کالم/مضامین

عنوان: کراچی پریس کلب’ کے یو جے اور سرگرمیاں

ٹائٹل: بیدار ھونے تک

عنوان: کراچی پریس کلب’ کے یو جے اور سرگرمیاں

گزشتہ روز ایک ہمارے صحافی دوست نے کراچی پریس کلب کی ایسی تصویر کھینچی کہ جسے اب بیشتر صحافی سچ و حق کہتے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ھے کہ سینئر صحافی پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار صاحب’ ناصر محمود’ عارف خان اور دیگر دستوری گروپ کے دوستوں کیساتھ کراچی یونین آف جرنلسٹ اور کراچی پریس کلب کے عہدیداران کی جانب سے غفلت سستی اور عدم دلچسپی کا احساس دلانے کیلئے مثبت انداز میں بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے معزز ممبران اچھی طرح واقف ہیں کہ اس بابت جاوید صدیقی اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے سینئرز کی رہنمائی کیساتھ کراچی پریس کلب سمیت ملک بھر کی یوجیز اور کلبس کے ذمہداران سے گاہے بگاہے متاثرین صحافیوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تجویز و مشورے سے بھی مستفید کرتا چلا آرہا ہوں اسی عمل کو دیکھتے ھوئے
ہمارے پیارے دوست راؤ محمد جمیل نے کراچی پریس کلب کے متعلق واٹس اپ پر تحریر شیئر کی وہ لکھتے ہیں کہ کراچی پریس کلب صحافیوں کا گھر ہی نہیں بلکہ مظلوموں کو فراہمی انصاف کا بے لوث ادارہ اور جمہوریت کے علمبردار کے طور پر بھی شناخت کیا جاتا ہے ماضی میں جب بھی کسی آمر نے جمہوریت پر شب خون مارا تو کراچی پریس کلب کے بانی صحافی ہمیشہ حق اور سچ کیساتھ شانہ بشانہ ناصرف کھڑے نظر آئے بلکہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا بلکہ ہر ظلم کا ہمیشہ جوانمردی سے مقابلہ کیا اور اسکی جھلک آج بھی مظہر عباس جیسے چند صحافیوں میں نمایاں نظر آتی ہے دوسری جانب کراچی پریس کلب اور صحافیوں کی اصول پرست صحافت اور جمہوری فیصلوں کی صلاحیت کو کمزور کرنے کیلئے بعض طاقتوں اور جمہوریت کی آڑ میں چھپی سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے پریس کلب کے وسائل اور اختیارات پر قبضے کے سازشیں شروع کردیں اور طویل جدوجہد کے بعد ایک مذہبی جماعت پریس کلب پر قبضے میں کامیاب ہوگئی اوراس مذہبی جماعت کو کراچی پریس کلب کا قبضہ دلانے میں آن نام نہاد صحافیوں جن کی پرورش اس مذہبی جماعت کے زیر سایہ ہوئی تھی کردار ادا کیا اور ایک منظم سازش کے تحت مختلف اخبارات اوراداروں میں شامل کروانے اور میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کراچی پریس کلب کی ممبر شب دلانے کا سلسلہ شروع کردیا اس دوران مذکورہ مذہبی جماعت کے رہنماؤں اور جمہوری دشمن قوتوں نے کردار ادا کیا تو کے یو جے کے بعض میر جعفر’ میر صادقوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ایک مخصوص مذہبی جماعت کی کراچی پریس کلب پر اجارہ داری اور پروفیشنل صحافیوں کے ایک بزدل ، مفاد پرست اور منافق ٹولے کی خاموش حمایت نے کراچی پریس کلب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ھے۔ کراچی پریس کلب کی ممبر شپ میرٹ پر دینے کے بجائےمذکورہ مذہبی جماعت کے کارکنان اور وفاداری کا حلف اٹھانے والوں میں بانٹی گئی۔ کراچی پریس کلب کو مکمل طور پر مذہبی جماعت کا ہیڈکواٹر بنادیا گیا ھے۔ صحافیوں کے نام پر ملنے والی کروڑوں روپے کی حکومتی گرانٹ اور دیگر مراعات میں سنگین حد تک بدعنوانیاں اور خردبرد کی گئی۔اپنے مذہبی آقاؤں کی ایماء پر ان کی لیبارٹری میں پرورش پانے والے نام نہاد صحافیوں بعض ممبران کے بیٹوں بھانجے بھتیجوں کو بھی صحافی اور کراچی پریس کلب کا جبری ممبر بنا کراصل صحافیوں کے حقوق پر ناصرف کھلےعام ڈاکہ ڈالا گیا بلکہ پلاٹ اور دیگر مراعات بھی لوٹی گئیں اس ظلم اور ناانصافی کیخلاف اگر کسی نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اُس صحافی کو حق بات کہنے پر نشان عبرت بنایا گیا اُسکی ممبر شپ کی درخواست بلاوجہ رد کی گئی اور ان کے کراچی پریس کلب میں داخلے پر پابندی لگا کر حراساں اور بلیک میل کیا گیا اور ایک پروفیشنل صحافی کو کسی بھی اہم ادارے سے منسلک ہونے کے باوجود انکے پریس کلب میں داخلے اور پریس کلب میں ہونے والی پریس کانفرس کی کوریج کی اجازت نہیں دی گئی باعزت اور نامور صحافیوں کو کراچی پریس کلب کے چوکیداروں سے بے عزت کرایا گیا اور مذہبی جماعت کے اس آمرانہ، جابرانہ اور شرمناک کردار میں کے یو جے کے میر جعفر اور میر صادق بھی برابر کے شریک ہیں ماضی میں کسی بھی صحافی نے اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی یا عدالتی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا تو اسےخوفزدہ کیا گیا’ دھمکیاں دی گئیں۔ مذہبی جماعت کے دہشت گردوں کے ذریعے حراساں کرایا گیا’ جھوٹے مقدمات سے ڈرایا گیا تو اپنے دلالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ حکومت، حکومتی ادارے، فراہمی قانون کے ادارے اور عدالتیں انکی جیب میں ہیں کیونکہ وہ کراچی پریس کلب کے مالک ہیں اور کسی میں ہمت نہیں کے کراچی پریس کلب سے ٹکرا سکے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ مخدوم عادل، عرفان ساگر، زاہد فخری، ضیاء الرحمن، رانا خالد، افضل سندھو، غازی جھنڈیر، حمید سومرو اور دیگر متاثرین صحافی۔ صحافی نہیں کوئی بھی جماعتی لیڈر اور کراچی پریس کلب پر قابض ان کے کارکنان کو میں چیلنج دیتا ہوں حکومتی یا عدالتی کسی بھی فورم پر مذکورہ متاثرین صحافیوں سے صحافت میں مقابلہ کرلو اگر کوئی بھی کراچی پریس کلب کی آڑ میں چھپا مذہبی جماعت کا کارندہ یا غنڈه ان سے اچھی خبر فائل کردے یا اچھا صحافی ثابت کردے تو مجھے چوراہے پر لٹکادیا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی پریس کلب میں ہونے والی ناانصافیوں اور قبضے کیخلاف جدوجہد کیجائے حکومتِ وقت بھی اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرے عدالتیں اور انمیں تشریف فرما معزز جج صاحبان کراچی پریس کلب میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف از خود نوٹس لیں اگر شراب کی بوتل پر نوٹس لیا جاسکتا ہے تو اس اہم ایشو پر کیوں نہیں۔ آخر میں کراچی پریس کلب کے غیور ممبران اور پروفیشنل صحافیوں خود کوصحافیوں کی سرپرست قرار دینے والی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ کراچی پریس کلب کو ناانصافی کا گہوارہ بنانے والی مافیاز کے خلاف جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں اور مختلف صحافتی تنظیموں خاص کر برنا کے ایک گروپ کے باڈی بلڈر اور پہلوان نظر آنے والے غداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ توبہ کرلیں ورنہ میر جعفر اور میر صادق کی طرح ہمیشہ یاد رکھے جاؤگے اب انشاء الله یہ جنگ صحافتی عدالتی میڈیا اور سوشل میڈیا ہر میدان میں آخری دم تک لڑنے کا اعلان کرتے ہیں اور ہر قربانی دینے کے جذبے کے ساتھ وعده رہا کہ کراچی پریس کلب کو نام نہاد مذہبی، سیاسی اور غیر صحافی قوتوں کے نرغے سے آزاد کرائیں گے۔انشاءالله
*چھوڑیں گے نا ہم کوشش تعمیر نشیمن*
*گرتی ہے اگر برق تو سو بار گر ے اور*۔۔۔۔ معزز قارئین!! یہ تھی راؤ محمد جمیل کی تحریر جو انھوں نے واٹس اپ شیئر کی تھی۔ یہاں واضع کرتا چلوں کہ اب صحافی حضرات ملک بھر کی یوجیز اور کلب کے عہدیداران کا سخت ترین احتساب کرنے کا سلسلہ شروع ھوچکا ھے اس کی سب سے بڑا ثبوت امسال کے اوال میں کراچی پریس کلب میں کراچی یونین آف جرنلسٹ دستور کا الیکشن منعقد ھونا شامل ھے جس میں ایسے چہروں پر مشتمل امیدوار سامنے آئے جو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی حمایت شدہ نہی تھے مانا کہ شکست ھوئی لیکن انکے عزم اور حوصلے صحافی برادری کیلئے بلند بالا ہیں اور یہ شخصیات منفی کاروائیوں غیر جمہوری عمل پر نظر رکھے ھوئے ہیں۔ کے پی سی اور کے یو جے کے عہدیداران کو بآور کراتے چلے آرھے ہیں کہ جس مقصد کیلئے منتخب کیا ھے اسی مقصد کے دائرے کو ہرگز ہرگز پار نہ کرنا کیونکہ سب سے بڑا مقصد تمام صحافیوں کی معاشی قتل کی روک تھام اور جو معاشی قتل ھوئے ہیں انکا سدباب کرنا اولین امور میں سے ھے۔۔۔۔ معزز قارئین!! راؤ محمد جمیل نے تو اپنی تحریر میں بہت کچھ آشکار کردیا لیکن میں اس بات سے قطع نظر کہ کون کون سی بات درست ھیں اور کون کون سی غلط۔ میں سمجھتا ھوں کہ کے یو جے سمیت تمام یوجیز اور پریس کلب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ڈور میں بندھے نظر آئیں اس کیلئے جمہوری اور آزادانہ روایات کو قائم رکھنا ھے اور بندر بانٹ من پسند جیسے غیر منصفانہ عمل کی روک تھام لازمی کرنا ھے تب کہیں جاکر ھم ایک شفاف ستھرا کلب اور یونین بناسکتے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں بھی ایسی شخصیت مد مقابل حصہ لیں گی جو سیاسی مذہبی چھتری کے سائے میں ھونگے کیونکہ صحافی آزادانہ اپنی منصبی خدمات ایمانداری سے پیش کرتا ھے ضمیر بیچنے والے صحافی نہیں کاروباری ھوتے ہیں۔۔۔!!

کالمکار: جاوید صدیقی

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You