بے راہرو‘ خواتین کی دینی تربیت کیلئے معصوم مفتی قوی کی صحت یابی کے لئے دعا کریں
اتفاق کہئیے یا قسمت کی ستم ظریفی مقوی طاقت دینے والی چیز کو کہتے ہیں اور ہمارے ملک میں تو ویسے بھی اسکی خاصی کمی ہے یقین نہ آئے تو دیواروں پر چسپاں اور لکھے ہوئے اشتہاروں پر نظر ڈال لیجئے جہاں عقل و خرد کو طاقت دینے والی علمی درسگاہوں سے زیادہ مردانہ قوت بڑھانے کے ٹونے ٹوٹکوں کے اشتہار زیادہ نظر آتے ہیں۔
ایسے کمزور معاشرے میں مفتی قوی جیسے مقوی مرد تو باعث فخر ہونے چاہئیں سونے پر سہاگہ وہ دین کی ترویج اور بے راہ عورتوں کی آخرت سنوارنے جیسے مشکل کام کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے۔ مفتی صاحب یوں تو رویت ہلال کمیٹی کے ممبر تھے لیکن انہوں نے اپنی تمام توجہ آسمان پر چاند دیکھنے کے بجائے زمین پر اترے چاندوں پر مرکوز کر رکھی تھی اسی بنا پر اکثر موصوف کسی نہ کسی چاند کے دامن میں پائے جاتے تھے۔
رویت ہلال کمیٹی کی ممبری تو گئی لیکن چاند دیکھنے کی عادت نہ بدلی۔
دوسری طرف مفتی مقوی کافی عرصہ تک حکمران جماعت کے دامن میں بھی پائے گئے لیکن جب ان کی شہرت کا وزن پی ٹی آئی کے نازک دامن سے زیادہ ہونے لگا تو بقول شاعر موصوف کے ساتھ
‘ لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں’
والا معاملہ ہو گیا پہلے پہل میڈیا کی نظروں میں مفتی صاحب قندیل بلوچ نامی اداکارہ کے سلسلے میں سامنے آئے جب اداکارہ کے ساتھ کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئیں یار لوگ نے اگرچہ خوب اس میں نمک مرچ لگائی لیکن بقول مفتی صاحب وہ ملاقات خالصتاً ‘مذہبی تربیت’ کے لئے تھی۔
مفتی صاحب کی اس تربیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس ماڈل/اداکارہ کی آخرت جلدی آ گئی اور اسکے بھائی نے اسے غیرت کے نام پر بےغیرتی سے قتل کر دیا کون سا قندیل بلوچ پہلی عورت تھی جو غیرت کے نام پر قتل ہوئی جہاں اور بہت سی ہوتی ہیں اسی میں ایک اور نام کا اضافہ ہو گیا اس لئے کچھ دن شور اٹھا میڈیا میں بھی ٹسوے بہائے گئے چند ایک نے شرمندہ شرمندہ مذمت کی اور باقیوں نے دل میں ‘ایسے کاموں کا ایسا ہی انجام’ کہہ کر اپنی راہ لی۔
قندیل بلوچ کے قتل کی خبر آنے پر مفتی مقوی نے کہا کہ ’مستقبل میں آپ جب کسی مذہبی عالم کی تذلیل کریں گے تو اس عورت کی قسمت کو یاد رکھیں گے۔‘ صد حیف اس مقوی قومی اثاثے کو پولیس نے اس عیار و مکار خاتون جس نے ایک نیک نیتی پر مبنی پاک ملاقات کا ناجائز فایدہ اٹھایا اس قندیل بلوچ کے قتل کیس میں مفتی مقوی صاحب دھر لیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی قانون کی فتح اور انصاف کا بول بالا ہوا اور مفتی صاحب ایک ‘باغیرت قتل’ کے الزام سے ‘باعزت’ بری ہو گئے۔
اس المناک سانحہ نے مفتی صاحب کی ذہنی حالت پر برا اثر چھوڑا اور مفتی صاحب نے دین کی اس خدمت سے منہ موڑ لیا اور میڈیا پر چند ایک جلوہ افروزیوں اور کچھ بیانات کے سوا گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔
لیکن سائنس کا اصول ہے کہ آپ طاقت کو جتنا دبا کر رکھیں گے وہ اسی قوت سے واپس آئے گی اسی لئے مفتی مقوی صاحب بھی ایسی قوت سے واپس آئے کہ ‘ جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا’۔ ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کے تھپڑ نے مقوی صاحب سے مفتی کا اعزاز چھین لیا اور ان کے خاندان نے انہیں گھر پر نظر بند کر دیا ہے ہائے ہائے کسی نے خیال نہ کیا کہ اتنے سارے چاند مقوی صاحب کی ‘دینی تربیت’ سے محروم ہو جائیں گے۔
اصل سازش تو یہ تھی اگرچہ ان کے چچا نے جو پریس کانفرنس کی اس میں وہ سازش کے اس پہلو پر بات کرنا شاید بھول گئے لیکن انہوں نے عوام کو ‘سابقہ مفتی’ صاحب کی معصومیت کا ضرور بتلا دیا “عبدالقوی کو لوگوں نے استعمال کیا وہ سازش کو سمجھ نہ پائے”۔ ان کے خاندان کے بقول مقوی صاحب کا ذہنی علاج کیا جا رہا ہے کیوں کہ ان کی یہ تمام حرکات ‘عالم جنوں’ میں سرزد ہوئیں۔ ہم بھی دعاگو ہیں کہ مقوی صاحب صحتیاب ہو کر معاشرے کی بے راہرو خواتین کی دینی تربیت کے سلسلے کو دوبارہ وہیں سے شروع کریں جہاں سے ٹوٹا تھا البتہ اس بار انہیں ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ ان کی معصومیت کا چلتر باز عورتیں فائدہ نہ اٹھا جائیں۔