اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیبوا (ایک ڈچ Dutch ڈاکٹر) کے خیال میں انسان اور بندر میں بنیادی فرق دماغ کے حجم کا تھا

نسل انسان کی کہانی(2)…………….!!!
The story of mankind(2)…………..!!!

ڈیبوا (ایک ڈچ Dutch ڈاکٹر) کے خیال میں انسان اور بندر میں بنیادی فرق دماغ کے حجم کا تھا

اور ان دونوں کے درمیان کسی بھی نوع کے دماغ کا حجم انسان اور بندر کے دماغوں کے بیچ میں ہونا چاہیے، یعنی انسانی دماغ کا آدھا اور بندر کے دماغ کا دگنا لیکن اس نے اس کھوپڑی کا حجم جب ناپا تو وہ بندر کی کھوپڑی کے حجم کے دوگنے سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اس وجہ سے اسے اپنا خیال تبدیل کرنا پڑا۔ یہیں(انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں) ڈیبوا کو ایک عدد ٹانگ کی ہڈی بھی ملی ہے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ کسی ایسے جاندار کی ہے جو کہ سیدھا کھڑا ہو کر چلتا تھا۔ وہ اس کا نام پیتھکانتھروپس اِریکٹس (Pithecanthropus Erectus) رکھتا ہے یعنی کھڑے ہو کر چلنے والا ’مانسی انسان‘۔ یہ وہ انسان نما نسل تھی جو آج تک کے انسانوں کی سب سے کامیاب ترین نسل رہی ہے اور اس وقت یہ افریقہ میں بھی موجود تھی، جسے آج ہومو اریکٹس (Homo Erectus) کہا جاتا ہے یعنی کھڑے ہو کر چلنے والا۔ یہ نسل افریقہ، ایشیا اوریورپ تک آباد ہوئی۔ لیکن سائنس کی دنیا نے ڈیبوا کی دریافت کو قبول نہیں کیا۔ ڈیبوا کے کام کی اہمیت کوسائنس نے کئی دہائیوں بعد سمجھا۔ لیکن اس دوران درمیانی کڑی کی تلاش جاری رہی اور کئی بوگس دریافتیں بھی سامنے آئیں جن میں سے ایک برطانیہ میں 1909ء میں ہوئی اور اس کی بنیاد پہلے سے تسلیم شدہ نتیجے یعنی کہ بندر اور انسان کے درمیان کی نسل کا دماغ بڑا ہونا چاہئے اور باقی چہرہ بندر جیسا ہونا چاہئے پر رکھی گئی۔ کیونکہ اس وقت برطانیہ کی سائنسی اشرافیہ یہ سمجھتی تھی کہ انسان اپنے دماغ کے بڑے ہونے کی وجہ سے انسان بنا اور اس دریافت کو زبردستی اس نتیجے کے ساتھ جوڑا گیا, جس کی ایک وجہ اس دریافت کا برطانیہ میں ہونا تھا۔

کئی دہائیوں تک سچ تسلیم کی جانے والی یہ دریافت در حقیقت سائنس کی تاریخ کا ایک بہت بڑا فراڈ تھی۔ اس کے بعد 1924ء میں جنوبی افریقہ میں ایک آسٹریلین کالج ٹیچر ڈارٹ(Dart)، جو کہ مسلسل فوسلز جمع کر رہا تھا، کو ایک فوسل ملا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ایک انسان نما کا فوسل افریقہ سے ملا ہو۔ اس نسل کا سائنسی نام آسٹرالوپیتھِکس افریکانسس ہے اور یہ فوسل بیس لاکھ سال سے زیادہ پرانے تھے۔ ڈارٹ اس موضوع پر ایک پیپر شائع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وہ نسل دریافت کر لی ہے جو کہ انسان اور بندر کی درمیانی کڑی تھی اس وجہ سے سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ یہ دعویٰ برطانیہ میں بیٹھی اس وقت کی سائنسی اشرافیہ کے خیال سے متصادم تھا، جو کہ اپنی ایک جھوٹی دریافت پر بضد تھے۔ اس نئی دریافت کے خدوخال برطانیہ میں ہونے والی تسلیم شدہ دریافت سے متصادم تھے، کیونکہ اس کا دماغ ایک انسان کے دماغ سے چھوٹا تھا لیکن جبڑا انسانی جبڑے کی طرح کا تھا جو کہ برطانیہ کی سائنسی اشرافیہ کی خواہشات کے خلاف جاتا تھا اور انہوں نے اس دریافت کو مکمل طور پر رد کر دیا اور اس دریافت کو ایک گوریلے کے فوسل کے طور پر ہی تسلیم کیا۔ اس معاملے میں مسئلہ یہ تھا کہ ڈارٹ انکی نظر میں ایک ’غلط‘ شخص تھا، وہ برطانوی سائنسی اشرافیہ کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی برطانوی تھا بلکہ ایک آسٹریلین تھا۔ مزید یہ کہ سائنسی اشرافیہ افریقہ سے انسان کے آباؤاجداد کے نکلنے کی توقع بھی نہیں کر رہی تھی بلکہ یورپ یا ایشیا کو انسان کی جنم بھومی سمجھتی تھی۔ لیکن 1940ء کی دہائی کے اختتام تک حالات بدل گئے تھے، برطانوی سامراجیت کے زوال کے ساتھ مزید دریافتوں کی بنیاد پر ان نظریات کو رد کرنے کے مواقع ملے اور پچیس سال کی انتھک محنت کے بعد ڈارٹ کو اپنی سچائی ثابت کرنے کا موقع ملا۔

1953ء میں 1909ء کے برطانیہ میں کیے گئے دعوے کا دوبارہ سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا گیا اور ان فوسلز کے جعلی ہونے کا واضح ثبوت ملا اور اس کے ساتھ ہی برطانوی سائنسی اشرافیہ کا دہائیوں سے دنیا پر تھوپا ہوا غلط نظریہ کہ انسان کی بنیاد اس کے دماغ کے بڑے ہونے پر ہے, کا خاتمہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ فریڈرک اینگلز نے اس وقت سے آٹھ دہائیاں پہلے ہی جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی بنیادوں پر اپنی کتاب ’’The Part played by Labour in the Transition from Ape to Man‘‘ میں اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ انسان اپنے دماغ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی محنت کی بنیاد پر مانسی سے انسان بنا تھا(حالانکہ یہ سب قدرتی طور پر ہوا تھا) اور اسکے نزدیک اس محنت کو کرنے کے لئے انسانی ہاتھوں کا آزاد ہونا ضروری تھا۔ ہاتھوں کے آزاد ہونے کے لئے چار ٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنا ضروری تھا۔ اس با ت کا ثبوت 1959ء میں "لیکی” نامی برطانوی نے تنزانیہ میں فوسلز کی تلاش میں حاصل کیا۔ لیکی نے سائنس کی دنیا کو یقین دلا دیا تھا کہ انسان ہونے کے لئے اوزار بنانا ضروری تھا۔ بائیس سال کی محنت کے دوران لیکی کو لاتعداد اوزار ملے تھے اور آخر کار اسے اسی جغرافیائی پرت سے جس سے اوزار مل رہے تھے، ایک فوسل ملا جس کا نام اس نے پرانتھروپس بوایزی (Paranthropus Boisei) رکھا، اور شروع میں اسی کو اوزار بنانے والا سمجھا، لیکن ایک سال بعد اسی علاقے سے ایک اور کھوپڑی ملی جو کہ انسانی کھوپڑی سے زیادہ مشابہہ تھی۔ اس نسل کا نام اس نے ہومو ہیبلس (Homo Habilis) رکھا یعنی ہاتھ سے کام کرنے والا۔ اس وقت تک سائنس کی دنیا میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ بندر سے انسان بننے میں صرف ایک ہی درمیانی نسل موجود تھی، لیکن "لیکی” کے دو نسلوں کی ایک ہی جگہ اور عہد(time) یعنی تقریباً اٹھارہ لاکھ سال پہلے کی دریافت نے یہ واضح کر دیا کہ ایسا نہیں تھا۔ صرف 1925ء سے 1965ء تک انسان نما نسلوں کے سو سے زائد فوسلز صرف جنوبی افریقہ سے ملے۔ ان دریافتوں کے نتیجہ میں یہ واضح ہوا کہ انسان کے ارتقائی عمل میں بے شمار انسان نما نسلیں ایک ہی علاقہ میں بیک وقت موجود رہیں تھیں اور اس تبدیلی کو ایک سیدھی لکیر کے ماڈل سے بیان کرنا ایک غلطی تھی جیسے بورژوا سائنس پچھلے سو سال سے کر رہی تھی بلکہ انسان نما بے شمار نسلیں لاکھوں سال تک دنیا میں رہی تھیں، جن میں سے کچھ ختم ہو گئیں اور کچھ ارتقاء کی اگلی منازل میں داخل ہو گئیں اور لاکھوں سال کے اس عمل کے نتیجہ میں آج کا انسان صرف دو سے تین لاکھ سال پہلے وجود میں آیا تھا-

(جاری ہے)
Edited by Muhammad Nadeem Saleem

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You