کن سائنسدانوں نے کس طرح کی خدمات کے ذریعے کائنات کے وجود کے بارے میں کیا شواہد پیش کئے
اس تحریر کی مکمل اقساط پڑھنے کے بعد آپ ہماری کائنات کیسے بنی. کن سائنسدانوں نے کس طرح کی خدمات کے ذریعے کائنات کے وجود کے بارے میں کیا شواہد پیش کئے اور سب سے اہم سوال جس کا جواب آپ کو تمام تر شواہد کے ساتھ ملیگا وہ یہ کے کیا عدم سے وجود ممکن ہے؟؟؟
ارسطو زمین کو فلیٹ نہیں سمجھتا تھا بلکہ گول قرار دیتا تھا اور اپنے اس دعوے کے حق میں وہ چاند گرہن کی مثال پیش کیا کرتا کے جب چاند اور سورج کی گردش کے دوران زمین عین ان دونوں کے درمیان آ جاتی ہے تو زمین کا سایہ چاند پر پڑھتا ہے اور یہ سایہ ہمیشہ گولائی میں ہوتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کے زمین گول ہے۔ اتنے معقول دلائل کے باوجود بھی وہ زمین کو ساکن اور پوری کائنات کا مرکز سمجھتا تھا کہ چاند، سورج اور ستارے زمین کا طواف کرتے ہیں۔ دوسری صدی عیسوی میں انہیں دلائل کی بنیاد پر ٹالمئے نے پہلا مکمل کائناتی ماڈل تیار کیا جس میں زمین کو مرکز بنا کر اس کے گرد چاند، سورج ستاروں کے ساتھ ساتھ مرکری، وینس، مارز، جوپیٹر اور سیٹرن کو بھی محو گردش دکھایا گیا۔ سولہویں صدی کے آغاز تک یونانی فلسفے کے زیر اثر لوگوں اور عیسائیت کے زیر نگین علاقوں میں اسی ماڈل کو سٹینڈرڈ کائناتی ماڈل تسلیم کیا جاتا رہا۔
1515 میں ایک اور ماڈل سامنے آیا جس میں زمین کے بجائے سورج کو مرکز قرار دیا گیا تھا اور زمین سمیت دیگر تمام اجسام کو سورج کے گرد گول دائروں میں حرکت کرتے ہوئے بتایا گیا اس وقت اس ماڈل کے پیشکار کا علم نہ ہو سکا۔ بعد ازاں پتہ چلا کے یہ ماڈل پولینڈ کے ایک پادری نکولس کوپرنیکس نے تجویز کیا تھا لیکن چرچ کے خوف کی وجہ سے اسے گمنام حثیت سے متعارف کیا گیا۔ لوگ کہتے ہیں کے اس ماڈل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کے اس میں پہلی بار سورج کو مرکز کے طور پر پیش کیا گیا۔ میں کہتا ہوں کے اس ماڈل کا کمال یہ ہے کے اسے کسی پادری نے پیش کیا کیونکہ اس طبقہ میں معقولیت کے فقدان کی وجہ سے اس قسم کے کسی معجزے کی توقع کم ہوتی ہے۔
سترہویں صدی کے شروع میں اس ماڈل کو اس وقت قبولیت عام نصیب ہوئی جب جرمنی کے جوہانس کپلر اور اٹلی کے گلیلیو گیلیلائی اس ماڈل کی کھلے عام حمایت اور اس پر مزید تحقیق کا اعلان کیا۔ دوربین ان دنوں نئی نئی ایجاد ہوئی تھی گلیلیو نے جونہی اپنی دوربین ستاروں کی طرف موڑی۔ چرچ نے اپنی خوردبین گلیلیو کی جانب موڑ دی۔ ستاروں پہ کمند ڈالنی والی اتنی سی بات بھی نہیں جانتا تھا کہ دوربین تو اب ایجاد ہوئی ہے لیکن مزہب کے ٹھیکداروں نے اپنی خوردبین صدیوں پہلے دریافت کر لی تھی۔ زمین کے بجائے سورج کو مرکز قرار دینے کے کافرانہ عقائد پر 1616 میں گلیلیو کے خلاف فتوٰی صادر کر دیا گیا اور اپنے اس گناہ سے توبہ تائب ہونے پر مجبور کر دیا گیا کچھ عرصہ بعد نیا پوپ برسراقتدار آیا۔ جس کے ساتھ گلیلیو کی جان پہچان تھی۔ گلیلیو نے اسے قائل کر لیا اور اپنے کتاب کی اشاعت کی اجازت طلب کی۔ گلیلیو کو انتہائی کڑی شرائط اور سخت سنسر میں کتاب کی اشاعت کی منظوری تو مل گئی لیکن اس میں کوپرنیکس ماڈل کی کھلے عام ہمایت کی اجازت نہ تھی۔
1632 میں گلیلیو کی کتاب (Dialogue concering the two chief world system) چھپ کر منظر عام پر آگئی۔ کتاب کی مقبولیت نے ارسطو، ٹالمئے ماڈل کے تابوط میں آخری کیل ٹھوک دی۔ اس پر پوپ کو بھی کتاب کی اشاعت کی اجازت دینے پر بڑا پچھتانہ پڑا۔ گلیلیو کو دی گئی رعایت واپس لے لی گئی اور اسے ایک بار پھر عدالت کے آگے ڈال دیا گیا جس نے گلیلیو کو عمر بھر کے لیے نظر بندی کی سزا سنادی۔ گلیلیو اسی نظر بندی میں 1642 چل بسا لیکن مرنے سے قبل اس کی دوسری کتاب (Two new sciences) سمگل ہوکر ہائیلنڈ پہنچ چکی تھی۔ ادھر جرمنی میں جوہانس کیپلر نے کوپرنیکس ماڈل مزید بہتر بناتے ہوئے بتایا کے مدار میں اجسام کی حرکت گول نہیں بلکہ بیضوی ہے دوئروں میں (Ellipses) ہوتی ہے.
1976 ڈینشن ماہر فلکیات (Ole christensen roemer) نے جوپیٹر کے چاندوں کے حوالے سے روشنی کی رفتار معلوم کی۔ چونکہ وہ زمین سے جوپیٹر کے فاصلے کی پیمائش میں غلطی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ اسی لیے روشنی کی رفتار کا بھی درست اندازہ نہ لگا سکا۔ رومرنے روشنی کی رفتار (14,000) لاکھ میل فی سیکنڈ قرار دی۔ بعد ازاں روشنی کی رفتار (186,000) میل فی سیکنڈ ثابت ہوئی۔
1865 میں برطانوی ماہر ریاضی اور فزیسٹ جیمزکلرک میکسویل نے مائیکل فراڈے کے الیکٹرومیگنیٹک تجربات کی ریاضیاتی وضاحت کی تلاش میں فراڈے کے نظریات اور روشنی کی رفتار پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس سے قبل مائیکل فراڈے پندرہ سال تک سائنسدانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کے بجلی اصل میں الیکٹرومیگنیٹک ویو ہے لیکن کسی نے اس کا یقین نہ کیا۔ میکس ویل کے فارمولے میں یہ بھی کہا گیا کے کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار پر سفر نہیں کر سکتی یعنی ساکت روشنی کا حصول ممکن نہیں۔ بجلی اور مقناطیسیت ایک ہی چیز کے دو نام قرار پائے اور ان کا مشترکہ نام الیکٹرومیگناٹزم رکھا گیا اس وقت خلا میں روشنی کی سفر کی وضاحت کے لیے ایتھر کا تصور بھی متعارت کرایا گیا اور روشنی کی اس رفتار کو ایتھر کے حولے سے مستقل قرار دیا گیا۔
1688 میں نیوٹن میں اپنی کتاب (Philosophae naturalis principai mathematice) میں خلا میں بڑے اجسام کی گردش پر تفصیلی بحث کی اور پھر انہی بنیادوں پر قوانین حرکت تشکیل دیئے۔ نیوٹن نے بتایا ستاروں اور دیگر اجسام کی باہمی کشش ہی ان کی گردش کا باعث بنتی ہے۔ نیوٹونین فزکس میں ٹائم تو مطلق رہا البتہ اس کے قوانین حرکت نے (Absolute space) کا تصور پاش پاش ضرور کر دیا۔
1771 فرانس کے لوازیئے نے ماس کنز رویشن کا تصور پیش کیا اور بتایا کے کسی بھی تبادلے میں کوئی ماس ضائع نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اصل مقدار قائم رہتی ہے اس سلسلہ میں وہ مختلف تجربات بھی کرتا رہا۔ وہ خود سائنسدان نہیں تھا لیکن اسے سائنس سے گہرا لگاؤ تھا۔ گھر میں ہی اس نے چھوٹی سی لیب بنائی ہوئی تھی۔ شاہی خاندان سے تعلق کی وجہ سے 1790 میں انقلاب فرانس کی گردن کشی کا شکار ہو گیا۔
گزشتہ صدی کے ابتدائی دہائی تک وقت کو مطلق (Absolute) اور سپیس سے الگ سمجھا جاتا تھا۔ آئن سٹائن کی تھیوری نے ٹائم، سپیس، میٹر، انرجی اور خود کائنات کے بارے میں سارے مروجہ تصورات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ لیکچررشپ کے لیے بھی تعلیمی ادارے کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے آئن سٹائن کو مجبورا سوئس پیٹنٹ آفس میں کلرکی کرنا پڑی۔ اسے فزکس سے لگاؤ تھا اور روشنی شروع سے اس کا محبوب موضوع رہا تھا۔
1905 میں آئن سٹائن نے برلن سے شائع ہونے والے جریدے (Annalen der physik) میں اپنے چاروژنری آرٹیکلز چھپوائے۔ جن میں بتایا گیا کے روشنی پارٹیکلز کی طرح سفر کرتی ہے جسے فوٹون کہا جاتا ہے۔ ستاروں کا ماس ہی انرجی بنکر چمک اور ہم تک پہنچ رہا ہے۔ ایک دن دفتر سے گھر جاتے ہوئے بس میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ اگر یہ بس روشنی کی رفتا پر چلنے لگے تو کیا ہوگا؟ اچانک اس کی نظر ٹاور کلاک پر پڑی اور خیال آیا کے اس کی سوئیاں رک جائینگی۔ وقت تھم جائے گا۔ اسی لمحہ اس کی اہم ترین تھیوری مکمل ہو گئی۔ آئن سٹائن نے اپنے آرٹیکلز میں جو لکھا اسے اس وقت سائنس نہیں بلکہ سائنس فکشن جانا گیا۔
آئن سٹائن کو اپنے آرٹیکلز پر کوئی مثبت ومؤثر رسپانس نہ ملا۔ وہ انتہائی دل برداشتہ ہو گیا۔ میکس پلانک اس وقت جرمنی کا نامور سائنسدان تھا۔ اچانک اس کی نظر آئن سٹائن کے آرٹیکلز پر پڑی اور اس نے جوہر کی شناخت کر لی۔ میکس پلانک آئنسٹائن کو جرمنی لے گیا اور برلن یونیورسٹی میں پروفیسر لگا دیا۔ آئن سٹائن کے مطابق وقت یا سپیس نہیں بلکہ صرف روشنی کی رفتا مطلق و مستقل ہے۔ انرجی اور ماس ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور اس لیے اس نے (E=mc2) کا فارمولہ دیا کے جس میں (E) انرجی، (M) ماس اور (C) روشنی کی رفتا (Celeritas) ہے۔ تیز رفتاری پر چیزیں اس لیے بھاری ہونے لگتی ہے کہ ان کی انرجی ماس میں بدلنے لگتی ہے۔ مثلا روشنی کی رفتار کے دس فیصد اصول پر کسی بھی ابجیکٹ کے نارمل وزن میں (0.5) فیصد اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ روشنی کی رفتار سے (90) فیصد پہنچنے پر اس کا وزن نارمل سے دو گنا ہو جاتا ہے۔ روشنی کی رفتا تک پہنچتے پہنچتے اس کے وزن میں اچانک بے تہاشا اضافہ ہونے لگتا ہے۔
کوئی بھی آبجیکٹ روشنی کی رفتا تک نہیں پہنچ پاتا کیونکہ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے اس کا وزن لامتناہی (Infinite) ہو جائے گا کیونکہ (E=mc2) کے مطابق وہ اس مقام تک کے سفر میں لامتناہی انرجی لے چکا ہوگا۔ اس لیے کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار حاصل نہیں کر سکتی۔ گھڑی کی ٹک ٹک اصل میں بجلی کی کلک کلک ہے جو مقناطیسیت میں تبدیل ہو رہی ہے اور پھر بجلی بن رہی ہے۔
آئن سٹان 1905 کو معجزاتی سال قرار دیتا تھا۔ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی میں یہی واضح کیا گیا کے تمام متحرک اجسام اپنی رفتار سے قطع نظر روشنی کی ایک ہی مستقل رفتار کا مشاہدہ کریں گے۔ آئن سٹائن نے روشنی کے سفر کے لیے ایتھر کی ضرورت کو یکسر ہی ختم کر دیا۔ سپیس و ٹائم کو ایک ہی قرار دے دیا اور بتایا کہ ٹائم سپیس سے الگ نہیں بلکہ دونوں مل کر سپیس ٹائم بناتے ہیں اس تھیوری کا اطلاق صرف اس مخصوص حالت میں ہی ممکن تھا کہ جب کوئی آبجیکٹ ایک ہی سمت میں ایک ہی رفتا سے چل رہا ہو۔ اس لیے یہ سپیشن تھوری کہلائی۔ اس میں اجسام کی کشش یعنی گریویٹی کے اثرات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا تھا جو کے حقیقی حالات میں بہرحال اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ اجسام کی رفتار اس کی وجہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے آئن سٹائن ایک ایسی تھیوری آف گریویٹی پر کام کرنے لگا جو اس کی سپیشل تھیوری سے بطابقت کر سکے۔
1915 میں اس کی پیش کردہ تجاویز نے بعد ازاں جرنل تھیوری کا نام اختیار کیا جس کے مطابق گریویٹی دیگر فورسز سے مختلف اور سپیس ٹائم کے خم کا نتیجہ ہے۔ یہ گریوٹی نہیں بلکہ سپیس کا وزن ہے جو ہمیں زمین کی طرف دھکیلے رکھتا ہے، اسی طرح زمین سورج کے گرد سورج کی کشش کی وجہ سے نہیں بلکہ سپیس کے دباؤ کی وجہ سے گردش کرتی ہے۔ سپیس ٹائم کے اسی خم کی وجہ سے کوئی بھی چیز بالکل سیدھی سمت میں سفر نہیں کر سکتی حتٰی کہ روشنی کی بیم بھی خم کھا جاتی ہے۔ نیوٹن نے (Absolute space) اور آئن سٹائن نے (Absolute time) ٹائم کے تصورات ختم کرکے کائنات کو سمجھنے کے نئے پیمانے فراہم کر دیئے۔ سپیس ٹائم کے اچھوتے تصور نے تھری ڈائمنشل (3D) سپیس کے ساتھ ٹائم کو چوتھی ڈائمنشن قرار دیکر یونیورس کو بھی فورڈ ڈائمنشل بنا دیا۔
1923 میں ایڈون حبل نے اپنی طاقتور دوربین کے ذریعے کچھ ایسے مشاہدات کئے اور تصاویر بنائیں کہ جن سے یہ انکشاف ہوا کہ یونیورس صرف ہماری گلیکسی پر ہی مشتمل نہیں بالکہ گلیکسی سے دور اور بے شمار گلیکسیز بھی ہیں۔ واضح رہے کہ سادہ ترین الفاظ میں ستاروں کا ایک مخصوص جھڑمٹ ایک گلیکسی کہلاتا ہے کسی چھوٹی سی گلیکسی میں بھی لاکھوں کروڑوں ستارے ہوتے ہیں جبکہ ذرا بڑی گلیکسی میں ستاروں کی تعداد اربوں کھربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ رات کو آسمان پر ہمیں جتنے بھی ستارے نظر آتے ہیں وہ سب ہماری ہی گلیکسی کے ہیں جسے ہم نے ملکی وے کا نام دیا ہوا ہے۔ ہماری گلیکسی کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے یعنی ہماری گلیکسی کے ایک سرے کے کسی ستارے کی روشنی ایک لاکھ سال میں دوسرے سرے کے کسی ستارے تک پہنچ پاتی ہے۔ روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے۔ ہمارا سورج ہماری گلیکسی کے دوسو ارب ستاروں میں سے ایک معمولی سا ایک ستارہ ہے۔ ہمارے نظام شمسی سے قریب ترین ستارہ (Proxima centauri) ہے جو ہم سے چار نوری سال کے فاصلے پر ہے یعنی ہمارے قریبی ترین ستارے کی روشنی بھی ہم تک چار سالوں میں پہنچتی ہے۔ یہ ستارہ زمین سے 20 ملین ملین میل دور ہے۔
1929 میں ایڈٖون حبل نے ہی یہ انکشاف بھی کیا کہ یونیورس پھیل رہی ہے کیونکہ دیگر گلیکسیز ہم سے دور ہو رہی ہیں اور جو گلیکسی جتنی دور ہے اسکی مزید دوری کی رفتار بھی اتنی ہی زیادہ ہے۔ اس انکشاف کے اسی اندازے سے بگ بینگ کی تھیوری اخز کی گئی کہ ابتداء میں یونیورس لامتناہی چھوٹی (Infinitly small) اور لامتناہی کثیف (Infinitly dense) تھی۔ اس تھیوری کے لیے پھر ایک ٹائم لائن بھی بنائی گئی، جس کے مطابق 13.7 ارب سال قبل اچانک ایک دھماکے کے نتیجے میں مادے اور وقت نے جنم لیا۔
مادے کی ابتدائی حالت انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھی، جیسے جیسے نومولود یونیورس کا درجہ حرارت کم ہوتا گیا۔ ان ذرات کے باہمی ملاپ سے پروٹان اور نیوٹران بننے لگے۔ واضح رہے کہ پروٹان یونانی لفظ ہے اور اس کا مطلب ہی ”اول یا پہلا” ہے۔ ان پروٹانز اور نیوٹرانز سے ملکر پھر نیوکلیئس بن گیا، جس نے تقریبا تین لاکھ سال بعد اپنے گرد الیکٹرانز کو گھیرنا شروع کر دیا اور تقریبا تیرہ ارب سال قبل پہلا ایٹم معرض وجود میں آیا۔ بارہ ارب سال قبل گلیکسیز بننے لگیں، گیارہ ارب سال قبل ہماری گلیکسی بنی۔
سائنسدانوں کے مطابق ہماری یونیورس میں عام مادہ صرف چار فیصد ہے جبکہ باقی سب ڈارک مادے اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ انسان کو جس چیز کی سمجھ نہیں آتی اسے ڈارک قرار دے دیتا ہے۔ اس ڈارک مادے کا سائنسدانوں کو کوئی علم نہیں کہ وہ کن اجزاء سے ملکر بنا ہوا ہے، وہ اسے دیکھ نہیں سکتے البتہ اسکے گریویٹیشنل اثرات کی بدولت اس کی موجودگی کے قائل ضرور ہیں، دوسرے لفظوں میں ڈارک مادہ عدم میں موجود ہے لیکن وجود میں عدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری ساری سائنس اور خاص طور پر فزکس اور کمیسٹری صرف اس چار فیصد کی تحقیق اور وضاحت تک ہی محدود ہے اور ہمارے سارے سائنسی قوانین کا اطلاق بھی صرف اسی چار فیصد مادے پر ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارا نظام شمسی ساڑھے چار ارب سال پہلے بنا اور ساڑھے تین ارب سال قبل زمین پر یک خلیاتی زندگی نمودار ہوئی۔ زندگی ارتقاء اور نیچرل سلیکشن کے مراحل طے کر کے انسان تک آ پہنچی…..
تحریر مظہر بخاری.
جاری ہے.