انسان عقل میں تو دوسرے جانوروں پر حاوی ہے لیکن حیاتیاتی طور پر وہ سب انسان جیسے ہی ہیں۔
دو ٹانگوں والے..
Creature with two legs…
انسان عقل میں تو دوسرے جانوروں پر حاوی ہے لیکن حیاتیاتی طور پر وہ سب انسان جیسے ہی ہیں۔
ایک بھینس اور ایک انسان کے گردے ‘ جگر‘ پھیپھڑے‘ جلد اور دل ایک ہی طرح کام کرتے ہیں۔ ایک اور چیز بھی بہت دلچسپ ہے۔ کبھی کبھی جب ہم انسان خود کو دو ٹانگوں پر بالکل سیدھا چلتا دیکھتے ہیں تو ایک غرور دل میں جنم لیتا ہے‘ لیکن یہ بات کتنی عجیب ہے کہ فاسلز کا علم بتاتا ہے کہ انسان کے علاوہ بھی کئی مخلوقات گزری ہیں ‘ جو دو ٹانگوں پر چلا کرتی تھیں۔ ان میں "نی اینڈرتھل مین” سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے اور "نی اینڈرتھل” کا ڈی این اے بھی مکمل تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن "ہومو اریکٹس” سمیت اور بھی کئی مخلوقات کے فاسلز مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں-
جب ہومو سیپین ‘ یعنی ہم انسان دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے ‘ تو اسی وقت "نی اینڈرتھل” کا زوال شروع ہوا؛ حالانکہ تین چار لاکھ سال وہ کامیابی سے زندہ رہا۔ ہومو سیپینز بھی قریب تین لاکھ سال سے دنیا میں آباد ہیں۔ "نی اینڈرتھل” کا قد پانچ فٹ کے قریب لیکن سر ہم سے کچھ بڑا تھا۔ قریب تیس ہزار سال قبل ‘ جب ہومو سیپینز یورپ اور ایشیاء سمیت دنیا بھر میں پھیل رہے تھے‘ نی اینڈرتھل ختم ہو تے چلے گئے۔ ڈائنا سارز "نی اینڈرتھل” سے بھی کروڑوں سال قدیم ہیں۔ ڈائنا سارز کو ختم ہوئے ساڑھے چھ کروڑ سال گزر چکے ہیں۔
مغربی سائنسی برادری تحقیق کے معاملے میں کڑے ترین اصولوں کی پیروی کرتی ہے اور اس ضمن میں دھوکے بازی پر ایک دوسرے کو بھی ادھیڑ ڈالتی ہے۔ اس لیے ہم دھوکہ نہیں کھائیں گے اگر غیر جانبدار رہ کر غیر متنازع حقائق کو پڑھنے کے قابل ہوں, وہ حقائق جن پر سائنسدانوں کی عظیم اکثریت ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پہ یقین رکھتی ہے۔ fanatics ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ‘ جنہیں متنازع بن کر توجہ حاصل کرنے کی بھوک ہوتی ہے۔ ہمیں ان کی پیروی نہیں کرنی۔
جہاں تک ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جدید انسان ہومو سیپین کا تعلق ہے ‘ اس کی تاریخ قریب تین لاکھ سال پہ مشتمل ہے۔ حیرت انگیز طور پر پہلے اڑھائی لاکھ سال میں دوسرے جانوروں سے تو وہ برتر نظر آتا ہے ‘لیکن اس طرح کی ایجادات نظر نہیں آتیں‘ جو کہ اسے کرّہ ٔ ارض کا غیر متنازع مالک قرار دے سکیں لیکن پھر ہمیں پچاس ہزار سال پہلے کے اچانک انسانی باقیات کے ساتھ اعلیٰ قسم کے ہتھیار‘ مذہبی اشیاء اور زیورات ملنے لگیں گے۔
اب قرآن کریم کی ایک انتہائی حیرت انگیز آیت پڑھتے ہیں‘ قرآن پڑھتے تو سب ہیں ‘ لیکن سائنسز کا بنیادی علم نہیں ہوتا اور دوسرا اپنی عقل apply کرنے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔ آج کے انسان کے پاس فاسلز اور ڈی این اے سمیت ہر علم کا بےانتہا ڈیٹا موجود ہے۔ بےانتہا غیر متنازع حقائق دریافت ہو چکے ہیں ‘ جو کہ ماضی کے انسانوں کے علم میں نہیں تھے اور یہ حقائق دستاویزی (Documented) ہیں۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے کسی بھی شۓ کی عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جتنی مکمل تصویر ہمارے سامنے اب موجود ہے ‘ اتنی ماضی کے انسان کے سامنے موجود نہیں تھی‘بلکہ اس کے پاس محض ایک طرح کے پزل کا کوئ کوئی ٹکڑا تھا, جسے وہ حل کرنے سے قاصر تھا۔
قرآن کہتا ہے ” ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا‘‘۔ (سورہ دھر‘ آیت 1‘ پارہ 29)۔( یقینا زمانے میں انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا)۔ آدمؑ تواتنے قابلِ ذکر تھے کہ فرشتوں کو علم کے میدان میں انہوں نے شکست ِفاش سے دوچار کر ڈالا تھا‘ تو یہ ناقابلِ ذکر انسان کون تھا؟ حالانکہ "نی این ڈرتھل” بھی قابلِ ذکر اور کامیاب انسان تھا۔ چار لاکھ سال اس نے زمین پہ کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری تھی۔ اس کے علاوہ غور کریں تو قرآن کریم جہاں یہ کہتا ہے کہ آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا‘ وہیں یہ بھی درج ہے, "وجعلنا من الما ئِ کُل شی ئِ حیی‘‘۔( سورہ انبیا ‘آیت 30)۔(اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا)۔ سائنسز بتاتی ہیں کہ زندگی کی بنیاد بننے والے آرگینک مالیکیولز کو ایک دوسرے سے جڑنے اور مزید پیچیدہ ہو کر خلیات تشکیل دینے کیلئے پانی یا اس جیسا کوئی مائع درکار ہوتا ہے۔ 1952ء کے مشہورِ عالم Miller-Urey تجربے میں ‘ جب لیبارٹری میں یہ شرائط پوری کی گئیں‘ تو زندہ خلیات کی بنیاد بننے والے امائینو ایسڈ کامیابی سے وجود میں آئے تھے۔
اب ایک سوال اور ہے: وہ جانور ‘جو حیاتیاتی طور پر انسان جیسے ہی ہیں ‘ خواہ وہ چمپنزی ہوں یا گاۓ, بھینس وغیرہ وغیرہ, وہ سب کہاں پر بنے؟ جواب : یقینا اسی زمین پر۔ انہیں جنت یا آسمان سے نہیں اتارا گیا۔ کیا وہ اسی کرّہ ٔ ارض پہ پیچیدہ خلیات کے باہمی ربط کا نتیجہ نہیں؟ باقیات کا یہ علم بتاتا ہے کہ سب سے پہلے سمندری حیات وجود میں آئی تھی۔ قریب پچاس کروڑ سال پہلے ہمیں مچھلی نظر آئے گی اور سب سے آخر میں تین لاکھ سال پہلے انسان۔ بیچ میں ریپٹائلز سے لے کر میملز اور پرندوں تک ‘ زندگی کی ساری اقسام evolve ہوتی نظر آئیں گی۔ چالیس پچاس ہزار سال پہلے آدمؑ کو زمین پر اتارا گیا۔ یہی وہ وقت ہے ‘جب ہومو سیپین ‘ایجادات شروع کردیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زمین‘ زندگی اور کائنات کو بڑی گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کائنات پہ غور کرنے والوں کی ستائش(تعریف) کرتا ہے, "و یتفکرون فی خلقِ السموت والارض”(اور وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پہ غور کرتے رہتے ہیں)۔ اب کیا ہمیں زمین و آسمان کی پیدائش پہ غور کرنے کے لیے کیا فلکیات(Cosmology) کا بنیادی علم (Basics) سیکھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ارضیات(Earth Sciences) سے آشنائی کے بغیر زمین پہ غور ممکن ہے؟ کیا زمین پہ انسانی تاریخ پڑھنے کے لیے باقیات(Fossils) کامطالعہ ضروری نہیں؟
خدا جب یہ کہتا ہے کہ آدم ؑکو مٹی سے پیدا کیا اور دوسری جگہ یہ کہتا ہے کہ ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا اور یہ فرماتا ہے کہ "انسان ایک طویل عرصے تک ایک قابلِ ذکر شۓ ہی نہ تھا” اور یہ بھی فرمایا: "اور اللہ نے تمہیں نباتات کی طرح زمین سے اگایا” یہ سب پڑھ کر تو ساری کہانی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔
خدا واضح فرماتا ہے : ”دن اور رات کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘ ۔ اب دن اور رات کے بدلنے کو تو وہی سمجھ سکتا ہے ‘ جو کہ زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو پڑھے گا۔ جب ہم زمین کی اپنے محور پر لٹو کی طرح گردش ‘ رات کے موافق دورانیے اور نیند کے انسانی صحت پر اثرات پڑھیں گے تو پھر یہ نشانیاں ہم پر کھلنا شروع ہوں گی۔ قرآن میں لکھا ہے:(مفہوم) ” زمین اور آسمان اور جو ان کے درمیان موجود ہے‘ اس میں نشانیاں ہیں ‘‘۔ زمین اور آسمان اور ان کے درمیان تو ہمیں اوزون ملے گی ‘ زمین کا مقناطیسی میدان اور کروڑوں سورجوں کے برابر وجود رکھنے والے بلیک ہول ملیں گے۔ اس لیے قرآن کی پہلی آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ کتاب شک و شبہے اور کسی بھی غلطی سے پاک ہے ‘لیکن اب اگر ہم اپنی عقل سے اگر کام ہی نہ لیں اور عصری علوم بھی نہ پڑھیں اور نہ ہی سمجھیں تو کیا خاک کچھ سمجھ آئے گا؟
Edited by Muhammad Nadeem Saleem