کالم/مضامین

بات کچھ او ر تھی۔ ۔ ۔ (آجر اور اجیر کے رشتے کو مظبو ط بنا تا ایک افسانہ)

تحریر: کاشف شمیم صدیقی

نام تو دراصل اُن کا استفسار مقصود لکھنؤی تھا، مگر کیوں کہ لوگوں کو سمجھنے اور بولنے میں پریشانی کا ہی سامنا رہتا تھا، اس لیے سب انہیں آفس میں اُن کے بچپن میں رکھے گئے پیار کے نام "ننّھے میاں ” کہہ کر پکارتے تھے، لڑکپن سے جوانی تک "کبوتربازی ” اور "یاری دوستی ” میں ایسے مصروف رہے کہ پڑھ لکھ کر کچھ بننے سنورنے کا وقت ہی نہ نکال پائے، باپ دادا کی جائیداد پر اتنا ناز تھا کہ شادی اور پھر بیٹی کی پیدائش کے بعد بھی مزاج جوں کے توں ہی رہے۔

دن بیتتے گئے۔۔۔ مال و اسباب ختم ہوتا چلا گیا۔۔۔ اور پھر وہ ہی ہوا جس کا انہیں بالکل بھی ڈر نہیں تھا، عمر کے آخری حصے میں پہنچے تو بیٹی کی شادی اور گھر، گر ہستی کی ذمّے داریوں نے تلاشِ معاش پر مجبور کر ہی دیا، قسمت کی دیوی مہربان تھی کہ جلد ہی نوکری وجاہت جلیل عثمانی کے شاندار آفس میں مل گئی۔

مگر ننھے میاں اس نوکری سے بالکل بھی خوش نہیں تھے۔ ۔ ۔ وجہ یہ تھی کہ عثمانی صاحب ایک نہایت با اصول، سنجیدہ مزاج اور قاعدے قرینے والے انسان تھے جب کہ ننھے میاں کی شخصیت ان تمام صفات کے بلکل متضاد تھی، اسی بنا پر آئے دن انہیں عثمانی صاحب کی خفگی اور ناراضگی کا سامنا رہتاتھا، بدلے میں ننھے میاں کا دل اُن کی طرف سے احترام، خلوص ا و ر اپنائیت کے جذبے سے خالی ہو چکا تھا، گو کہ وہ کوئی بد تہذیبی یا بدتمیزی تو نہیں کرتے تھے پر اندر ہی اندر کڑُھتے ضرور رہتے تھے، ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ۔ ۔

” ننھے میاں۔۔۔عثمانی صاحب نے چائے کا کہا ہے۔۔۔ذرا خیال سے جائیے گا، بہت غصے میں ہیں!!” منصور نے آکر اطلاع دی تھی

اپنی ہی سوچوں میں گُم انہیں یہ احساس بھی نہ رہا چائے میں چینی کے بجائے نمک ڈال کر لے جا رہے ہیں

عثمانی صاحب پہلے ہی گھُونٹ پر آگ بگولہ ہو گئے تھے، "ننھے میاں۔۔۔ یہ اتنی کڑوی چائے کس خوشی میں لیے چلے آرہے ہیں آپ؟ ”

"جی سر۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ کام بہت زیادہ تھا نا۔۔۔اس لیے ایسا ہو گیا” انہیں کچھ اور نہ سوجھا تو جھٹ یہ کہہ دیا

"کام!! کیا کام کرتے ہیں آپ۔ ۔ ۔ ذرا پتہ تو چلے” عثمانی صاحب کی طرف سے سوا لات کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا
جی۔ ۔ ۔ آں۔ ۔ صبح نو بجے ہم آتے ہیں، سب کے لیے چائے بناتے ہیں او ر پھر کچھ آفس کا چھوٹا، موٹا کام۔ ۔ ۔ ”

"اچھا! ۔ ۔ ۔ ویسے کتنا ٹائم لگ جاتا ہوگا اس میں؟”

"سر یہی کوئی ایک، ڈیڑھ گھنٹا”

"او ر اس کے بعد؟”

” جی سر، اُس کے بعد پھر ہم تقریبا پونے ایک بجے تک، دوپہر کا کھانا لینے چلے جاتے ہیں، جو لوگ ٹفن لاتے ہیں اُن کا کھانا گرم کر تے ہیں ۔۔۔اور پھر شام کی چائے” وہ نہایت انہماک سے اپنے روزمرّہ کی کارکردگی پیش کر رہے تھے

"اور اس میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے آپ کا؟”

"سر، دو۔۔ڈھائی گھنٹے تو لگ جاتے ہوں گے”

” ہوں!!۔۔۔ تو اس طرح سے تو آپ کے کام کے گھنٹے بنتے ہیں چار۔۔۔باقی کے چار گھنٹے آپ کیا کرتے ہیں؟”

یہ کیساحساب، کتاب تھا،ننھے میاں بری طرح سٹپٹا گئے تھے "سر۔ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ یہ” ان سے کوئی جواب نہ بن پا رہا تھا

"بس بہت ہو ا !!۔ ۔ ۔ عمر ہو گئی ہے ننھے میاں آپ کی۔۔۔ بس یہ مہینہ اور۔۔۔اس کے بعدگھر پر آرام کیجئے گا، آفس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ اب کھڑے، کھڑے میر ی جانب کیا دیکھے جا رہے ہیں، جائیے دو سری چائے بنا کے لائیے”

نوکری سے نکالے جانے کا فیصلہ تھا یا کسی نے پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لی تھی۔ ۔ ۔ ” کیا ہو گا اب؟ کہاں جائیں گے؟ کون دے گا ہمیں اس عمر میں دو سری نوکری؟” وہ سوچ رہے تھے اور ہر گزرتا دن ان کے دل کو بُری طرح سہما رہا تھا

پھر وہ مہینہ ختم،اور نیا ماہ شروع ہوگیا تھا۔ ۔ ۔ پہلی، دوسری، تیسری۔ ۔ ۔ تاریخیں جلدی، جلدی گزر رہی تھیں۔۔۔ لیکن کچھ بھی تو
نہیں ہوا تھا۔ ۔ ۔ نا تحریری اور نہ ہی زبانی، بر طرفی کے کوئی احکامات انہیں اب تک موصول نہیں ہوئے تھے

"چلو اچھا ہی ہوا جو بھول گئے۔۔۔جان چھوٹی” وہ دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہوگئے تھے

ننھے میاں خوش تو ہو گئے تھے لیکن یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ عثمانی صاحب کبھی کچھ نہیں بھولتے تھے ۔ ۔ ۔ بات کچھ اور تھی!!

"جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، میں عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو رہا ہوں، مزدوروں کے عالمی دن کے مو قع پر مہمانوں کا ایک وفد ہمارے آفس کا وزٹ کرے گا، امید ہے میری غیر موجودگی میں تمام کام بہ احسن و خوبی انجام پائیں گے” وجاہت صاحب تمام اسٹاف سے مخاطب تھے

” اور ہاں۔ ۔ ۔ ننھے میاں، آپ ذرا چائے وغیرہ کے انتظامات اچھی طرح دیکھ لیجیے گا، کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے ”

"جی بہت بہتر ” وہ ہمیشہ کی طرح اُس دن بھی کسی الجھن کا ہی شکا ر تھے

میٹنگ ختم ہوئی تو سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔

"ارے ننھے میاں۔۔۔ اتنے گُم صُم سے کیوں بیٹھے ہیں؟ ” منصور کا گزر کچن کے پاس سے ہوا تو انہیں اداس بیٹھا دیکھ کر پوچھ لیا

"بس کیا بتائیں منصور میاں۔۔۔ بڑی مشکل آن پڑی ہے”

"سب خیریت تو ہے؟۔۔۔ کوئی سیریس بات ہے کیا؟ ” منصور متفکر لہجہ لیے کچن کے اندر ہی آگیا تھا، آتے، آتے دروازہ بھی بھیڑ دیا تھا

"بٹیا کا رشتہ آیا ہے” انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا

"لڑکا ہمیں پسند ہے، لوگ بھی معقول ہیں۔۔۔بس شادی جلدی کرنے کا کہہ رہے ہیں، اور ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں ” لفظ مایوسی کی حدوں کو چھو ر ہے تھے

"کبھی،کبھی ہم سوچتے ہیں۔۔ایسی مجبور زندگی سے تو مر جانا بہتر ہے” وہ بہت دلبرداشتہ نظر آرہے تھے

"ایسی نا امیدی کی باتیں کیوں کر رہے ہیں آپ؟” منصور نے کچھ ہمت بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ۔ ۔ "ویسے کتنی رقم درکار ہے؟ ”

"یہی کوئی د و لاکھ تک چاہیے ہوں گے ” ان کے چہرے پر اداسی مزید پھیل گئی تھی

” آپ کو تو پتا ہے ننھے میاں،میری پوزیشن ایسی نہیں کہ کچھ مدد کر سکوں۔۔۔ آپ عثمانی صاحب سے بات کیوں نہیں کرتے” منصور نے مشورہ دیا تھا

"توبہ کرو میاں!۔۔۔وہ تو ایک،ایک روپیہ اتنی چھان،پھٹک کے بعد خرچ کرتے ہیں، ہمیں دو لاکھ کیا خاک دیں گے” ان کی چہرے کے تاثرات بگڑ سے گئے تھے

"منصور میاں۔۔۔ ذرا دیکھئے تو۔۔۔ ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے۔۔۔جیسے دروازے کی اوٹ میں کوئی کھڑا ہے” وہ جو بہت دیر سے اُس طرف دیکھ رہے تھے، گویا ہوئے

” ہُوں۔۔۔اچھا۔۔۔ اس نے جلدی،جلدی چائے کے آخری گھونٹ لیے، اور جا کے دیکھا”

کوئی نہیں ننھے میاں۔۔۔آپ کا وہم ہے” منصور نے کچن کا دروازہ پورا کھول دیا تھا

مزدوروں کا عالمی دن آیا، تو طے شدہ پروگرام کے مطابق مہمانوں کا وفد بھی آفس آگیا، کانفرنس کا باقاعدہ آغاز وقت مقررہ پر ہو گیا تھا، یکے بعد دیگرے، موقع کی مناسبت سے سب مقرّرین اپنے،اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے، پھر جب ہال نما کمرے میں سوٹ بوٹ پہنے ایک صاحب، ڈائس پرتقر یر کرنے آئے، تو وہ جو کچھ بھی انگریزی میں کہہ رہے تھے وہ ننھے میاں کی سمجھ میں تو با لکل بھی نہیں آرہا تھا، مو قع ملاتو منصور کے پاس جا کھڑے ہوئے

"منصور میاں۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟”

"موصوف مزدوروں کے حقوق اور ان سے حسُنِ سلوک کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں ” منصور کے لہجے میں بیزاری نمایاں تھی

"کیا بھلے انسان ہیں بھئی، جو مزدوروں کے بارے میں ایسے جذبات رکھتے ہیں۔۔۔اور ایک وہ ہیں "۔۔۔ دور کہیں ذہن میں ان کے وجاہت جلیل عثمانی کی شبیہہ ابُھری تھی۔

کانفرنس کے اختتام پر چائے کا دور، دورہ شروع ہوا، بیٹھے، کھڑے، چلتے پھرتے۔۔۔ لوگوں کی موجودگی نے آفس میں خوب رونق لگا
رکھی تھی، ایسے میں نہ جانے کون ننھے میاں سے ٹکرایا تھا کہ ہاتھ میں تھما چائے کا کپ اُن ہی سوٹ، بوٹ والے صاحب کے کپڑوں پر جا گرا تھا۔۔

” یہ کیا بدتمیزی ہے؟۔۔۔ Who the hell are you ۔ ۔ جاہل انسان تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ چائے کیسے Serve کی جاتی ہے؟ (یہ وہ ہی تھے جو کچھ دیر پہلے حقوق اور حسُنِ سلوک کی باتیں کر رہے تھے)

” میں۔۔ما ۔ ۔معاف۔۔کیجیے” ننھے میاں کی آواز حلق ہی میں کہیں اٹک گئی تھی

"پتہ نہیں ایسے لوگوں کوں اس عمر میں نوکری پر رکھ کون لیتا ہے” وہ صاحب برسے جا رہے تھے

بھری محفل میں بے عزتی کے اس احساس نے ننھے میاں کی آنکھوں کو بھگو دیا تھا

"لوگوں کو اس عمر میں نوکری پر رکھ کون لیتا ہے۔ ۔ ۔ جاہل انسان تمہیں تمیز نہیں ” سُوٹ بوٹ والے صاحب کے لفظوں کی چوٹ آج انہیں سونے نہیں دے رہی تھی۔۔۔کروٹ بدل کر آنکھیں بندکر لیں کہ شاید نیند آجائے

"عثمانی صاحب نے اس عمر میں ہمیں نوکری پر کیوں رکھا ہوا ہے۔۔؟” یک دم آنے والے خیال سے ننھے میاں کی آنکھ کھُل گئی تھی

"یقیناََ ہمارے شجرہ نصب سے مرعوب ہوئے ہوں گے!!”َِِ جواب اپنے ہی تئیں حاصل کر لیا تھا

وجاہت صاحب کو احساس تھا، وہ متاثربھی ہوئے تھے، لیکن ان کے خاندانی حصب ونصب سے نہیں۔ ۔ ۔ بات کچھ اور تھی!!
اگلی صبح، وہ یہ فیصلہ کر کے آفس آئے تھے کہ اپنا ا ستعفٰی چپُ چاپ منصور کو تھما کر خاموشی سے آفس سے چلے جائیں گے۔۔۔پھر وہ اُس کے پاس پہنچے۔۔۔ا ستعفٰی دینا ہی چاہتے تھے کہ اچانک موبائل پر آنے والے میسج نے اپنے جانب متوجہ کر لیا۔۔۔

"منصور میاں۔ ۔ ۔ ذرا دیکھئے تو۔ ۔ ۔ یہ کیا لکھا ہے” اپنا انتہائی خستہ حال مو با ئل اُس کی طرف بڑھایاتھا

منصور نے قدرے حیرت سے آنے والا میسج پڑھا تھا۔۔”ارے ننھے میاں۔۔یہ تو بینک کی طرف سے ہے۔ ۔ ۔ آپ کے اکاؤنٹ میں دو لاکھ کا ڈپازٹ ہوا ہے!”

"کیا!!۔۔۔دو لاکھ!!۔۔” انہیں اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا
"لیکن کیسے۔۔؟ کون۔ ۔ ۔ کون کرسکتا ہے ایسا۔ ۔ ۔ ؟” حیرانگی دیدنی تھی

"بینک فون کر کے وقار سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔۔۔!” منصور نے جیسے مشکل ہی آسان کر دی تھی

پھر ننھے میاں نے ویسا ہی کیا، اور بینک فون ملِا لیا،

"ہیلو۔۔وقار میاں۔۔ہم استفسار بات کر رہے ہیں۔۔ذرا دیکھ کے بتائیے گا۔۔ہمارے اکاؤنٹ میں دو لاکھ کن کی طرف سے جمع کروائے گئے ہیں؟”

"ایک منٹ۔۔۔ Hold کیجئے۔۔۔ ” دوسری طرف سے آواز آئی تھی

"جی۔ ۔ ننھے میاں۔ ۔ ۔ Deposit وجاہت جلیل کی طرف سے ہوا ہے”

کیا!! ۔ ۔ ۔ کیا کہا آپ نے!!۔ ۔ ۔ عثمانی صاحب کی طرف سے۔ ۔ ۔ !!” ان پر تو جیسے حیرتوں کے پہاڑ ہی ٹوٹ پڑے تھے

” جی ہاں، ان ہی کی طرف سے”

"لیکن انہیں کیسے پتا چلا کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ہماری تو کوئی بات اُن۔ ۔ ۔ ارے ہاں!!۔ ۔ ۔ اُس دن۔ ۔اُس دن دروازے کی اوٹ میں۔۔۔!!” بات کیا تھی، اب اُن کی سمجھ آتا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ اور جوں،جوں بات سمجھ آتی جارہی تھی خوشی کے ساتھ ساتھ احساس ِندامت بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ۔ ۔
وجاہت صاحب عمرے کی ادئیگی کے بعد وطن واپس پہنچ چُکے تھے، آج آفس بھی آرہے تھے، بس کچھ ہی دیر میں پہنچنے والے تھے، سب لوگ "استقبال” کی تیاریوں میں مصروف تھے، سب چہروں پر خوشی نمایاں تھی، سب نے ہی اُن کے لیے کسی نہ کسی تحفے کابھی بندوبست کیا ہوا تھا،

ننھے میاں کو بھی اُن کی آمد کا بے حد انتطار تھا، خوشی خوشی اُن کے لیے گلاب کا ایک ہار جوبنوایا تھا، تازہ، مہکتے پھولوں کا ہار، جس سے اٹھنے والی خوشبوں "احساس”، "خلوص "ا ور "اپنائیت” کے جذبے سے سر شار تھی۔

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You