چمن فالٹ لائن میں لرزش کے دعوے: کیا زلزلوں کی پیشنگوئی کرنا ممکن ہے؟
یورپی ملک نیدرلینڈز میں قائم تحقیقاتی ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع چمن فالٹ لائن پر ایک طاقتور زلزلے کی پیشنگوئی کے بعد جہاں سوشل میڈیا پر اس دعوے کی صداقت پر بحث جاری ہے وہیں یہ سوال ایک بار پھر گردش کرنے لگا ہے کہ آیا زلزلوں کی پیشنگوئی کرنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔
ایس ایس جی ایس کی جانب سے یکم اکتوبر کو دعویٰ کیا گیا ہے کہ چمن فالٹ لائن میں تیز لرزش ریکارڈ کی گئی ہے اور اس علاقے میں دو دن میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے جس کی شدت ریکٹر سکیل پر چھ یا اُس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
ایس ایس جی ایس کا کہنا ہے کہ ادارہ سطح سمندر کے قریب فضا میں برقی چارج کے اتار چڑھاؤ کو ریکارڈ کرتا ہے اور زمین کے محور کی گردش کے سلسلے میں یہ اتار چڑھاؤ ان خطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ایک سے نو دن کے اندر طاقتور زلزلے جیسی سرگرمی ہو سکتی ہے۔
تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے اور اس کے درست مقام کا تعین کرنے کا فی الحال کوئی قابل اعتماد طریقہ نہیں ہے۔
اس پیشنگوئی کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک بار پھر نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محقق فرینک ہوگریٹس کا تذکرہ ہوتا دکھائی دیا جنھوں نے رواں برس کے آغاز میں ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے تین روز قبل کہا تھا کہ کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ جنوبی و وسطی ترکی، اردن، شام، اور لبنان میں تباہی مچا سکتا ہے۔
ان کی پیشنگوئی کے چند دن بعد ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 50 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
محقق فرینک ہوگریٹس کے ادارے کی جانب سے رواں برس 30 جنوری کو ایک ٹویٹ میں بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان و افغانستان کے متعدد علاقوں میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا تھا اور پھر سات فروری کو پاکستان میں 6.8 شدت کے زلزلے کے باعث صوبہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم نو افراد ہلاک جبکہ 46 زخمی ہوئے تھے۔ اس زلزلے کا مرکز افغانستان میں ہندوکش سلسلہ میں بتایا گیا تھا۔
چمن فالٹ لائن کیا ہے اور محکمہ موسمیات کا کیا موقف ہے؟
نیدرلینڈز میں قائم تحقیقاتی ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کی جانب سے جاری کردہ تصویر
مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
چمن فالٹ لائن جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فالٹ لائن ہے جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گزرتی ہے۔ اس کے حد میں پاکستان کے علاوہ افغانستان کا بھی علاقہ آتا ہے۔ 900 کلومیٹر طویل اس فالٹ لائن پر ہی مئی 1935 میں کوئٹہ میں وہ زلزلہ آیا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایس ایس جی ایس کی چمن فالٹ لائن پر زلزلے کی پیشنگوئی کے بارے میں بی بی سی اردو کے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے محکمہ موسمیات کے اہلکار نجیب احمد نے کہا کہ ان کا ادارہ مسلسل مانیٹرنگ کرتا رہتا ہے تاہم اس وقت دنیا میں زلزلے کی پیشنگوئی سے متعلق کوئی مصدقہ نظام یا طریقۂ کار موجود نہیں ہے۔
ان کے مطابق زلزلہ پیما مراکز کی جانب سے چمن فالٹ لائن میں کوئی غیرمعمولی حرکت نہیں دیکھی کی گئی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ زلزلوں کا ایک ’ریٹرن پیریڈ‘ ضرور ہوتا ہے اور سنہ 1931 اور سنہ 1935 میں بھی چمن فالٹ لائن پر زلزلے آ چکے ہیں تاہم مستقبل میں یہ ’ریٹرن پیریڈ‘ کب آ سکتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ محکمۂ موسمیات کے پانچ سے چھ سٹیشنز جدید آلات کے ساتھ اس وقت کسی بھی ناگہانی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے معمول کے مطابق مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے محکمۂ موسمیات کے مطابق پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں کسی بڑے زلزلے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر یہ کب اور کہاں آئیں گے، ’یہ بتانا موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔‘
’کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں‘
کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات نے بین الاقوامی ادارے کی جانب سے دعوی سامنے آنے کے بعد واضح کیا ہے کہ ’اب تک محکمہ موسمیات کی جانب سے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی گئی‘ تاہم انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ انتظامیہ کسی بھی صورت حال کے لیے تیاری کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے کہا کہ ’ہم اب بھی فرضی مشقیں کر رہے ہیں اور کسی بھی صورت حال کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔‘
’میں سب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کی ایمرجنسی سروسز بشمول آرمی، پی ڈی ایم اے، لیویز، پولیس، فائر اور میڈیکل ٹیمیں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے تمام پلازے جو نقشوں کے بغیر ہیں یا بوسیدہ تعمیرات، یا نالے پر بننے والی بلڈنگز کے خلاف ایکشن شروع کر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے گرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم 24 گھنٹے صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ہم زلزلے کے صحیح وقت یا شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتے، لیکن رہائشیوں کے لیے باخبر رہنا اور تیار رہنا ضروری ہے۔‘
کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے اپنے پیغام میں عوام کو حفاظتی اقدامات سے بھی آگاہ کیا جن میں سرکاری ذرائع سے قابل اعتماد معلومات پر انحصار کرنے، پرسکون رہنے اور ایک ایمرجنسی کٹ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کیا سیاروں کی گردش زلزلوں کا پتا دے سکتی ہے؟
یاد رہے کہ فرینک ہوگربیٹس کا دعویٰ ہے کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
تاہم سائنسی برادری میں اس حوالے سے اتفاق موجود ہے کہ زلزلوں کی پیشنگوئی کرنے کا کوئی طریقہ فی الوقت سائنس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ان کے مطابق ایسا کوئی طریقہ مستقبل میں تیار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے دنیا میں زلزلوں پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے صفِ اول کے اداروں میں سے ایک ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اور نہ دیگر سائنسدانوں نے کبھی کسی بڑے زلزلے کی پیشنگوئی کی ہے۔
ادارے کے مطابق ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ پیشنگوئی کیسے کی جائے بلکہ اس کے صرف امکان کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ فلاں علاقے میں اتنے برس میں ایک بڑا زلزلہ آنے کا کتنا امکان ہے۔
پاکستان،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی پیشنگوئی میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی وقت اور تاریخ، مقام، اور شدت۔ اگر کوئی ’پیشنگوئی‘ ان میں سے تینوں چیزیں فراہم نہیں کرتی تو اسے ایک غلط پیشنگوئی تصور کیا جائے گا۔
فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی میں آنے والے زلزلے سے قبل جب اس ادارے نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی تھی تو انھوں نے مغربی چین، پاکستان، افغانستان، انڈیا اور مشرقی چین کے درمیان کے علاقے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا کہا تھا مگر ترکی میں زلزلے کے امکان کے حوالے سے کوئی تاریخ نہیں دی گئی تھی، چنانچہ اسے امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ’پیشنگوئی‘ نہیں کہا جا سکتا اور سائنسدان زلزلے کے ’امکان‘ اور ’پیشنگوئی‘ میں فرق کرنے کے قائل ہیں۔
امریکی جیولیوجیکل سروے کے مطابق حالیہ کئی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند کی وجہ سے زمین کی سطح اور سمندر کی لہروں کے بلند ہونے اور کچھ طرح کے زلزلوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہے مگر اس کے نتیجے میں جو امکان بڑھتا ہے، وہ تب بھی بے حد کم ہی رہتا ہے۔
اسی طرح امریکہ کی برکلے یونیورسٹی کے مطابق اِجرامِ فلکی کے محلِ وقوع کی وجہ سے زلزلوں کی شرح اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔
زلزلوں کی پیشنگوئی کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر کام جاری ہے جن میں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے کا جائزہ لینا اور اس کی بنیاد پر زلزلے کی پیشنگوئی کرنا شامل ہے۔
کچھ مطالعوں میں ان کے درمیان تعلق تو پایا گیا ہے مگر اب بھی اس حوالے سے سائنسی برادری کسی حتمی اور ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچی ہے، چنانچہ جانوروں کا پہلے ہی محفوظ ٹھکانے کی جانب چلے جانا اب بھی سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔
اینڈرائڈ فون پر زلزلے سے متعلق گوگل الرٹ کیسے ممکن ہوتا ہے؟
گوگل کے کرائسز رسپانس سینٹر کی جانب سے زلزلے سے متعلق الرٹ جاری کرنے کے طریقہ کا کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ تمام سمارٹ فونز میں چھوٹے ایکسلرومیٹرز ہوتے ہیں جو رفتار اور تھرتھراہٹ محسوس کر سکتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ ممکنہ زلزلہ ہو سکتا ہے۔
جب ایک علاقے میں جہاں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں وہاں موجود صارفین کے فونز اگر کسی ایسی چیز کا پتہ لگاتے ہیں جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ یہ زلزلہ ہو سکتا ہے، تو گوگل کے زلزلے کا پتا لگانے والے سرور کو زلزلے کے اس مقام سے متعلق کے ایک سگنل بھیجتا ہے۔
اس کے بعد سرور کئی فونز کی معلومات کو یکجا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ آیا زلزلہ آ رہا ہے۔ گوگل اس طریقہ کار کو دنیا کے سب سے بڑے زلزلے کا پتہ لگانے کے نیٹ ورک کو تشکیل دینے کا کام کرتا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں لگ بھگ دو بلین اینڈرائیڈ فونز کو منی سیسمومیٹر کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
زلزلہ،تصویر کا ذریعہCRISISRESPONSE.GOOGLE
فونز زلزلے کے جھٹکوں کی شدت اور رفتار کا پتہ لگاتے ہیں اور اس کے مطابق متاثرہ قریبی علاقوں میں اینڈرائیڈ صارفین کو الرٹ کرتے ہیں۔
گوگل کے مطابق اینڈرائیڈ دو قسم کے نوٹیفیکیشنز یا الرٹ جاری کرتا ہے جو صارفین کو زلزلے سے آگاہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ الرٹ کے دونوں پیغامات صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
ایک پیغام جسے ’بی آویر الرٹ‘ کہا جاتا ہے زلزلے سے متعلق 15 سے 20 سیکنڈز پہلے اطلاع دینے کا کام کرتا ہے اور آپ کو ممکنہ جھٹکوں کے لیے تیار رہنے اور محفوط مقام پر منتقل ہونے کے موقع دیتا ہے۔
تاہم یہ پیغام 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم اگر آپ کے فون پر رنگ ٹون کی آواز بند ہے یا ڈو ناٹ ڈسٹرب اور نوٹیفکیشن بند ہیں تو یہ صرف آپ کی سکرین پر نمودار ہو گا۔
جبکہ دوسری قسم کا پیغام آپ کو زلزلے سے چند سکینڈز قبل فوری طور پر حرکت میں آنے اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے سے متعلق اطلاع دے گا۔ اس کو ‘ٹیک ایکشن الرٹ’ کہا جاتا ہے۔
یہ پیغام بھی صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے وقت صارفین کو بھیجا جاتا ہے۔ تاہم یہ پیغام آپ کے فون پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کی سیٹنگز کو توڑتے ہوئے آپ کی فون سکرین پر نہ صرف نمودار ہوتا ہے بلکہ اونچی آواز میں رنگ ٹون بھی بجاتا ہے۔
تاہم یہ دونوں طرح کے پیغامات آپ کو صرف اس وقت محسوس ہو سکتے ہیں جب آپ کے موبائل فونز پر نہ صرف لوکیشن سیٹنگز آن ہو، بلکہ آپ کا فون وائی فائی یا موبائل ڈیٹا کے ذریعے انٹرنیٹ سے بھی منسلک ہو۔