بھارتی ریاست بیہار میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جہاں بڑی جماعتوں کے علاوہ لیفٹ کی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا اور اپنی گزشتہ کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے 16 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
انتخابات تو بی جے پی اور اسکا الائنس جیت چکا مگر حیران کن طور پر کانگریس کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑٓا۔ کل 112 سیٹوں میں سے کانگریس صرف 19 سیٹیں حاصل کر پائی۔ تاہم یہ انتخابات بائیں بازو کی مارکسسٹ پارٹیوں کیلئے بہتر ثابت ہوئے جہاں بائیں بازو کے کل 29امیدواروں میں سے 16 فتح یاب ہوئے۔ ۔
کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا، کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ، اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لبریشن نے اتحاد بنا کر 29 سیٹوں پر انتخابات لڑا جس میں سے وہ 16 سیٹین جیتے یوں انکی فتح کی شرح 55 فیصد رہی۔
کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ لبریشن نے 19 میں سے 12 سیٹوں پر فتح حاصل کی جس سے اسکی فتح کی شرح 63 فیصد رہی۔ اس کے مقابلے میں کانگریس نے 70 نشتوں پر انتخاب لڑا جس میں سے اسے صرف 19 سیٹوں پر فتح یابی نصیب ہوئی لہذا کانگریس کی شرح کم ہوتی ہوئی 27 فیصد رہ گئی۔
گزشتہ 2015 میں ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کی تمام جماعتیں مل کر صرف 3 سیٹیں ہی جیت سکی تھں لہذا کہا جاسکتا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتوں نے جہاں جہاں کام کیا وہاں انکا کام نظر آیا اور انہوں نے بہتر شرح کے ساتھ کامیابی سمیٹی۔
بیہار انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد سے جیتنے والوں میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ لیڈر ’سندیپ سورو‘ بھی شامل ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے دوسرے جیتنے والے نوجوان ’مونوج منزل‘ ہیں ان کے والد بھٹہ مزدور ہیں۔ مانوج منزل نے انتہائی سخت مقابلے میں 50000 ووٹ لیکر حزب اختلاف کو شکست دی۔ اسی طرح ایک مسلمان امیدوار ’محبوب عالم‘ بھی دوسری دفعہ کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
سندیپ سور نے پٹنہ کے قریب پیلی گنج کے علاقہ سےپہلی بار انتخاب لڑا اور جیتا۔ اس نوجوان کے ووٹوں کی تعداد دیگر مخالفین اور گزشتہ جیتنے والے امیدوار سے دوگناہ ہیں۔
سندیپ سوروو نے جیتنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ میں نے اپنی طلبہ سیاست سے سیاست شروع کی ، اور اب بھی طلبہ سیاست کا حصہ ہوں۔ شاید تعلیم سے متعلق میرے وژن کو سمجھ چکے ہیں۔’
سندیپ نے بیڈیا کو بتایا کہ ‘ہم صبح چھے بجے شروع ہوتے تھے اور گاوں کی چھوٹی چھوٹی میٹنگز کرتے تھے۔ پیلی گنج کا ایک بھی گاوں نہیں جو ہم نے چھوڑا ہو۔ ہم نے مختلف زون بنائے اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پی آئی کو پچھلی دفعہ صرف تین سیٹیں ملی تھیں اس دفعہ بھی سیٹیں کم ہیں مگر بیہار میں ہمیں بہت سپورٹ ملتی ہے۔ ’
بائیں بازو کی اس انتخابی جیت میں ایک اہم جیت ایک عام سیاسی کارکن مانوج منزل ہیں۔ جن کے والد اینٹوں کے بھٹہ پر کام کرتے ہیں۔ اب وہ بیہار کے ضلع اگیان سے ایم ایل اے منتخب ہو چکے ہیں۔
ایک گھریلو خاتون ووٹر منیا دیوی سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے بائیں بازو کو کیوں ووٹ دیا تو اس نے جواب دیا کہ
‘ہمارے بینک کھاتوں میں 400 – 500 روپے ہے۔ اور کچھ نہیں. لہذا ہم نے اپنا ووٹ ایک نئے شخص کو دیا ہے اور اب ہم امید کر رہے ہیں کہ وہ وہی کرے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ “مجھے امید ہے کہ وہ روزگار میں ہماری مدد کرے گا ’
مکال کمار ، جو 21 سالہ فرسٹ ٹائم ووٹر ہے نے اس کی ایک زیادہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہے۔
“جئے وردھن یادو (موجودہ ایم ایل اے) کا پانچ سال سے میں نے کبھی چہرہ نہیں دیکھا۔ وہ پانچ سالوں میں کبھی بھی یہاں نہیں آئے۔ یہ نیا ایم ایل اے ہے ہم نے اس کو ووٹ دیا اور وہ جیت گیا ، “انہوں نے روزگار کے بارے میں مہم میں بھی بات کی۔ (وزیر اعظم نریندر) مودی اور یوگی (آدتیہ ناتھ) بھی یہاں آئے تھے۔ مگر وہ چین اور رام مندر کے بارے میں بات کرتے رہے۔”