کائنات میں حادثے ہوتے رہتے ہیں… اور یہی حادثے کائنات کی جان ہیں
#روس_کے_علاقے_سائبیریا_ٹنگوسکا_کا_واقعہ:-
کائنات میں حادثے ہوتے رہتے ہیں… اور یہی حادثے کائنات کی جان ہیں… اگر کچھ بھی تبدیلی نہ ہو سب ایک جیسا ہی رہے تو کائنات کے نظاروں میں وہ مزہ نہیں رہے گا…
ایک حادثہ زمین پر ہوا، زندگی معمول کےطابق چل رہی تھی، آج بھی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے… یہ دور جدید دور نہیں تھا،مگر دنیا سابقہ ادوار کی نسبت ٹیکنالوجی اور سائنس میں کافی آگے نکل چکی تھی… چرواہے اپنی مویشی چرانے نکل گئے… شکاری شکار پر نکل گئے… سب کچھ نارمل تھا، پھر اچانک آسمان پر ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آنے لگی… اس کی روشنی سورج سے بھی زیادہ تھی… اور رفتار بھی کافی زیادہ تھی…
انسان کا بنایا ہوا پہلا اٹامک دھماکہ ٹیسٹ نیو میکسیکو کے صحرا میں سن 1945 کو ہوا. مگر بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا کے اس اٹامک بم کے بننے سے پہلے بھی سائبیریا کے ٹنگوسکا ریجن میں 30 جون 1908 کو ایک اٹامک بم سے بھی بڑا دھماکہ ہو چکا تھا… مگر وہ ہے کیا اس بات نے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا تھا… یہ اتنا بڑا دھماکہ تھا کہ اس سے نیویارک جیسے دو بڑے امریکی شہروں کو پل بھر میں خاک میں ملایا جاسکتا تھا… وہاں کے رہائشیوں نے یہ سمجھا کہ شاید دنیا بنانے والے خدا نے اب اس دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے… اور یہ اسی کی طرف سے بھیجا گیا ہے… مگر حقیقت کچھ اور تھی…
30 جون کی اس صبح کو کچھ لوگ شکار پر نکلے تو انہوں نے آسمان پر دیکھا کہ اچانک سورج سے بھی زیادہ تیز روشنی زمین کی جانب بڑھ رہی ہے… اور پھر اچانک سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا… اس دھماکے سے ہر طرف آگ لگ گئی… آگ کے گولے زمین سے ٹکرانے لگے جنگل کے درخت جل کر خاک ہوگئے… کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟
کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا… اور اسی دھماکے کی وجہ سے روس کے علاقے سائبیریا کا نیویارک شہر سے بھی دگنا علاقہ تباہ ہوگیا… اس دھماکے کی وجہ سے ایسی شاک ویوز پیدا ہوئیں کہ جن کا اثر 5000km پانچ ہزار کلومیٹر دور تک ہوا…
ناسا کے سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ اس حادثے کو آج ایک سو ستارہ سال ہوچکے لیکن آج بھی اس حادثے کی وجہ ایک راز ہی ہے،ایک ایسا راز جس کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں لگایا جاسکا… ان کے مطابق یہ حادثہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ خوفناک قدرتی حادثہ تھا… مگر آج بھی انسان یہ نہیں جانتا کہ آخر اس وقت سیارہ زمین سے ٹکرایا کیا تھا…
اور Dr. Kevin Baines (planetary scientist) کے مطابق یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسی راز تھا… دھماکے کے بعد جب سائنسدانوں کی ٹیم وہاں پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ تمام درخت سینٹر پوائنٹ سے باہر کی جانب جڑ سے اکھڑے ہوئے گرے پڑے ہیں… مگر وجہ نہیں معلوم کرسکے… تحقیق کرنے کے بعد پتا چلا کہ کوئی چیز ایسی تھی جس نے درختوں کو جلا کر جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا…
جس طرح ٹگوسکا میں درخت جل کر راخ ہوئے پڑے تھے اور تمام کے تمام درخت جڑ سے اکھڑے پڑے تھے، بالکل. ایسا منظر نیوکلیئر دھماکوں کے بعد ہوتا ہے… لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیوکلیئر دھماکے جیسا حادثہ سن 1908 میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے بننے سے 35 سال پہلے کیسے ہوسکتا ہے؟
جب زمین سے اس حادثے کا کوئی جواب نہ ملا تو سائنسدانوں نے اپنی توجہ آسمان کی جانب کردی…
اس دور میں اس دھماکے کا ہونا بہت ہی حیران کن بات تھی… لوگ سوال کررہے تھے کہ کیا کوئی ستارے کا ٹکڑا آسمان سے زمین کی جانب گرا ہے، جس کی وجہ سے اتنا بھاری نقصان اٹھانا پڑا… اس صدی کے زیادہ تر سائنسدانوں کا تو یہی ماننا تھا کہ شاید کوئی بڑا آسٹروئیڈ زمین کی سطح سے ٹکرایا ہو، مگر ایک حیران کن بات یہ تھی کہ وہاں پر آسٹرئیڈ ٹکرانے کا اہم ثبوت غائب تھا… نہ وہاں پر آسٹروئیڈ کے کچھ آثار ملے اور نہ ہی زمین پر کوئی گڑھا بنا… آسٹروئیڈ جب بھی زمین کی سطح سے ٹکراتا ہے تو گڑھا ضرور بنتا ہے…
اب سوال یہ تھا کہ اگر وہ آسٹروئیڈ ہے تو آخر وہ گیا کہاں؟
جیوفزسٹ مائکل کیلی نے اس راز کا پردہ فاش کرنے کے لیے اپنی زندگی کے پندرہ سال لگا دیے… ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا راز لگ رہا تھا جس کو حل کرنے کے لیے کسی جاسوس سے مدد لی جائے… Dr.Michael kelley کے مطابق وہ اپنے فیکٹس کو فالو کرتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچے… ان کو اس واقعہ کے متعلق سب سے پہلا سراغ سن 1907 میں اس وقت ملا جب وہ شٹل مشن STS118 کے لانچ ہونے کے بعد آسمان میں عجیب و غریب بادلوں کو بنتے ہوئے دیکھ رہے تھے… ان کا کہنا تھا کہ شٹل کے لانچ ہونے کے دو دن بعد بہت ہی الگ طرح کے بادل رونما ہوئے،اور انہوں نے اس سے زیادہ چمکدار اور خوبصورت بادل پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے…
یہ ایسے دلفریب بادل ہوتے ہیں جو کہ آسمان پر تقریباً 75سے 90 کلومیٹر کی اونچائی پر بنتے ہیں… شٹل لانچ ہونے کے بعد والے یہ بادل بالکل اسی طرح کے تھے جیسے ٹنگوسکا میں حادثے کے بعد دیکھے گئے تھے… لوگوں کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے بعد آسمان اتنا چمکدار ہورہا تھا کہ آپ رات کے وقت کتاب پڑھ سکتے تھے… dr. Kelley کے مطابق جب شٹل انجن نے چھ لاکھ پاؤنڈ واٹر ویپرز فضا میں چھوڑے تو وہ گلوئنگ کلاؤڈز بن گئے… ان کے مطابق ٹنگوسکا کے حادثے اور شٹل لانچ کے بعد کے حادثوں میں کافی سیمیلیریٹی تھی،جس نے مائکل کیلی کا دھیان اپنی جانب کھینچ لیا…
اس بات سے یہ پتہ چلا کہ سائبیریا کے علاقے ٹنگوسکا میں جو ہوا اس دوران بھی کافی مقدار میں واٹر ویپرز فضا میں خارج ہوئے… ڈاکٹر کیلی کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا لگا شاید انہیں اس حادثے کا جواب مل چکا ہے… کیلی کے مطابق وہ جو اس علاقے میں گرا وہ کسی کومٹ کا ایکپلوژن تھا… انہوںنے اپنی تحقیق پوری کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اسی سراغ کا انتظار کررہے تھے… ان کا ہنا تھا کہ 1908 میں ایک بڑا آئس کومٹ زمین کے ایٹموسفیئر میں پھٹا جس کے جلنے سے کوئی گڑھا نہیں بنا تھا مگر اس سے واٹر ویپرز کے بڑے بادل بنے جیس کہ شٹل لانچ کے بعد آسمان میں چمکدار بادل بنے تھا…
مگر حقیقت سے شاید آج بھی سائنس ناواقف ہے…
………………………………………
#Written_by_TalhasaeedAlchemist
…………………………………….