عبرتناک سزائیں، معاشرے کا سدھار
*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*
*عبرتناک سزائیں، معاشرے کا سدھار*
*کالمکار: جاوید صدیقی*
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد گورنر جنرل اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ نے جس نظام ریاست کی بیل ڈالی تھی وہ نظام ریاست قائداعظم کے بعد پیدا کیئے جانے والی جمہوریت نہیں، قائد اعظم اور آپ کے رفقائے کاروں مثلا نواب لیاقت علی خان کے ادوار میں نظام ریاست فلاحی، عوامی اور ملک و قوم کی ترقی پر محیط رہی۔ یحیی ہو یا ایوب ان دونوں جنرلوں نے جہاں مایوس کیا وہیں جمہوریت کے علمدار ذوالفقار علی بھٹو نے نفرت، عصبیت، لوٹ مار، بدنظمی اور چاپلوسی کو فروغ دیا یہ سلسلہ مزید آنے والے لسانی و مذہبی جماعتوں اور آزاد جدت پسند جماعتوں نےبھی ریاست پاکستان اور نظام پاکستان کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ان جماعتوں نے بھرپور منفی کردار ادا کیا یہی وجہ ہے کہ آج مدینہ ثانی ریاست بنانے والے موجودہ نظام یعنی فرسودہ ناکارہ ہونےکی وجہ سے بدنامی شرمندگی اور ناکامی کی صورت اختیار کیئے ہوئے ہے، آج کے دور میں بے انتہا بیروگاری، لاقانونیت، عدم تحفظ بڑھ چکی ہے اسی لیئے زناکاریاں، عیاشیاں قتل و غارت بام عروج پر پہنچ چکےہیں لیکن حکومت وقت ہویااپوزیشن جماعتیں انہیں جمہوریت اور جمہوری اقدامات سے کوئی لینا دینا نہیں یہ اپنے حال، ماضی اور مستقبل کی فکر میں ہی مگن رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہوتی جارہی ہےایک جانب مہنگائی دوسری جانب بیروزگاری کا سمندر پھیلتا جارہا ہے، سیاستدان اپنے کرپشن کو بچانے کیلئے عسکری قیادت کے سامنے کشکول لیئے کھڑے ہیں تو دوسری جانب پاکستانی عوام ظلم و بربریت، ناانصافی سے تنگ ہوکر عدالت عظمی اور آرمی چیف کی جانب التجائی بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔۔ معزز قارئین!!سابقہ اور موجودہ جمہوری حکومتوں میں زناکاری بمعہ قتل کے کیس بڑھتے جارہے ہیں نظام ریاست اور نظام عدل پر شدید سوالیہ نشان بن چکے ہیں، عوام الناس کے بہت زیادہ حلقے کہتے ہیں کہ ریپ کی سزا تو سر عام ہونی چاہیئے اورحکمرانوں کی قانونی سازی مثالی ہونی چاہیئےکیونکہ آج ہم اخلاقی، سماجی، معاشی اور ایک معاشرتی بحران تک پہنچ چکےہیں۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ نےکہا تھا کسی ریاست میں معاشرہ کی تشکیل اور اسکے خدوخال کا تعین براہ راست حکمرانی کے طور طریقوں کا عکاس ہوتا ہے اور اسی موقع پر انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے بھی کوئی کتا بھوک سے مرگیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے عمرؓ اس کاجوابدہ ہوگا۔۔۔معزز قارئین!! عصر حاضر میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ جسمیں ننانوے فیصد لڑکیاں بلوغت سے قبل جنسی عمل سے گزر جاتی ہیں جہاں صرف معذور عورتیں ہی پورا لباس پہنتی ہیں۔ جہاں تیراسی فیصد جوڑے ناجائز تعلقات کو شادی پر فوقیت دیتے ہیں۔ جہاں صرف چھ فیصد نوجوان اپنے والدین سے پوچھ کرشادی کرتے ہیں اور جہاں سگی بیٹیوں پر مجرمانہ حملوں کےسینکڑوں کیس درج ہوتےہیں۔ امریکہ جواپنے صدر کی ایک جنسی بھول معاف کرنےکوتیارنہیں، اس لئے امریکہ میں کسی بد دیانت، بد اخلاق اور جنسی گراوٹ کے شکار سیاستدان کی گنجائش نہیں لیکن ہمارے ملک کی تاریخ کتنی مختلف ہے حکمرانی کرنے والوں کی ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں کہ بیان کرنا دشوار ہے۔ ماضی میں ایک حکمران ایسا بھی تھا جس کے منظور نظر کو جنرل کا رینک لگا دیا گیا تھا۔ جسکے حرم میں محبت کے ترانے دستک دیتے تھے یا نور کی بارش ہوتی تو فوراً تخلیہ دیا جاتا تھا۔ اہم احکامات کیلئے نکلتے تو دائیں بائیں جوان اٹھائے رکھتے تھے جو اٹیک کا نعرہ لگاکر پیچھے گرگئے تھے،جو پشاور میں ننگ دھرنگ باہر آگئے تھے۔ جنہوں نے درجنوں سربراہان مملکت کی موجودگی میں مانٹی کارلو کی شہزادی کے بازو پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا تھا اورجنہوں نے ہزاروں لوگوں کےسامنےگملےکو بیت الخلاء کادرجہ دیدیاتھاپھراس ملک میں ایسا سربراہ بھی گزرا جنکے چہرےکارنگ ایک وزیر اعلیٰ کانام سنکرسرخ ہوجاتا تھا اور غصے اور نفرت کے جذبات کو وہ دبا نہیں پاتے تھے۔ایک دن ہمت کرکےجنرل رفاقت نے پوچھ ہی لیا۔ سر آخر ایسی کیا بات ہے کہ اس شخص کا نام سن کر آ پ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ سابق جنرل ضیاء الحق شہید نے کہا رفاقت تم نہیں جانتے اس نے ایک بچی کے ساتھ کیا کیا جو میڈیکل کالج میں داخلے کی خواہش مند تھی جو دو نمبروں سے میرٹ لسٹ میں رہ گئی تھی اور وہ اسی جستجو میں بلوچستان ہاؤس پہنچ گئی کہ وزیر اعلیٰ اپنے کوٹے کی نشستوں میں سے اس کے داخلے کے احکامات دیدینگے لیکن تم نہیں جانتےاس بچی کی کہانی کتنی ہولناک ہے پھرجنرل ضیاء نے اس بچی کی ان تک رسائی اور تمام واقعات کی کہانی سناتےہوئے کہا۔رفاقت اگر تم میری جگہ ہوتےاور تم نےخوداپنےہاتھوں سےاس مظلوم بچی کے زخم دھوئےہوتے،اس بچی کو پہننے کیلئے اپنی بیٹی کے کپڑے دیئے ہوتےاوراگر میری طرح تم نےبھی اس بچی کے آنسوپونچھ کرکہاہوتا کہ بیٹا اپنے پھٹے ہوئے کپڑے یہیں چھوڑ کر جانا جب بھی وہ ظالم شخص تمہارے اس بوڑھے باپ کے سامنے آئے تو غصہ سےاسکی آنکھیں سرخ نہ ہوتو پھر اور کیا ہو۔رفاقت اگر تم اس تجربے سے گزرے ہوتے تو اس شخص کو دیکھ کر تمہارا دل اور خون بھی خول اٹھتا،تمہارے تیور بھی بدل جاتے، تمہارا دل بھی چاہتا کہ اس کا گلہ دبادوں۔ماضی میں جھانکیں تو کوئی اس طارق چودھری سے پوچھتاجس نے ہوسٹل سے روتے ہوئے لڑکیاں رہا کرائی تھیں۔ کوئی اقبال خاکوانی سے پوچھتا جو طوائفوں کا راستہ روکنے کے لئے ایم پی اے ہاسٹل کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔ کوئی ان سوئپروں اوربیروں سے پوچھے تو سہی جو سرکاری ہوسٹلزکےکمروں سےچوڑیوں کےخون آلودٹکڑے جمع کرتے تھے۔ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں، ہمارے حکمران، اشرافیہ اپنے گریبانوں میں جھانک کر ضرور دیکھے کیا وہ اس طرح اپنے عوام کیلئے کوئی مثال قائم کرسکتی ہے،ہماری قوم کی خواہش ہیکہ اس ملک میں کوئی ایسی عدالت تو ہو جو کسی ایک اصلی ظالم کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دے۔اشرفیہ کلاس کے چند ایک لوگوں کا حساب بے باق کردے جو پچھلے ستر سالوں سے ہاتھوں میں دستانے چڑھائے پھررہے ہیں، ایسی سزائیں جو جرم سے پہلے مجرم کے رونگٹھے کھڑے کردے۔ تاریخ کے صفحات ایسے معاشروں، ان میں ہونے والے سنگین جرائم اورسزاؤں پر عمل درآمد اور قانون کی حکمرانی کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ صدر سوہاتو کے دور میں جنسی جرائم، قتل اور تشدد کےواقعات کی ایک ایسی لہر آئی جس نے پورے انڈونیشیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ سوہارتو نے اعلان کیا کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی فہرست تیار کررہے ہیں پھر ایک دن میں چھ سو افراد کو اسٹریٹ شوٹرز کے ذریعے سر عام گولیوں کا نشانہ بنادیاگیا،جرائم کی لہر اب خوف میں تبدیل ہوچکی تھی۔صدر سوہارتو نے دوبارہ اعلان کیا کہ وہ دوسری فہرست تیار کررہے ہیں، اس طرح انڈونیشیا میں کرائم ریٹ صفر پرآگیا۔ عام لوگ فوری سعودی عرب میں کونسی ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ ہورہی ہے، انکا نظام بہت آسان، بروقت اور اسپیڈی ہے۔وہ شخص کیسے رحم کا مستحق ہوسکتا ہے جوبس اسٹینڈ پر کھڑی ایک طالبہ بنگش اقبال کی پر ہجوم سڑک پر پرس چھیننے پر مزاحمت میں گولی مار دے اور پولیس آج تک اسے پکڑ بھی نہ سکی۔ ڈکیتی پر مزاحمت کرنے والے بےگناہوں کو ان بدمعاشوں اور رہزنوں نے کسطرح جان سے مار دیا۔ نواز شریف کو صورت حال سے نمٹنے کے لئے ملٹری کورٹس بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ نوے کی دہائی میں کراچی بد امنی اپنے عروج پر تھی، اس وقت ایک تقریب میں دبئی پولیس کے چیف کرنل حارب نے کہا کہ کراچی میں امن قائم کرنے کیلئے آپ نئے کریمنل کو چھوڑ کر جن لوگوں کوسنگین جرائم میں سزائے موت ہوچکی ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے ہو چکے ہوں، انہیں اگرچوراہوں پر نہیں لٹکا سکتے تو جیلوں میں پھانسی دینے کے عمل کو ٹیلی ویژن پر دکھا دیں، آپکا مسئلہ حل ہوجائیگا اور اسکا عملی مظاہرہ ہم سب پاکستانی سابق جنرل ضیاء الحق شہید کےدورمیں دیکھ چکےہیں۔۔ چند عرصہ پہلے حیدرآباد میں ایک ایسا ایس پی تعینات ہوا، جس نے چالیس لاکھ آبادی کے اس شہر میں امن قائم کرنے کی ٹھان لی۔ بلوچ صاحب کے دور میں اس شہر میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ پہلا پولیس آفیسر تھا جسے حید آباد کے لوگ آج بھی ہیرو کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔ جی ہاں سزا سے زیادہ سزا کا تصور اور خوف جرائم کو روکتا ہے۔ سن انیس سو باہتر میں ایک واقع جب سمندری تفریح گاہ ہاکس بے پر چند منچلے نوجوانوں نے پکنک پر آئی ہوئی گرلز کالج کی طالبات کے ساتھ نازیبا حرکات کیں اور چند کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد ایوان صدر سے ذوالفقار علی بھٹو کا ایک بیان جاری ہوا، جس میں کہاگیا کہ اس واقعہ پر پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ بھٹو دوسرے روز ہنگامی طور پر کراچی پہنچے،انہوں نے گورنر ہاؤس کراچی میں آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ آفیسر! ان نوجوانوں کو ایسی سزا ضرور ملنی چاہیئے کہ وہ عمر بھر یاد رکھیں اور پھر انکے خلاف ایکشن ہوا۔۔۔ معزز قارئین!!آج ایسے واقعات تسلسل سے جاری ہیں اب یہ کہا جاسکتا ہیکہ یہ ملک بچوں اور خواتین کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ معاشرے میں غربت اور مجبوریوں کی فصل اگادی ہے لیکن کم از کم اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے پولیس اصلاحات کے ساتھ سخت اور فوری قانون سازی ہونی چاہیئے۔سزاؤں کے اعتبار سے کم سے کم سعودی عرب کے نظام اور حکمرانی میں اخلاقیات اورکردار کا کوئی پیمانہ تو طےکرسکتے ہیں۔
معزز قارئین!! زیادہ دور نہ جائیں ہمارے ملک کی نظام عدالت کے پیش کردہ فیصلوں پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہماری عدالتیں سبزی منڈی کی طرح انسانی منڈی نظر آتی ہیں، بازاروں میں جس طرح مختلف اشیاء کے مختلف بھاو ہوتے ہیں اسی طرح تھانوں سے لیکر کورٹ میں بھی جرائم کے بھاو تاو طے کیئے جاتے ہیں، یہی حال آئی جی سندھ آفس میں تقرریوں اور تبادلوں پر رشوت اور سیاسی شفارشات کا لامتناہی سلسلہ نہ رکنے والا جاری ہےحقیقت تو یہ ہے کہ کیسا ضمیر، کیسی شرم اور کونسی حکومت اور کونسے ادارے سب کے سب شامل بد ریاستی نظام میں شامل نظر آتے ہیں، مدینہ کی ریاست کہنے والے چلو میں ڈوب مریں کیونکہ وہ انسانوں کا نہیں قدرت کا تمسخر اڑا رہے ہیں، مدینہ کی ریاست کو اللہ کے مقبول آخری الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و شریعت احکام خداوندی کے تحت فلاحی، بہبودی، روحانی، خوشحالی اور ترقیاتی نظام مصطفی بناکر بنی نوع انسانوں پر احسان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں نظام مصطفی رائج ہے وہاں معاشرہ پر امن ہے ۔۔
*کالمکار: جاوید صدیقی*