سانحہ پریٹ آباد — ایک لمحے کی غفلت، کئی گھروں کا چراغ گل کر گئی

سانحہ پریٹ آباد — ایک لمحے کی غفلت، کئی گھروں کا چراغ گل کر گئی
تحریر: راجہ آس بن آس
حیدرآباد کا علاقہ پریٹ آباد عام دنوں میں زندگی کی چہل پہل، دکانداروں کی آوازوں اور گھروں کی رونق سے معمور رہتا ہے۔ مگر دو سال قبل اچانک گیس سلنڈر دھماکے نے اس علاقے کی خوشیاں اجاڑ دیں۔ لمحوں میں ہنستے بستے گھر ماتم کدہ بن گئے، اور فضاء میں صرف دھواں، چیخیں اور رونے کی آوازیں باقی رہ گئیں۔یہ واقعہ کسی ایک گھر کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ جب ایک دکاندار نے گیس فلنگ کے دوران آس پاس پھیلی ہوئی آبادی کو نظر انداز کیا اور پھر ایک چنگاری نے دکان اور اس سے متصل پورے گھر کو آگ کے حوالے کر دیا۔ چند لمحوں میں آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ قریبی مکان بھی لپیٹ میں آگئے۔ عورتیں، بچے، بوڑھے سب متاثر ہوئے۔ریسکیو ٹیمیں حسب روایت تاخیر سے پہنچیں، اور جب تک امدادی کارروائیاں شروع ہوتیں قیمتی جانیں جا چکی تھیں۔ یہ اندوہناک واقعہ ہمیں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں احتیاط کو کتنا معمولی سمجھتے ہیں۔گیس سلنڈر جیسے خطرناک آلات کے استعمال میں معمولی بے احتیاطی، بجلی کے سوئچ آن کرنے یا ماچس جلانے جیسے عام عمل بھی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے گھروں، ہوٹلوں، اور ورکشاپس میں ایسے حفاظتی اصولوں پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور ہر سانحے کے بعد حکومتی نمائندے تحقیقات، معاوضوں اور سخت اقدامات کے وعدے کرتے ہیں، مگر چند دن بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گیس سلنڈر کی ری فلنگ اور ترسیل کے درجنوں غیر قانونی مراکز آج بھی بغیر کسی حفاظتی معیار، تربیت یا نگرانی کے شہر بھر میں بدستور کام کر رہے ہیں جسکے نتیجے میں حادثات، دھماکے، اور قیمتی جانوں کا ضیاع روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، پریٹ آباد کا یہ واقعہ حیدرآباد کے ہر شہری کے دل پر نقش ہو گیا ہے۔آگ کے شعلوں میں جلتے مکانوں کے مناظر، روتی ہوئی مائیں، زخمی بچوں کی سسکیاں یہ سب محض خبروں کی سرخیاں نہیں، بلکہ ایک شہر کی اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہیں انسانیت کی قیمت آخر اتنی سستی کیوں ہو چکی ہے کہ ہر حادثہ محض ایک “خبر” بن کر رہ جاتا ہے سانحہ پریٹ آباد ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حادثات قسمت نہیں، نتائج ہوتے ہیں لاپرواہی، کوتاہی، غفلت اور انتظامی ناکامی کے نتائج ہمیشہ اک سانحے کو جنم دیتے ہیں اگر ہم نے اب بھی احتیاط، آگاہی اور قانون پر عمل کرتے ہوئے اپنی روش کو نہ بدلا تو کل یہ شعلے کسی اور کے گھر نہیں بلکہ ہمارے دروازے پر بھی بھڑک سکتے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، سول ڈیفنس، اور شہری خود آگے بڑھ کر حفاظتی تعلیم اور عملی اقدامات کو یقینی بنائیں کیونکہ زندگی اللہ رب العزت کی امانت ہے اسے حادثے کے حوالے کرنا جرم ہے۔



