
جیو نیوز کے طنز و مزاح کے ایک پروگرام میں پیپلز پارٹی کے جلسے میں شریک کچھ افراد کو بھوکا ننگا کہنے پر تنازعہ پیدا ہو گیا۔ اس کے ردعمل میں کراچی میں مشتعل مظاہرین نے جیو اور جنگ نیوز کے مرکزی دفتر پر حملہ کردیا۔
پاکستانی میڈیا گروپ جیو اور جنگ گروپ کے کراچی میں مرکزی دفتر کے سامنے اتوار کے روز مظاہرے کے دوران چند مشتعل مظاہرین نے عمارت میں زبردستی داخل ہو کر ہنگامہ آرائی کرکے شدید توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ عملے اور ایک کیمرا مین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کوآزادی صحافت پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
Everyone has right to peaceful protest. We will protect and support that right. But doing violence and taking the law into their own hands, regardless of the cause, can’t be tolerated. Dialogue is answer to all issues – not violence. pic.twitter.com/qsWYR6m81E
— Azhar Abbas (@AzharAbbas3) February 21, 2021
آزادی صحافت | 15.06.2020
‘اپنے حقوق کے لیے نہیں کھڑے ہوں گے، تو کچھ نہیں بچے گا‘
Maria Ressa philippinische Journalistin
اس حملے کے بعد جیو نیوز کے مینیجنگ ڈائریکٹر اظہر عباس نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں عمارت کے اندر فرش پر بکھرے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اظہر عباس نے اس پرتشدد کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے لکھا، ”پر امن احتجاج آپ کا حق ہے لیکن تشدد اور قانون کو ہاتھ میں لینا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے نہ کے تشدد۔‘‘
معاملہ کیا ہے؟
جیو اور جنگ گروپ کے دفتر کے سامنے اس مظاہرے کا بنیادی مقصد جیو نیوز کے طنز و مزاح پر مبنی پروگرام ‘خبرناک‘ کے میزبان و تجزیہ نگار ارشاد بھٹی کی جانب سے استعال کیے گئے ‘متنازعہ الفاظ‘ کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
ارشاد بھٹی نے ایک پروگرام کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی ڈمی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’سندھ کے آپ کے جلسوں میں جو بھوکے ننگے آتے ہیں ان کو آپ وہ پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کا وعدہ کر کے آپ انہیں جلسوں میں لاتے ہیں۔‘‘ ان کی اس بات پر ملک بھر میں مختلف حلقوں، بالخصوص صوبہ سندھ میں قوم پرستوں نے تنقید کی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس کےعلاوہ جیو کی انتظامیہ سے ارشاد بھٹی کو ملازمت سے فارغ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
The protesters should never have attacked the offices of Geo – that needs to be condemned unequivocally
But will the channel's management take action against this analyst for his downright offensive remarks against the residents of Sindh? pic.twitter.com/jIbkiOWIAp
— omar r quraishi (@omar_quraishi) February 21, 2021
معاشرہ | 03.04.2018
جیو کی نشریات کیا فوج کے کہنے پر بند کی گئیں؟
Protest gegen Geo TV in Lahore Pakistan 20.04.2014
بعد ازاں مذکورہ اینکر پرسن کی جانب سے اس بات کی وضاحت بھی پیش کی گئی۔ ارشاد بھٹی نے ایک پروگرام میں کہا، ”یہ طنز و مزاح کا پروگرام ہے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ بھی ان کے وجود کا حصہ ہیں۔‘‘
آج میرے جنگ جیو دفتر پر حملے کا دکھ ہوا اور زیادہ دکھ اس بات پر ہوا کہ حملے کیلئے جو وجہ تلاش کی گئی اس کی میں بہت پہلے واضح الفاظ میں وضاحت کر چکا تھا۔۔
سندھ اور سندھیوں کیلئے میری جان بھی حاضر۔۔ pic.twitter.com/2YI568ohUp— Irshad Bhatti (@IrshadBhatti336) February 21, 2021
میڈیا ہاؤس پر حملے کی مذمت
اکیس فروری بروز اتوار کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد پاکستان کی صحافتی، سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے جنگ اور جیو نیوز پر پرتشدد حملے کی بھرپور مذمت کی گئی اور حکام سے اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
https://twitter.com/HRCP87?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1363499395648425991%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.dw.com%2Fur%2FD8ACD986DAAF-D8A7D988D8B1-D8ACDB8CD988-D986DB8CD988D8B2-DAA9DB92-D8AFD981D8AAD8B1-D9BED8B1-D8ADD985D984DB81-D8A7D8B1D8B4D8A7D8AF-D8A8DABED9B9DB8C-DAA9DB92-D8A7D984D981D8A7D8B8-DAA9DB92-DA86D986D8A7D8A4-DAA9DB8C-D985D8B0D985D8AA%2Fa-56650771
یہ بھی پڑھیے: ہم آزاد ملک میں نہیں رہ رہے ہیں: حامد میر
پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حکومت سے صحافیوں اور ان کے آزادی اظہار رائے کے حق کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ارشاد بھٹی کے الفاظ پر تنقید
سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس تمام معاملے میں ایک طرف جیو نیوز پر حملے کی شدید مذمت کر رہے ہیں تو دوسری جانب جیو نیوز کی انتظامیہ سے مستقبل میں ادارتی پالیسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کیا آزادی صحافت کا نعرہ بلند کرنے والے والے اس بات کا جواب دینا مناسب سمجھیں گے کہ ان کے اداروں کی کوئی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ملازم اپنے ذاتی خیالات کا اس حد تک اظہار کرسکتا ہے کہ وہ دوسری قومیتوں کا تمسخر اڑاے۔۔۔۔۔
— Iftikhar Ahmad (@jawabdeyh) February 22, 2021
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ اینکر پرسن ارشاد بھٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر تنقید کر رہے تھے لیکن ان کو بہتر الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے تھا۔