے والوں کے درمیان معلومات کو ایسے ان کوڈ کرتا ہے کہ ان دونوں کے سوا کوئی اس کو پڑھ نہیں سکتا۔
ابھی تک وٹس ایپ کی اس انکرپشن کو محفوظ مانا جاتا ہے کیونکہ امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کئی بار وٹس ایپ کی کمپنی میٹا کو عدالت کے ذریعے درخواست کر چکی ہے کہ اس کو معلومات تک رسائی دی جائے لیکن وٹس ایپ نے انکار کیا ہے، ایسی محفوظ ایپلی کیشنز کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ ان پر پابندی لگا دی جائے اور اس کی جگہ ایسی ایپ لانچ کی جائے جس کی نگرانی آسان ہو، جیسا کہ چین میں ہے۔
اس قسم کی انسپکشن سے کسی بھی ملک میں انٹرنیٹ پر چلتے ٹرینڈز، مخصوص ایپلی کیشن اور ویب سائٹ تک رسائی کو بلاک کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی حکومت یا ادارہ اپنے ملک میں اپنے شہریوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتا ہے، اس مقصد کیلئے مخصوص الفاظ سے مخصوص ویب سائٹس تک رسائی اور سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈ کو روک کر اور ایپلی کیشن کو سست بنا کر عوام کو ایک حصار میں بند کیا جاتا ہے۔
کیا فائر وال سے بچنا ممکن ہے؟
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں وی پی این کا استعمال ٹویٹر کی بندش کے بعد بڑھ گیا ہے، جب کوئی وی پی این استعمال کرتا ہے تو اس کی ساری ٹریفک وی پی این سرور کی طرف جاتی ہے، وی پی این خود سے بھی انٹرنیٹ کو سست بناتے ہیں، ہمارے جیسے ملک میں واٹس ایپ یا دوسری سوشل میڈیا ایپس کو لمبے عرصے تک بند رکھنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہ کمپنی لاکھوں کروڑوں صارفین سے محروم ہو جاتی ہے۔
اگر ان سب باتوں کا خلاصہ پیش کروں تو پاکستان میں انسٹال ہونے والے فائروال کا مقصد ملک میں انٹرنیٹ پر شیئر کیے جانے والے مواد کو فلٹر کرنا ہے، سوشل میڈیا پر حکومت اور اداروں کے خلاف مواد کو روکنا ہے نیز ملکی سلامتی کے پیش نظر ریاست مخالف پروپیگنڈا کی روک تھام اور ایسی تمام ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کو بلاک کرنا جو کسی خاص نظریہ کو یا ملکی مفاد کے منافی مواد کے پھیلاؤ کا باعث بنیں۔
وقاص ریاض قائد اعظم یونیورسٹی میں فزکس کے طالب علم ہیں، سائنسی امور پر ان کے مضامین اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔