اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

آج سے محض 90 سال پہلے تک ہمارے لیے کُل کائنات ہماری کہکشاں ملکی وے تھی

آج سے محض 90 سال پہلے تک ہمارے لیے کُل کائنات ہماری کہکشاں ملکی وے تھی،

لیکن پھر ایڈون ہبل کی عظیم ٹیلی سکوپ نے ہمارا کائنات کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل دیا…. ہمیں معلوم ہوا کہ ہم رات کو آسمانی پردے پہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ تو محض ہماری کہکشاں کا حصہ ہے، جبکہ کائنات میں اس جیسی مزید کہکشائیں ہوسکتی ہیں،بہرحال وقت گزرتا گیا… معلومات جدید سے جدید تر ہوتی گئیں اور آج ہمارا اندازہ کہتا ہے ہماری کائنات میں ہماری کہکشاں جیسی 2000 ارب کہکشائیں موجود ہیں…. یہی وجہ ہے کہ جب ماہرین فلکیات سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ہماری کائنات کے علاوہ بھی کئی کائناتیں ہوسکتی ہیں تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تو سو سال پہلے تک ہم اپنی کہکشاں کے علاوہ کسی اور کہکشاں کے ہونے کے قائل نہیں تھے لہذا اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہماری کائنات بھی ایک ہے تو عین ممکن ہے کہ غلط ہی لگتا ہو… ہمارا علم اپنی کائنات کے متعلق کتنا محدود ہے، اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ 1932ء میں استونیا سے تعلق رکھنے والے خلائی محقق ارنسٹ اوپِک نے دعویٰ کیا کہ نظامِ شمسی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے تحت یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظامِ شمسی کے کنارے پر برف کے بہت بڑے بڑے بادل موجود ہیں اور ان کی تہہ ناقابلِ بیان حد تک موٹی ہے…
ارنسٹ کے اس مفروضے پر تحقیق کے بعد ڈنمارک کے خلائی محقق جان اورٹ نے 1950ء میں دعویٰ کیا کہ نظامِ شمسی میں جتنے بھی دُم دار ستارے ہمیں دِکھائی دیتے ہیں وہ دراصل نظام شمسی کے ایک خاص حصے سے آتے ہیں… جان اورٹ کی اسی تحقیق کی بنا پر نظام شمسی کے اس مخصوص حصے کو اورٹ کلاؤڈ (Oort Cloud) یا اورٹ بادل کا نام دے دیا گیا…. اورٹ کلاؤڈ دراصل ہمارے نظام شمسی کے گِرد نظر نہ آنے والا برف کے گولوں پہ مشتمل ایک حصار ہے، جو اندازاً ہمارے نظام شمسی سے ایک نوری سے لے کر تین نوری سال تک پھیلا ہوا ہے…
اورٹ کلاؤڈ کی پٹی میں برف کے بنے ہوئے شہابیے موجود ہیں جو اگر کبھی سورج کی جانب لپکیں تو دُم دَار ستاروں کی صورت میں ہمیں نظر آتے ہیں… کہتے ہیں کہ جب ہمارا سورج معرضِ وجود میں آرہا تھا تو اتنے زیادہ فاصلے پر موجود گرد و غبار مل کر سیارے نہیں بنا پایا لہذا یہ آوارہ برفیلے پتھر اُس وقت سے سورج کے گرد خول کی صورت میں موجود ہے، اور ہوسکتا ہے کہ زمین پہ زندگی کی شروعات انہی برفیلے پتھروں سے ہوئی ہو، کیونکہ نظام شمسی کے وجود میں آنے کے بعد اُس کے نوزائیدہ سیاروں پہ کروڑوں سالوں تک برفیلے پتھروں کی بارش ہوتی رہی، انہی برفیلے پتھروں کے ذریعے زمین پہ وہ عناصر پہنچے جن سے زندگی نے پنپنا شروع کیا…
ہمارا سورج اپنے ایک مقررہ راستے پہ گامزن ہے، اِس دوران اورٹ کلاؤڈ سے کچھ شہابیے بسا اوقات نظام شمسی سے الگ ہوکر دوسرے ستاروں کا رُخ کرلیتے اور بعض اوقات دوسرے ستاروں سے آتے شہابیے اس میں شامل ہوجاتے ہیں… شہابیوں کا یہ آنا جانا لگا رہتا ہے، اکتوبر 2017ء میں اومواموا نامی ایک پُراسرار پتھر جوکہ 400 میٹر پر محیط تھا ستاروں کے جھرمٹ Lyraسے آیا اور سورج کا چکر لگا کرستاروں کے جھرمٹ Pegasus کی طرف روانہ ہوگیا، یہ پہلا واقعہ تھا جب سائنسدانوں نے کسی ایسے پتھر کو اتنے قریب سے دیکھا جو ہمارے نظامِ شمسی سے باہر سے آیا تھا… ایک ایسا ہی پتھر کچھ عرصہ پہلے سائنسدانوں کو دوبارہ دکھائی دیا ہے… یاد رہے اورٹ کلاؤڈ نامی اس برفیلی پٹی کو ابھی تک دیکھا نہیں جاسکا ، لیکن ایسی بہت سی نشانیاں اس کے ہونے کا ہمیں یقین دلاتی ہیں… یہ برفیلی پٹی ہم سے کتنی دور ہے اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ کہ ناسا نے 40 سال پہلے ایک خلائی گاڑی وائیجر ون نظامِ شمسی سے باہر کی جانب بھیجی ہیں جو اب تک تقریبا 22 ارب کلومیٹر کا سفر طے کرچکی ہے…. اِس خلائی گاڑی کو 17 کلومیٹر فی سیکنڈ سے سفر کرتے ہوئے 40 سال گزر چکے ہیں لیکن اِس کو بھی اورٹ کلاؤڈ میں داخل ہونے کے لئے ابھی مزید 300 سال درکار ہیں، اور داخلے کے بعد اس کو اورٹ بادل سے نکلنے میں 30 ہزار سال لگیں گے۔ کائنات بے انتہاء وسیع ہے… ہم کائنات کی کناروں کے متعلق اسی خاطر حتمی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی تو ہم اپنے سورج (نظام شمسی) کے کناروں کے متعلق مکمل نہیں جان پائے! شاید اسی خاطر مشہور حیاتی کیمیا دان، جے بی ایس ہیلڈین کو کہنا پڑا: ’’یہ کائنات صرف اتنی ہی پراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو۔‘‘
محمد شاہ زیب صدیقی
اورٹ کلاؤڈ اور کائنات کی دیگر پہیلیوں کے متعلق اُردو ڈاکومنٹری دیکھنے کے لیے:

نظام شمسی سے باہر نکلتی خلائی گاڑیوں کے متعلق جاننے کے لئے:

نظام شمسی کے باہر سے آئے دو پُراسرار پتھروں کے متعلق جاننے کےلئے:

#زیب_نامہ

#OortCloud #اورٹ_کلاؤڈ #اورٹ_بادل #اورت_بادل

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You