29۔ نقاب پوش مُجرم ستارےاپنے کرتُوت چھپانے کے لیے ان ستاروں نے مرنے
عجائباتِ_کائنات
29۔ نقاب پوش مُجرم ستارے (Masked criminal stars)
اپنے کرتُوت چھپانے کے لیے ان ستاروں نے مرنے کے بعد اپنے چہرے چھپا رکھے ہیں۔
شاید یہ ستارے کائنات میں اپنی کارستانیاں ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ یہ جُرم کرتے ہیں مگر چھپ چھپا کر۔ اسی لیے یہ اپنے ارد گرد اندھیرا کیے رکھتے ہیں۔ یہ پُراسرار ستارے اندھیرے میں کیوں ڈوبے ہوئے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے۔ تاہم اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ان کا اندھیرے میں ڈوبنا کن عوامل کو چھپائے ہوئے ہے؟
سب سے پہلے تو میرا اس بات پر معافی مانگنا بنتا ہے کہ ساری دُنیا جن مُردہ ستاروں کو بلیک ہولز (Black holes) کے نام سے پکارتی ہے میں نے ان کا نام ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ کہاں بلیک ہول اور کہاں نقاب پوش مُجرم ستارے۔ بلیک ہول یعنی نقاب پوش مُجرم ستاروں کے متعلق لوگوں کے ذہن میں بنا ہوا غلط تصوّر ختم کرنے کے لیے ان کا نام بگاڑنے والی گستاخی کرنا فرض تھا۔ وہ غلط تصوّر یہ ہے کہ ان کا نام سیاہ سوراخ (black hole) ضرور ہے لیکن نہ ہی یہ مُردہ ستارے خود کوئی سوراخ ہیں اور نہ ہی ان کے وجود میں کوئی سوراخ ہے۔ انہیں بلیک ہول صرف اس لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں ہمیں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام بلیک ہول کیسے بنتا ہے؟ سورج سے تین گنا بڑا یا اس سے بھی زیادہ بڑا ستارہ فیوژن کا عمل رک جانے کے بعد جب اپنے نیوکلیائی چولہے کو مزید ایندھن فراہم نہیں کر سکتا تو پھر یہ عظیم الجثہ ستارہ کششِ ثقل اور توانائی کا توازن بگڑ جانے کے سبب انتہائی طاقتور سُپرنووا دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے۔ اس ستارے کا باہری خول خلا میں بکھر جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود مادّے کی مقدار عام ستارے کی نسبت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ یہ سفید بونا ستارہ (white dwarf star) بننے پر اکتفا کرتا ہے اور نہ ہی اسے نیوٹران ستارہ (neutron star) بننا پسند ہے۔
جس کے پاس طاقت اور اثر و رسوخ ہو اس کی باتیں اور حرکتیں عام طور پہ سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہی حال کمیّت (mass) سے مالا مال ستارے کا ہوتا ہے۔ اتنا بڑا ستارہ اپنی بہت زیادہ کمیّت کے بَل بوتے پر مرنے کے بعد ایسی انوکھی چیز بنتا ہے کہ جو سمجھ سے بالاتر ہو۔ اور تو اور! ان مردہ ستاروں کی حرکتیں تو سائنس کی سمجھ سے بھی باہر ہیں۔ اسی لیے انہیں "سنگولیرٹی” (singularity) بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی جہاں ہمارے بنائے ہوئے فارمولے اور سائنسی قوانین کام نہیں کرتے۔ سورج سے کئی گنا بھاری بھرکم کمیت سے مالا مال ستارہ اپنی زندگی کے پہلے مرحلے کے اختتام پر ایک بلیک ہول بنتا ہے۔
سپرنووا دھماکے کے بعد ان کی شدید کششِ ثقل ان کی کمیت کو سکیڑتے سکیڑتے انتہائی چھوٹے رِداس (radius) پر اکٹھا کر دیتی ہے۔ یہ رِداس کتنا چھوٹا ہو سکتا ہے؟ اسے کچھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ سورج کا رِداس تقریباً سات لاکھ کلومیٹر ہے۔ لیکن کمیت میں سورج سے تین گنا بڑا کوئی ستارہ جب بلیک ہول بنتا ہے تو اس کا رِداس (radius) کمیت کی زیادتی کی وجہ سے کششِ ثقل کے انتہائی طاقتور ہونے کے سبب سکڑ کر فقط چند کلومیٹر میں ہی سما جاتا ہے۔ ایک بڑے ستارے کا دس لاکھ زمینوں کے برابر مادّہ (matter) جب ایک شہر کے برابر حجم میں سما جائے تو اسے ہم (اسٹیلر) بلیک ہول کہتے ہیں (لیکن یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بلیک ہول کی کچھ دوسری اقسام بھی ہیں)
1۔ اسٹیلر بلیک ہول stellar black hole
یہ بلیک ہول سورج سے نسبتاً بڑے ستاروں کے اختتام پر وجود میں آتے ہیں۔ انہیں چھوٹے بلیک ہولز بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا حجم ایک حد تک چھوٹا/ بڑا ہو سکتا ہے۔
2۔ انٹرمیڈیٹ بلیک ہولز intermediate black holes
یہ درمیانے درجے کے بلیک ہولز ہیں۔ یہ کیسے وجود میں آتے ہیں؟ ان کے متعلق خیال ہے کہ یہ ایک سے زائد ستاروں کی باقیات یا پھر اسٹیلر بلیک ہولز کے ملاپ سے وجود پاتے ہیں۔ یہ بھی اندازہ ہے کہ اسٹیلر بلیک ہولز اپنے آس پاس موجود فلکیاتی اجسام کی کمیت اپنی کمیت میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ یوں ان کی کمیت بڑھ جانے کی وجہ سے ہم ان کا شمار اسٹیلر بلیک ہولز کی بجائے انٹرمیڈیٹ بلیک ہولز میں کرتے ہیں۔ ان کی کمیت اور حجم اسٹیلر بلیک ہول سے کئی گنا زیادہ اور بڑا ہوتا ہے۔
3۔ سُپرمَیسو بلیک ہولز supermassive holes
سپرمَیسو بلیک ہولز اسٹیلر اور انٹرمیڈیٹ بلیک ہولز سے ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں یا اربوں گنا تک بڑے اور کمیت میں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں سُپرمَیسِو بلیک ہول پایا جاتا ہے۔ ہماری کہکشاں ملکی وے میں موجود سُپرمیسو بلیک ہول ہمارے سورج سے تقریباً چالیس لاکھ گنا بڑا ہے۔ سُپرمَیسِو بلیک ہولز کیسے وجود میں آئے؟ اس متعلق ہم یقینی طور پہ کچھ نہیں جانتے تاہم ایک مفروضہ ہے کہ بگ بینگ کے وقت کچھ جگہوں پر مادّہ دب کر بہت زیادہ سکڑ گیا تھا جس سے یہ سپرمیسو بلیک ہولز بنے تھے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ بلیک ہولز اپنے آس پاس موجود اجسام کی کمیت کو اپنی طرف کھینچ کھینچ کر اپنا وجود بڑھاتے رہتے ہیں۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ یہ سُپرمَیسِو بلیک ہولز کا رُوپ دھار لیتے ہیں۔ کائنات کی سب سے روشن چیز قوازار Quasar کو توانائی یہی سُپرمَیسِو بلیک ہولز مہیا کرتے ہیں۔
4۔ کوانٹم مکینیکل بلیک ہولز quantum mechanical black holes
بلیک ہولز کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، جنہیں miniature black holes یا کوانٹم مکینیکل بلیک ہولز بھی کہا جاتا ہے۔ بہت آسان نام لینا ہو تو آپ انہیں mini black holes بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا حجم ان کے نام کے مطابق انتہائی چھوٹا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بلیک ہولز کی ان کرتُوتوں اور کارستانیوں پر بات کر لی جائے جن کی وجہ سے ناچیز نے ان مُردہ ستاروں (بلیک ہولز) کو نقاب پوش مُجرم ستارے بولا ہے۔
بلیک ہولز کا شمار اُن "کائناتی چور قسم کے اجسام” میں ہوتا ہے جو موقع ملتے ہی اپنے پاس موجود دوسرے فلکیاتی اجسام کا مال (گیسیں وغیرہ) ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سیگنس ایکس ون Cygnus X-1 نامی ستارہ بلیک ہول کی اس لُوٹ مار کا زندہ ثبوت ہے۔ دو ستاروں پر مشتمل یہ ستاروی نظام ہم سے کم و بیش چھ ہزار نوری سال دور ہے۔ دو ستاروں کی اس جوڑی میں سے ایک ستارے کو ہم دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے ستارے کو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ دوسرے ستارے کو ہم کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ کیوں کہ دوسرا ستارہ بلیک ہول بن چکا ہے۔ یعنی ان میں سے ایک ستارہ زندہ ہے اور دوسرا ستارہ مر کر بلیک ہول بن چکا ہے۔
جو ستارہ مر کر بلیک ہول بن چکا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آیا لیکن ہم اس کی موجودگی سے ہزاروں نوری سال کی دوری ہونے کے باوجود بھی آگاہ ہیں، کیسے؟ (یہ ایک اچھا سوال ہے) اس سوال کا جواب سادہ نہیں بلکہ اس کا جواب بلیک ہول کے متعلق بنیادی معلومات لیے ہوئے ہے۔
• بلیک ہول کی کشش ثقل عام ستاروں/دوسرے عام فلکیاتی اجسام سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس میں ہمارے لیے اچھی بات یہ ہے کہ بلیک ہول کی کششِ ثقل کی شدت والا علاقہ زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔ بلیک ہول کی کششِ ثقل بلیک ہول کے مرکز سے لے کر ایک خاص دائرے تک بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس دائرے کو ایونٹ ہورائیزن event horizon یا اردو میں "واقعاتی اُفق” کہا جاتا ہے۔ واقعاتی اُفق سے باہر بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہم بلیک ہول کے ارد گرد کسی بھی چیز کو ایونٹ ہورائیزن سے باہر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس چیز کو ایونٹ ہورائیزن کے اس پار داخل ہو جانے کے بعد نہیں دیکھ سکتے۔ ایونٹ ہورائیزن کو پار کر لینے والی کسی بھی چیز کی وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ بلیک ہول کی شدید ترین کششِ ثقل نے اس جگہ "سپیس-ٹائم فیبرک” میں اس قدر خَم ڈال رکھا ہوتا ہے کہ ایونٹ ہورائیزن (بلیک ہول کی کششِ ثقل کی شدت والے علاقے کی سرحد) کو پار کر لینے والی ہر چیز کا مستقبل بلیک ہول کے مرکز کی طرف ہوتا ہے۔ اس سرحد میں داخل ہو جانے والی کسی بھی چیز کا واپس پلٹنا اس لیے ممکن نہیں کہ کائنات میں کوئی بھی چیز اپنے مستقبل کو چَکما دے کر کسی اور طرف نہیں نکل سکتی۔ نہ ہی کسی بھی چیز کے لیے وقت کا رک جانا ممکن ہے۔ اسی لیے ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایونٹ ہورائیزن میں داخل ہونے سے پہلے پہلے کوئی بھی چیز خود کو تگ و دو کر کے بچا سکتی ہے۔ لیکن ایونٹ ہورائیزن (واقعاتی اُفق) کی سرحد کو عبور کر لینے والی چیز کا واپس پلٹنا ناممکن ہے۔ یہ سارا کھیل سپیس-ٹائم میں ائے ہوئے خَم کی وجہ سے جاری ہے اور خَم کا سبب کششِ ثقل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
—————————————————–
گریوٹی یا کششِ ثقل کیا ہے؟ کائنات میں ثابت شدہ چار جَہتیں (ڈائمنشنز) ہیں۔ "1 آگے پیچھے، 2 دائیں بائیں اور 3 اوپر نیچے” یہ تین جَہتیں ہیں۔ چوتھی جَہت وقت (time) ہے۔ کائنات خلا (space) اور وقت (time) پر مبنی ایک بِچھی ہوئی لچکدار فلیٹ چادر (fabric) کی مانند ہے۔ جسے "سپیس-ٹائم فیبرک یا Spacetime” جیسے آسان لفظ سے واضح کیا جاتا ہے۔ سپیس اور ٹائم کے اشتراک سے بنے اس فیبرک میں جگہ جگہ کمیت کے حامل اجسام (کہکشائیں، بلیک ہولز، ستارے، سیارے اور سحابیے وغیرہ) موجود ہیں۔ خلا میں جہاں کہیں بھی کمیت (mass) کا حامل کوئی بھی مادّی جسم موجود ہو گا وہاں خلا اور وقت کے اس لچکدار کپڑے میں خَم (curve) آ جائے گا۔ مادی اجسام سے سپیس-ٹائم فیبرک میں پڑا یہ جو خَم ہے، اسی کو ہم گریوٹی یا کششِ ثقل کہتے ہیں۔
کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی مادی جسم (سیارہ، ستارہ یا بلیک ہول وغیرہ) ہو گا وہاں خلا اور وقت میں ایک گڑھا یا خَم نمُودار ہو جائے گا۔ وہ مادی جسم اس خَم زدہ جگہ میں دھنسے گا۔ اس مادی جسم کی کمیت جس قدر زیادہ ہو گی، وہ خَم زدہ خلائی جگہ اسی قدر زیادہ خَم دار ہو گی۔ اب یہ مادی جسم اپنے حجم اور وجود کو اس خَم زدہ جگہ کے مطابق ڈھالنے کے لیے گول ہو جائے گا۔ اگر مادی جسم بہت زیادہ کمیت رکھتا ہے تو اس سے سپیس-ٹائم فیبرک زیادہ خَم ہو جانے کی وجہ سے یہ مادی جسم گول ہونے کے ساتھ ساتھ کثیف سے کثیف تر بھی ہوتا چلا جائے گا (جیسا کہ بلیک ہول) اس مادّی جسم نے سپیس-ٹائم فیبرک میں جو گڑھا یا خَم (curve) پیدا کیا ہے، اس خَم کی وجہ سے اس کے آس پاس موجود دوسرے چھوٹے فلکیاتی اجسام اس خَم زدہ جگہ کا چکر لگانے لگ جائیں گے (بچپن میں بَنٹّے کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ جب بنٹے کو مٹی میں بنائے گئے خاص گڑھے میں ڈالنے کے لیے دھکیلا جاتا تھا تو کبھی کبھار وہ بَنٹّا پہلے اس خَم زدہ گڑھے کے دو چار چکر بھی لگا لیا کرتا تھا۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت سپیس-ٹائم میں آئے خَم کی بھی ہے۔ سیارے اور چاند وغیرہ اسی طرح ستاروں کے ڈالے گئے خَم میں چکر لگا رہے ہیں)
مثلًا سپیس-ٹائم فیبرک میں جس جگہ سورج موجود ہے وہاں سورج کی کمیت کے لحاظ سے نظام شمسی کا سب سے بڑا خَم زدہ خلائی حصہ موجود ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ سورج کی کمیت پورے نظام شمسی میں سب سے زیادہ ہے۔ سورج کی کمیت نے سپیس-ٹائم فیبرک میں جو خَم ڈالا ہے اس خَم کا اثر نظام شمسی کی آخری حدود تک موجود ہے۔ اسی لیے تمام سیارے اور دوسرے فلکیاتی اجسام سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جہاں جہاں سیارے موجود ہیں وہاں وہاں سورج کی نسبت سپیس-ٹائم فیبرک میں چھوٹی خَم زدہ جگہیں موجود ہیں۔ کیوں کہ سیاروں کی کمیت سورج کے مقابلے انتہائی کم ہے۔ سیاروں کے ان خَم زدہ علاقوں کی وجہ سے سیاروں کے گرد ان کے چاند چکر لگا رہے ہیں۔ سورج کے گرد گھوم رہے سیارے یا سیاروں کے گرد گھوم رہے ان کے چاند، گھومتے گھومتے ان خَم زدہ گڑھوں میں (بَنٹّے کی طرح) گِر کیوں نہیں جاتے؟ اس کی وجہ ان تمام اجسام کی مستقل بنیادوں پر جاری مداروی رفتار (orbital speed) ہے۔
مختصرًا یہ کہ کمیت کی مقدار میں کمی یا بیشی سپیس-ٹائم فیبرک میں آئے اس خَم کی زیادتی/کمی کا باعث ہو گی۔ مثلاََ کسی چھوٹے ستارے کے آس پاس کا علاقہ کم خَم زدہ ہو گا بنسبت کسی بلیک ہول کے آس پاس والے علاقے کے، کیوں کہ بلیک ہول میں کمیت کی مقدار عام ستارے کی کمیت کی مقدار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ مادی اجسام کی وجہ سے کائناتی چادر میں جو خَم پڑتا ہے اسی خَم کو کششِ ثقل کہا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
—————————————————–
(اب ہم کششِ ثقل کی وضاحت کے بعد دوبارہ اپنے موضوع پر توجہ دھرتے ہیں)
جہاں بلیک ہول موجود ہو گا وہاں سپیس-ٹائم فیبرک میں اس قدر زیادہ خَم ہو گا کہ بلیک ہول کے قریب (ایونٹ ہورائیزن کے اندر) آ جانے والی ہر چیز کے لیے یہ لازم ہو گا وہ صرف اور صرف بلیک ہول کے مرکز کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔ ایونٹ ہورائیزن کی حدود میں داخل ہو جانے والی چیز کا کسی دوسری سمت میں سفر کرنا یا وہاں سے فرار ہونا کائناتی اصولوں کے مطابق ممکن نہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
• اب آپ کے ذہن میں بلیک ہول کی کچھ اس طرح کی شبیہ بن گئی ہو گی کہ بلیک ہول ایک بہت ہی چھوٹے حجم کا نہایت کثیف اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا مردہ ستارہ ہے۔ جس کے ارد گرد ایک ایسا خَم زدہ علاقہ (ایونٹ ہورائیزن یا واقعاتی اُفق) موجود ہے کہ جس کے خَم میں خلا اور وقت (space and time) کا دھارا گِرتا جا رہا ہے۔ اب اس میں مزید ایک چیز کا اضافہ کر لیجیے۔ اگر ہم بلیک ہول کی طرف جائیں تو ایونٹ ہورائیزن سے پہلے ایک اور علاقے سے ہمارا سامنا ہو گا۔ بلیک ہول کی سلطنت میں موجود اس علاقے کو فوٹان سفئیر (photon sphere) کہتے ہیں۔
اگر آپ بلیک ہول کے قریب محفوظ رہتے ہوئے گول گول گھومنا چاہتے ہیں تو آپ کو فوٹان سفئیر والے علاقے میں اپنے مدار پر کائنات کی حد (تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی) رفتار سے بھاگنا ہو گا (مگر افسوس! آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ آپ massless نہیں ہیں۔ فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ کمیت کا حامل کوئی بھی جسم کائنات کی حد رفتار "یعنی سپیڈ آف لائٹ” سے سفر نہیں کر سکتا) فوٹان سفئیر کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں تک بلیک ہول کا ڈالا گیا خَم اتنا زیادہ نہیں ہوتا ہے کہ جو روشنی کے مستقبل کا فیصلہ کر سکے۔ اس لیے فوٹان سفئیر والے علاقے میں روشنی ایک مدار کے اندر بلیک ہول کے گرد چکر لگا سکتی ہے اور ہم روشنی کو فوٹان سفئیر پر چکر لگاتے دیکھ بھی سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہمیں واپس سِیگنَس ایکس ون ستارے کی گفتگو کو جاری کرنا ہے۔ تحریر کے وسط میں ہم نے سِیگنَس ایکس ون Cygnus X-1 ستارے کی بات کی تھی۔ ان میں سے ایک ستارہ ہم دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسرے ستارے کو ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ دوسرا ستارہ بلیک ہول ہے۔ اس کی وجہ ہمارا مشاہدہ ہے۔ بلیک ہول کے پاس موجود اس ستارے کی گیسیں اوپر اٹھتی ہیں اور بلیک ہول کی طرف بڑھتی ہیں۔ جیسے جیسے ان کا فاصلہ بلیک ہول سے کم ہوتا چلا جاتا ہے تو ان گیسوں کے بلیک ہول کی طرف اٹھتے ہوئے قدم بھی تیز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ گیسیں اور ستارے کا مادہ بلیک ہول میں مرغولہ نما شکل اختیار کر کے ایونٹ ہورائیزن میں گرنے لگتے ہیں۔ ایونٹ ہورائیزن میں گرتے وقت شدید ترین توانائی کی وجہ سے ان سے ایکسریز خارج ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس کوئی بھی فوٹان جب بلیک ہول کے نزدیک پہنچتا ہے تو وہ ایونٹ ہورائیزن (واقعاتی افق) کے گرد مدار پر کائنات کی حد (روشنی کی رفتار) سے چکر لگانے لگ جاتا ہے۔ جب ہم کسی بھی بلیک ہول کو دیکھنے کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم بلیک ہول کے گرد فوٹان سفئیر کو دیکھنے کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
بلیک ہول کے آس پاس فوٹان سفئیر تک ہم روشنی یا روشن اجسام کو دیکھ سکتے ہیں۔ فوٹان سفئیر سے آگے "سپیس-ٹائم فیبرک” میں اس قدر زیادہ خَم (curve) ہوتا ہے کہ وقت کا بہاؤ بلیک ہول کے مرکز کی طرف بہنے لگتا ہے۔ جیسے ہی روشنی فوٹان سفئیر سے آگے بڑھتی ہے تو اس کا ماضی فوٹان سفئیر سے باہر اور مستقبل فوٹان سفئیر کے اندر بلیک ہول کے مرکز کی طرف ہوتا ہے۔ لہذا فوٹان سفئیر سے آگے بڑھ کر ایونٹ ہورائیزن (واقعاتی اُفق) میں قدم رکھتے ہی روشنی بھی ہمیشہ کے لیے اس کائنات کو خیر آباد کہہ کر بلیک ہول نامی نامعلوم دنیا کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر آپ نے بلیک ہول کی لی گئی تصویر دیکھی ہے تو اس میں آپ روشنی کا ایک گول حلقہ دیکھ چکے ہوں گے۔ روشنی کا وہ گول حلقہ یا رِنگ دراصل بلیک ہول کے گرد فوٹان سفئیر کا علاقہ ہے۔
فوٹان سفئیر سے آگے جیسے ہی اندھیرا شروع ہوتا ہے تو اسے ہم ایونٹ ہورائیزن یعنی واقعاتی اُفق کہتے ہیں۔ ہماری سائنس، ریاضی اور فزکس کی جاننے کی حد (boundary) فوٹان سفئیر تک ہے۔ اس سے آگے بلیک ہول کا کُرہ یا فضا کیسی ہے؟ وہاں وقت کا برتاؤ کیسا ہے؟ بلیک ہول میں مادّہ (matter) کے خواص کیا ہیں؟ وہاں ایٹموں (atoms) کے ساتھ کیا بنتا ہے؟ ہم اس متعلق فی الحال نہیں جانتے۔ "ہم اس متعلق نہیں جانتے، اسی لیے ہم نے بلیک ہول کو سِنگولیرٹی singularity کا نام دے رکھا ہے” یعنی ایسی کیفیت کہ جسے ہماری ریاضی کے فارمولوں کی مدد سے بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری پوری کی پوری سائنسی عمارت ریاضی کے تعمیر کردہ ستونوں پر کھڑی ہے۔ اسی لیے سائنس ہمیں بلیک ہول کے متعلق صرف فوٹان سفئیر تک کی معلومات دیتی ہے۔ فوٹان سفئیر سے آگے کے جو بھی حال و احوال بیان کیے جاتے ہیں، وہ ابھی تک فقط مفروضوں پر مبنی خیالات و تصوّرات ہی ہیں۔
بہرحال اتنا تو ہم جان چکے ہیں کہ بلیک ہول نامی چھپے ہوئے مجرم ستارے دوسرے فلکیاتی اجسام کا مال ہڑپ کرنے والے فلکیاتی چور ہی نہیں ہیں بلکہ یہ مجرم ستارے اربوں سالوں سے اپنی زبردست کمیت کی مدد سے سپیس اور ٹائم میں چھید کر کے کائنات کی کچھ مہان چیزوں (وقت، خلا اور روشنی وغیرہ) کو اغوا کر لینے والا جُرم بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم ایونٹ ہورائیزن event horizon سے لے کر بلیک ہول کے مرکز تک کے حالات سے فی الحال ایسے ہی بے خبر ہیں جیسا کہ ہم بگ بینگ سے پہلے کے حالات سے لا علم ہیں۔ بگ بینگ سے پہلے وقت کا جنم نہیں ہوا تھا اور فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ بلیک ہول کے آس پاس سپیس-ٹائم فیبرک میں پیدا ہوئے خَم (یعنی curve میں ہوئی زیادتی) کے سبب بلیک ہول میں وقت رک جاتا ہے۔ اور ہماری یہ مجبوری ہے کہ ہم وقت کی ڈومین میں رہتے ہوئے ہی کچھ جان سکتے ہیں۔ وقت سے پہلے کیا تھا اور وقت رک جانے پر کیا ہوتا ہے؟ ہم نہیں جانتے!
(جاری ہے)
تحریر : محمد یاسر لاہوری