کالم/مضامین

عنوان: ” کچھ انسانوں کو موت نہیں آنی چاہئے

ٹائٹل: بیدار ھونے تک

عنوان: ” کچھ انسانوں کو موت نہیں آنی چاہئے”

اپنے نفسانی خواہشات کے خاطر ایسے بھی انسان ھوتے ہیں جو شیطانی حرکات میں سب کچھ کر گزرتے ہیں جو اس عارضی زندگی یعنی دنیا میں بھی شدید بدلہ (مکافاتِ عمل) پاتے ہیں اور ابدی زندگی (یعنی بعد موت اٹھائے جانے والی زندگی) بھی دوزخ کو اپنا مستقل مسکن بنالیتے ہیں۔ تاریخِ دنیا اور تاریخِ اسلام گواہ ھے کہ ظالمین و جابرین منافقین و غداروں کی زندگیاں عبرتناک ثابت رہی ہیں جو خاص طور پر اقتدار اور حکمرانی کی ہوس کے سبب پیدا ھوئیں ان میں جہاں مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والے شامل ہیں وہیں چھوٹے بڑے عہدے و منصب کیلئے اداروں’ کارخانوں اور محلہ کمیٹیوں سمیت ہر منصب کی خواہش نے نفس کی اطاعت نے زندگی کو غلاظت کی تہہ میں کہاں سے کہاں تک لے جاتے رھے ہیں۔ ایسی ہی بیشمار تحریریں ہمارے لیئے سبقِ آموز موجود ہیں انہی تحریروں میں چند ایک تحریر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ھوں۔۔۔۔آپ حجاج بن یوسف کو لیجئے،یہ تاریخ اسلام کا ظالم ترین شخص تھا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسے گورنر بنایا اس نے اپنے تیس سالہ دور میں عالمِ اسلام کی ان ہستیوں کی داڑھیوں کو خون سے رنگین کردیا، جنکی طرف لوگ کمر موڑنا بھی گناہ سمجھتے تھے لیکن پھر کیا ہوا یہ حجاج بن یوسف تقریبا ایک لاکھ لوگوں کو قتل کرنے، خانہ کعبہ کی دیواریں گرانے اور حجراسود توڑنے کے باوجود باون سال کی عمر میں معدے کے سرطان میں مبتلا ہوا، جس کی وجہ سے یہ خوراک ہضم نہیں کرسکتا تھا، جو کھاتا تھا، قے کردیتا تھا اور معدے کے درد کی وجہ سے ساری رات اور سارا دن تڑپتا رہتا تھا۔ یہ آخری وقت میں سردی کا شکار بھی ہوگیا۔ اسے شدید سردی محسوس ہوتی تھی اور یہ سردی سے بچنے کیلئے اپنے اردگرد آگ جلواتا تھا۔ آگ کی حدت کی وجہ سے اس کی جلد جل جاتی تھی لیکن سردی کی شدت ختم نہیں ہوتی تھی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ حجاج نے جس عہدے اور اقتدار کیلئے اپنےضمیر، احساس اور انسانیت کی قربانی دی، اسے کم ازکم پانچ سو سال زندہ رہنا چاہئے تھا، لیکن افسوس اسے ان تمام مظالم کے باوجود چند گھنٹوں کی اضافی مہلت بھی نہیں مل سکی اور یہ فقط باون سال کی عمر میں مرگیا اور یہ حجاج بن یوسف کے ساتھ بڑی زیادتی ہے جتنا اس نے ظلم ڈھائے تھے عبرت کیلئے مزید عمر ھونی چاہئے تھی۔ آپ تاریخ میں حجاج بن یوسف سے ذرا سا پیچھے چلے جائیں، آپ یزید کے دور میں چلے جائیں تو یزید کے دور میں کربلا جیسا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ابن زیاد اور شمر نے یزید کے اقتدار کی خاطر امام عالی مقام رضی الله تعالیٰ عنہ کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کو بےدردی سے شہید کردیا لیکن ہوا کیا۔یزید حضرت امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین سال بعد انتقال کرگیا، ابن زیاد پانچ اور شمر اڑھائی سال بعد انتقال کرگیا۔ آپ تھوڑا آگے آئیں، چنگیز خان نسلِ انسانی کا سب سے بڑا قاتل تھا۔ اس نے قریبا چوراسی لاکھ لوگ قتل کئے اور یہ اسی طرح کی ایک جنگی مہم میں چونسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اسی اقتدار کیلئے اشوک اعظم نے اپنے چونسٹھ بھائی مروا دیئے لیکن کیا ہوا؟ کتنی مہلت مل سکی ہم اگر اپنی زندگی میں جھانک کر دیکھیں تو تھوڑی سی دولت اور اقتدار کیلئے آج بھی دن رات ظلم کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں، دوسروں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں، ہم دوسروں کی زمین جائیدادوں پر قبضے کرتے ہیں، ہم دوسروں کی زندگی بھر کی کمائی بھی چھین لیتے ہیں، ہم چوری کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، قتل کرتے ہیں، دھونس دھمکی سے دوسروں سے پیسہ ناجائز طور پر نکلواتے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ کرتے ہیں، اپنے مخالفین پر جھوٹے پرچے بھی کٹواتے ہیں۔ ہم اس دولت، زندگی، اختیار، اقتدار کیلئے اپنا ضمیر، انسانیت، احساس اور ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ ہم اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں لیکن اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ ہم یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنے ہاتھوں مرنے والے مقتول کے چند سال بعد خود بھی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہم جس اختیار، اقتدار اور عہدے کیلئے انسانیت کی تمام حدیں عبور کرگئے۔ یہ اقتدار، یہ عہدہ اور یہ اختیار چند سال بعد سرکتی ہوئی ریت کی مانند ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔ ہماری مدت اقتدار پوری ہوجاتی ہے۔ ہم سے ہمارا عہدہ چھن جاتا ہے یا پھر ہم ریٹائر ہوجاتے ہیں اور چند برسوں کی ذلت خواری، بیماری کے بعد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور سب کی سب زمین پر رہ جاتی ہیں، مکان دکان اور فیکٹری بک جاتی ہیں۔ روپیہ پیسہ بینک کھا جاتے ہیں یا کوئی سالہ بہنوئی لے کر اڑ جاتا ہے یا پھر ہمارا کوئی بیٹا جوئے یا طوائف کے چکر میں اڑا دیتا ہے یا پھر یہ پیسہ آخر میں طبیبوں اور ڈاکٹروں کے کام آتا ہے۔ حجاج بن یوسف سے لے کر آجتک، انسانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟میں انسان کی اس بےوقوفی پر پریشان نہیں ہوتا۔ مجھے پریشانی ظلم کے بعد ظالم سے ہونے والے سلوک پر ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انسان جس عہدے، جس مال اور جس اقتدار کے لئے اتنی قربانیاں دیتا ہے یہ اس کے بعد اس سے چھننی نہیں چاہئیں۔ اس انسان کو اتنی قربانیوں کے بعد مرنا نہیں چاہیئے۔ اسے کم ازکم دو تین ہزار سال زندہ رہنا چاہیئےکیا ہم ان گنتی کےچند برسوں کیلئے یہ سب کچھ کرتے ہیں؟ کیا مظلوم اور ظالم کی زندگی میں صرف چند برس کا فرق ہوتا ہے؟ اگر فرق صرف اتنا ہے تو ہماری سوچ اور منفی کوششوں پر تف ہونا چاہئے۔ ہم کل کے بارے میں جانتے نہیں اور اپنے آج کو آلودہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے اور گر ہم کریں تو ہمیں مرنا نہیں چاہئے۔۔۔۔ معزز قارئین!! اس تحریر کو پڑھنے کے بعد جب میں نے قرآن پاک کی جانب دیکھا تو اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ھوئی کہ الله تبارک تعالیٰ نے انسان بلخصوص مسلمان کو اپنی تمام مخلوق حتیٰ کہ فرشتوں پر بھی افضلیت بخشی اور حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا مزید قرآن کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ حضرت انسان کو یہ مقام آپ نورِ مجسم خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے عطا کیا گیا ھے۔ قرآن پاک کی الحمد سے الناس تک تمام حیات و ممات کی راہیں روشن دلیلیں کامیابی و کامرانی کی نوید اور حسین و جمیل ابدی زندگی کا عندیہ دیا تو دوسری جانب نفس و ابلیس سے شدید محفوظ رکھنا ابلیسی حملوں سے بچاؤ کی اطلاعات فراہم کردی گئیں برداشت صبر شکر قناعت کے ہتھیاروں کو لازماً تھامنے کا حکم دیا گیا حرص حسد جلن بغض کے زہر سے دور رہنے کی سختی سے تنبیہ کی گئی اور خاص طور پر حقوق العباد کی سختی سے پیروی کرنے کے بعد اپنے حقوق کی بجا لانے کا حق دیا گیا ھے۔۔۔۔ معزز قارئین!! عجیب ہے یہ مسلماں جن کا حکم پہلے دیا گیا ھے انہیں پس پشت کردیا گیا ھے اور جسے آخر میں رکھا وہ پہلے کرتے ہیں یعنی عبادات و ریاضت میں خوب جتھے نظر آتے ہیں عمرہ ہو یا حج کوئی خالی جانے نہیں دیا جاتا لیکن انسانی حقوق پر کہتے ہیں یہ کاروبار ھے اور وہ ایمان تف ھے ایسے سیٹھوں پر پاکستان کے تمام کے تمام نجی شعبے سیٹھوں کے ماتحت چل رھے ہیں۔ سیٹھ کا مطلب ظالم و جابر ٹیکس چور بدعنوان و بد کردار اور سب سے بڑا منافق و فاسق جبکہ اگر سرکاری اداروں کے سربراہوں کو دیکھیں تو وہ بھی سیٹھ سے کم نظر نہیں آئیں گے انکی بدکرداروں کو بیان کیا جائے تو طویل فہرست مرتب ھوجائیگی ان سب سے بڑھ کر ہمارے سیاستدان اور رہنما بس کس کس کا ذکر کروں پھر ہم دعا کرتے ہیں اے رب تو ہم پر کرم فرما ہماری بخشش فرما آپ ہی بتائیں آپ نے بھی قرآن پاک کا مطالعہ کیا ھے کیا ہم مسلمانوں کے ایسے اعمال ہیں جو ہم رحم کے قابل ھوں کیا ھم اس قابل ہیں کہ ہم پر الله برکتیں نازل فرمائے یقیناً ہرگز ہرگز نہیں ہم سب کو نبی کریم کی اطاعت کرتے ھوئے اپنی زندگی ڈھالنی پڑے گی تب ہی ہم اشرف المخلوقات اور کامیاب زندگی گزار سکیں گے ھماری کامیابی اور خوشحالی کی ضمانت صرف اور صرف نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ھے لیکن کیا پاکستان میں کبھی ایسا حکمران آئیگا جو قوم اور ملک کے دستور اور آئین کو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق رائج کرسکے یوں تو مستقبل قریب میں ھوتا ھوا نظر نہیں آرہا کیونکہ بگڑے بدکار حرام سے پلنے والی قوم کی دعائیں کیونکر رب قبول کریگا پھر بھی دعا کرتے ہیں کہ اے رب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وآلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اس قوم کو ہدایت بخش تاکہ یہ دین الہیٰ پر کاربند ھوسکیں آمین یا رب العالمین ملک اس وقت تک نہیں سدھرتے جبتک قوم نہ سدھرے ۔۔۔!!

کالمکار: جاوید صدیقی

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You