اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

ایک_فلکیاتی_مسافر_اور_زمین_و_کائنات_کا_اختتام

عجائباتِ_کائنات

ایک_فلکیاتی_مسافر_اور_زمین_و_کائنات_کا_
اختتام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلائی جہاز وائجر ون Voyager1 کو زمین سے اڑان بھرے چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ وائجر وَن ہمارے نظام شمسی کے سیاروں وغیرہ کی معلومات لے کر ہمیں بھیج چکا ہے۔ اپنے ذمے لگائے گئے کام مکمل کر کے وائجر ون مزید سفر طے کرتا ہوا ہمارے نظام شمسی کی حدوں کو پھلانگ کر ستاروں کے درمیان موجود خلاء میں پہنچ چکا ہے۔ سن عیسوی 1977 سے لے کر اب تک وائجر وَن خلائی جہاز اکیس ارب کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلہ عبور کر چکا ہے۔ اس نایاب خلائی گاڑی کی اگلی منزل ہمارے سورج کا پڑوسی ستارہ ایلفا سینٹوری Alpha Centaury ہے۔ یہ ستارہ ہم سے تقریبا چار سو کھرب کلومیٹر (4.25 ly) دور ہے۔ وائجر وَن 62 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اس ستارے کی طرف جا رہا ہے۔ لگ بھگ 76 ہزار سال بعد وائجر وَن خلائی جہاز اس ستارے کے آنگن میں انسانیت کا پیغام لئے پہنچ چکا ہو گا۔۔۔۔ بشرطیکہ تب تک اس کے راستے میں آ کر کوئی آوارہ خلائی چٹان یا پھر کوئی دوسرا فلکیاتی جسم اس کو ٹکر مار کر اسے تباہ نا کر دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تو_کیا_ہم_یہ_جان_سکیں_گے؟ کہ وائجر وَن ایلفا سینٹوری ستارے کے پاس پہنچ گیا ہے۔

جی ہاں ہم جان سکیں گے اگر "ہم اور ہماری زمین تب تک اس کائنات میں زندگی کو لئے جی رہے ہوئے تو۔۔۔۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ تب تک ہم اپنی زمین سمیت موت کو گلے لگا چکے ہوں اور خلائی جہاز وائجر وَن سے آنے والے ریڈیو سگنلز (Radio signals) یوں ہی سفر کرتے ہوئے اس جگہ سے ہو کر آگے گزر جائیں، جس جگہ کبھی ہماری زمین زندگی کو سنبھالے ہوئے بسا کرتی تھی۔ تب ان ریڈیو سگنلز کو پکڑنے کے لئے یہاں کوئی بھی ریڈیائی دوربینیں موجود نہیں ہوں گی۔ ایلفا سینٹوری ستارے کے قرب و جوار سے روانہ کیا گیا کوئی بھی پیغام ریڈیائی لہروں کی صورت میں ہم تک روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہوا چار سال کے بعد پہنچے گا”

#یہ_بھی_ممکن_ہے کہ "تب تک کچھ بھی موجود نا رہے۔ نا ہی وائجر وَن نا ہی کہکشائیں و ستارے اور نا ہی ہم! لیکن کائنات میں ہونے والی اس مکمل تباہی کے آثار فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس بات کو سمجھنا یا سُلجھانا بہت زیادہ قابل تفکر و تدبر و قابل غور معاملہ ہے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#زمین_اور_کائنات_کی_تباہی

ہماری کائنات (Universe) کی قسمت میں موت لکھی ہے۔ یہ کب ہو گا؟ ہم نہیں جانتے۔ مگر ایک ذرے سے لے کر پہاڑ تک، ایک سیارے سے لے کر نظام شمسی تک، ایک کہکشاں سے لے کر پوری کائنات تک۔۔۔ ہر کسی نے بالآخر اپنے اختتام کو پہنچنا ہے۔ یہ بات ہم سائنسی طور پر جان چکے ہیں۔ ہم سیاروں کی تباہی کے آچار جان چکے ہیں۔ ہم ستاروں کی موت کا بھی مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ہم کہکشاؤں کا ایک دوسرے میں ضم ہونا بھی نظروں میں لا چکے ہیں۔ گو کہ یہ سب کا سب بھی ایک طرح کا اختتام ہے لیکن اس اختتام میں کسی اور جہاں و دنیا کی ابتداء مخفی ہوتی ہے۔ اس کے بعد کائنات کی ایک مجموعی موت بھی ہو گی۔ کب ہو گی؟ ہمیں نہیں معلوم۔

#زمین_کا_خاتمہ_کیا_ہے؟
تمام آسمانی مذاہب میں جسے قیامت کہا گیا ہے وہ کیا ہے؟ کیا پوری کی پوری کائنات تباہ ہو گی؟ یا پھر صرف زمین و اہل زمین کی تباہی کو قیامت کہا گیا ہے؟ ان سوالات کے متعلق حتمی بات کہنا تھوڑا مشکل ہو گا، کیوں؟ کیوں کہ جب ہم غور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ "ندی کے کنارے درخت پر موجود گھونسلوں میں اپنے بچوں کو لئے بیٹھے پرندوں کے لئے وہ گھونسلے اور درخت ہی سب ہی کچھ ہے۔ رات ہوئی، کالی گھٹائیں بنیں، طوفانی ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔ ہوا کے ایک منہ زور طوفانی تھپیڑے نے گھونسلوں والے درخت کو جڑ سے اکھیڑا اور سیلابی پانی سے مچلتی ندی میں پھینک دیا۔ نا وہ شجر رہا، نا ہی وہ گھونسلے موجود رہے اور نا ہی اس گھونسلوں کے مکین زندہ رہے۔ ان کی دنیا تباہ ہو چکی ہے۔ ان کے لئے قیامت برپا ہو چکی ہے۔ ان کے لئے ان کے آس پاس کے مناظر بھی گہنا چکے ہیں”

اگلی صبح
اچھا اور نکھرا ہوا دن شروع ہوا ہے۔ اسی ندی کے قرب و جوار میں بہت سے درخت ویسے کے ویسے موجود ہیں، جیسے وہ گزشتہ طوفانی رات سے پہلے موجود تھے۔ ان تمام درختوں پر بنے گھونسلے اور ان کے مکین اپنی روز مرہ کی زندگی میں پھر سے مشغول ہو چکے ہیں۔ وہ ایک درخت اور اس کے مکین اب ان سب میں نہیں رہے ہیں۔ لیکن اس درخت کے مکینوں پر آئی قیامت سے کسی بھی دوسرے درخت والے پرندوں کو کوئی بھی فرق نہیں پڑا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#ایک_نظر_یہاں_بھی
کائنات میں زمین جیسے اربوں سیارے موجود ہو سکتے ہیں۔ ان سیاروں میں سے بہت سے سیاروں پر زندگی بھی موجود ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا تمام حیاتی سیاروں پر ایک ساتھ قیامت برپا ہو گی یا پھر ہر سیارے کے لئے اس کے وقت مقررہ پر اس کی الگ قیامت ہے؟ کیا پتا یہی سلسلہِ "ابتداء و انتہاء” ازل سے جاری ہو اور ہمیشہ چلتا رہے۔ اگر ہم اس بات کو مذہبی تناظر میں دیکھیں تو اس بات کی تائید میں ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں۔

جن فلکیاتی اجسام کا زمین کے ساتھ گہرا تعلق ہے تو ان کے متعلق قرآن نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ جیسا کہ سورج اور چاند۔ لیکن جن فلکیاتی اجسام کا ہماری زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، قرآن نے ان فلکیاتی اجسام کو موضوعِ گفتگو ہی نہیں بنایا۔ جیسا کہ دوسرے سیارے، ان سیاروں کے چاند، کہکشائیں، ستاروں کے جھرمٹ، سحابیے اور قوازار وغیرہ۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا مگر اندازہ ہے کہ "جیسے وہ ہستی ہر ایک جہاں کو دوسرے جہاں سے پردے میں رکھے ہوئے ہے۔ یعنی ہر جگہ کی زندگی ہر دوسری جگہ کی زندگی سے مختلف ہو۔ ہر جگہ الگ الگ منشور حیات ہو۔ ہر سیارے پر الگ الگ وقت میں حیات و فنا کا سلسلہ چل رہا ہو۔۔۔ اور ہر سیارے کی تباہی اس کے رہنے والوں کے لئے ایک قیامت ہو۔ بالکل ویسی قیامت جیسی طوفان میں اجڑ جانے والے درخت کے مکینوں پر گزری، جو اس درخت کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے اجڑ گئے۔

اگر ہم تھوڑا غور و تدبر کریں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ "کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں۔ ہر ایک کہکشاں اپنی ہمسائی کہکشاں درمیان بے پناہ وسعتوں کا فاصلہ رکھتی ہے۔ ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے سیارے اور چاند ہیں۔ کیا یہ سب کچھ یوں ہی بے مقصد تخلیق کیا گیا؟ ایک ساتھ فنا کرنے کے لئے؟ یا یہ سلسلہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا؟ اس متعلق ہم جتنا بھی سوچیں گے، کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لئے خود کو بے بس پائیں گے۔ کیوں کہ ہمیں اس متعلق زمین اور زمین کے آسمان کی تباہی کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن باقی کے سیاروں، کہکشاؤں سحابیوں اور کائنات کا ذکر تک نہیں ملتا”

اس سے بھی حیران کن یہ بات ہے کہ ممکن ہے جیسی ہماری یہ کائنات ہے، اس طرح کی اربوں کائناتیں اور بھی ہوں۔ جن میں سے ہر ایک کائنات اربوں کہکشاؤں کا گھر ہو۔ یہ ابھی تک ایک مفروضہ ہے، جسے ملٹی ورس (Multi verse) کہا جاتا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو کیا اہل زمین پر آنے والی قیامت ان تمام کائناتوں کا بھی خاتمہ کر دے گی؟ یا پھر ایسا ہو گا کہ فقط زمین و اہل زمین اپنے نام و نشان کے ساتھ مٹا دیئے جائیں اور ہماری ساری کائنات و دیگر کائناتیں ہمیشہ کے لئے ویسے ہی چلتی رہیں جیسے یہ ہمیشہ چل رہی ہیں۔ زندگی کائنات کے کسی گوشے میں جنم لے رہی ہو تو دوسرے گوشے میں آخری ہچکی لے کر اپنی تہذیب سمیت دفن ہو رہی ہو۔ بالکل ویسے جیسے زمین کے کسی گوشے میں کوئی زندگی پھلنا پھولنا شروع کرتی ہے تو دوسرے کسی گوشے میں فنا ہو رہی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قصہءِ مختصر کہ جس طرح کائنات کے ہر ایک ذرّے کے مقدر میں ابتداء، شروعات اور زندگی کی صبح لکھی ہے ویسے ہی کائنات میں موجود ہر چیز (جاندار و بے جان) کے مقدر میں انتہاء، فنا اور موت کی رات بھی لکھی ہے۔ سوالیہ نشان فقط اس بات پر ہے کہ "آیا آنے والی موت مجموعی موت ثابت ہو گی یا کہ پھر ہماری زمین کی موت صرف ہمارے لئے قیامت ثابت ہو گی؟” اس سوال کا جواب جاننے کے لئے اس وقت تک شاید ہم میں سے کوئی بھی زندہ نا رہے۔۔۔ لیکن ہاں اگر یہ فنا صرف زمین کے لئے ہوا تو "کھربوں میل دور خلاء کی وسعتوں میں چمکتے دمکتے ستاروں کی جانب مسکرا کر بڑھتا ہوا وائجر وَن خلائی جہاز ہماری زمینی معلومات کو لئے ہوئے اپنی زندگی کے اختتام تک یوں ہی خلاء میں آگے بڑھتا رہے گا”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وائجر ون خلائی جہاز کے متعلق اردو تحریر یہاں سے:
https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2229163140429210

نوری سال (Light year) کے متعلق اردو تحریر یہاں سے:
https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2487228384622683

سورج کے ہمسائے ستارے ایلفا سینٹوری (Alpha Centaury) کے متعلق اردو تحریر یہاں سے:
https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2244946552184202

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You