عنوان:اُردُو زُبان کے قتل کا ذمہدار کون ہے

ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان:اُردُو زُبان کے قتل کا ذمہدار کون ہے؟
اردو زبان پاکستان کی قومی و سرکاری آئینی زبان ہونے کے سبب اس زبان کو ختم یعنی قتل کرنے کیلئے بیشمار ذمہدار نظر آتے ہیں۔اردوزبان کی بقا و سلامتی اور فروغ کیلئے ہم سب پر ذمہداری عائد ہوتی ہے اپنی ذمہداری کو محسوس کرتے ہوئے گاہے بگاہے میں اپنی تحریر سے قوم کو اس بابت بیدار کرنے کی کوششیں کرتا آرہا ہوں۔۔۔معزز قارئین!! خیرپورمیرس سے تعلق رکھنے والے میرے دوست انصار صاحب نےبھی اردو کے قتل اور ذمہداروں کے بارے میں اپناموقف دیتے ہوئے کہاکہ یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنادیا گیا تھا لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، مثلا”: ہیڈ ماسٹر، فِیس، فیل، پاس وغیرہ "گنتی” ابھی "کونٹنگ” میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور "پہاڑے” ابھی "ٹیبل” نہیں کہلائےتھے۔ سن انیس سو ساثھ کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ” کی جگہ "ٹاٹا”سکھایاجاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا” کہلوایا جاتا تھا۔ زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔عیسائی مشنری اسکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) اسکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوندکاری شروع کی۔ سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) اسکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری اسکول میں پرچے ہوا کرتے تھے پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا اور پھرآہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی اورجوہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے ہمیں بخوبی یاد ہے کہ سن انیس سو پچاس اور سن انیس سو ساثھ کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم،نہم اور دہم جماعتیں ہوا کرتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔ گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔ چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہوگیا۔ پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنےلگی امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے ششماہی اورسالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائنل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ اسٹوڈنٹس ایگزام کیلئے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔ قلم، دوات،سیاہی، تختی اورسلیٹ جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں انکی جگہ لَیڈپنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا- نصاب کو کورس کہا جانے لگا اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں ریاضی کو میتھمیٹس کہا جانے لگا۔ اسلامیات اسلامک اسٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی ۔اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس اسٹڈی کرنے لگے۔پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کیلئے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔ داخلوں کے بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔ اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے اسٹوڈنٹ بن گئے۔ پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔ بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔یہ سب کچھ سرکاری اسکولوں میں ہوا ہےاور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے۔ ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہےزنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہوگئے۔خوابگاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔ باورچی خانہ کچن بن گیااور اسمیں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔ غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کرکے واش روم بن گئے۔ مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتےہوئےفخر محسوس کیاجاتا ہے۔مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔ دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلےمہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈوربیل بجنے لگی۔ کمرے روم بن گئے۔کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھےجانے لگے۔”ابو جی” یا "ابا جان” جیساپیارااورادب سےبھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا اور ہرطرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کیلئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں۔اسی طرح شہدکی طرح میٹھا لفظ "امی” یا امی جان "ممی” اورمام میں تبدیل ہوگیا۔ سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی” میں تبدیل ہوگئےبچوں کیلئے ریڑھی والے سے لےکر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزن میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔ نہ جانےایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلےبھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔ گھر اور اسکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازارانگریزی کی زد سےکیسے محفوظ رہتے۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہوگئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرزآنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکاندار بھی تو سیلزمین بن گئےجس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنےلگے۔سڑکیں روڈز بن گئیں۔ کپڑے کا بازارکلاتھ بن گئی یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا، نائی نے باربر بنکر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔ ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں، بابو کلرک اور چپراسی پِیّون بن گئے۔ پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا- سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں اور محبت کو ‘لَوّ’ کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔ صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔ کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔ اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کاحلیہ مغرب سے مرعوب ہوکر کیسے بگاڑ لیا ہے۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اورمستعمل بھی ہیں انکو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔
*وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا*
*کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا*
ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خودہی اسکے ذمہدار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔ بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کردیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جارہے ہیں اور روز بروز یہ عمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ روکیئے، خدارا روکیئے، اردو کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیئے۔قومیں اپنی مادری زبان کو پروان چڑھا کرہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں۔ معزز قارئین!! میرے دوست انصار کی تحریر نے اردو کو جہاں جلا بخشنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں اس احساس کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ مزید تاخیر کیئے بغیر ہم سب اپنی عام بول چال اور تمام تر معاشرتی معاملات میں اردو زبان کا استعمال ہی رکھیں اور انگریزی زبان کو تیسرے درجہ کی حیثیت دیتے ہوئے انگریزی زبان کو محدود رکھتے ہوئے صرف بیرونی ممالک کے شہریوں سے روابط تک قائم رکھیں جبکہ اپنے وطن عزیز کے ہر اداروں اور تمام تدریسی اداروں کو اردو میں حصول تعلیم لازمی شامل کیئے جانا چاہئے۔ علم و فنون سے لیکر تحریری سلسلہ کالمکاری ڈرامہ نویسی افسانہ نگاری سمیت میڈیا کے تمام شعبہ جات بشمول پروڈکشن وغیرہ میں اردو زبان کو مکمل رکھا جائے کہیں بھی دوسری زبان کی آمیزش نہ کی جائے بلخصوص نیوز اور ٹاک شوز میں اردو زبان کے چھوٹے بڑے تمام الفاظ محاورے تشبیہات استعارے اور شعر کی آمیزش شامل کرنے کی وقت کی شدید ضرورت ہے۔
اردو کی ترویج و فروغ کیلئے ہر علاقے ہر قبیلے ہر مسلک ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔!!
کالمکار: جاوید صدیقی