*پاکستانی حکمرانوں، سربراہوں اور بااختیاروں کیلئے ایک سبق ۔۔۔!!*

*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*
*پاکستانی حکمرانوں، سربراہوں اور بااختیاروں کیلئے ایک سبق ۔۔۔!!*
*کالمکار : جاوید صدیقی*
تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ھے کہ تخت و تاج پہنے والے بیشتر نے ظالمین کا کردار ادا کیا اپنے اس منحوس اور غلیظ کردار کے سبب عبرت کا نشان بھی بنے اور تا قیامت ان پر لعنت بھیجی جاتی رہیں گی، یوں تو غداروں منافقوں اور ظالموں کی طویل فہرست موجود ھے جنھوں نے اصحاب اجمعین خانوادہ رسول پاک ﷺ کو شہید کرنے سے باز نہیں آئے تھے۔ ظالم منافق غدار اور جھوٹا لازم و ملزوم ہوتا ھے لیکن عبادت و ریاضت میں کسی سے کم نہیں ہوتا آج میں اپنا کالم ایسے ہی بدترین ظالم حکمران کی طرف کرتا ھوں جسے تمام عالم اسلام لعنت ملامت کرتے ہیں، معزز قارئین!! حجاج بن يوسف حافظ قرآن تھا وہ تہجد کی ایک رکعت میں دس سپاروں کی تلاوت کرتا تھا، باجماعت نماز پڑھاتا تھا اور شراب و زنا سے دور بھاگتا تھا لیکن انتہائی ظالم تھا جب اسکی موت آئی تو انتہائی عبرتناک موت آئی۔ حضرت سعيد بن جبير رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے، ایک دن منبر پر بیٹھے ھوئے یہ الفاظ ادا کئے کہ حجاج ایک ظالم شخص ھے،
ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔ کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ھیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں بالکل تو ایک ظالم شخص ھے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ھوگیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کردیئے۔ جب آپ کو قتل کیلئے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیئے۔ حجاج کو ناگوار گزرا اسنے پوچھا کیوں مسکراتے ھو تو آپ نے جواب دیا تیری بے وقوفی پر اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رھا ھے اس پر مسکراتا ھوں۔
حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کردو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا ” اے اللہ! میرا چہرہ تیری طرف ھے تیری رضا پر راضی ھوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔“ جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اسکا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا: ” یااللہ! رخ جدھر بھی هو تو هر جگہ موجود ھے. مشرق مغرب هر طرف تیری حکمرانی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم هو، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔“ جب آپکی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا اسکے ساتھ ہی آپکو قتل کردیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہوگیا۔ ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتا ھے۔ حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ اس کے خواب میں آ کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا ؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہوگیا ہے۔؟
اسکے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسے ”زمہریری“کہا جاتا ہے اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی وہ کانپتا تھا، آگ سے بھری انگیٹھیاں اسکے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس تک نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے، ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کیساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔ تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کیساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ھوئے تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گئی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ھے علاج تو کر۔ حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ھے۔ اللہ سے پناہ مانگ حجاج جب مادی تدبیروں سے مایوس ہوگیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو بلوایا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔
حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ، مگر تو باز نہ آیا۔ آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا، وہ اندر باہر سے جل رہا تھا، وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا. حضرت بن جبير رضى الله تعالى عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی۔ جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔ وہ بولا میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ھو تو میری قبر کا نشان بھی مٹادینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع هوئی۔ بیشک اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ھے لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ھے تو فرشتے بھی خشیت الہٰی سے کانپتے ھیں، عرش ہل جاتا ہے۔ معزز قارئین! یاد رکھئے کہ ظالم کی نشانیوں میں جھوٹ، منافقت، خودغرضی، متاع دولت کے جذبات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ آج ہم سب من حیث القوم اپنا اپنا جائزہ لیں تو کیا ہمارے اندر یہ عناصر کم و بیش پائے جاتے ہیں تو یقیناً ہم بھی کسی طور ظالم ہیں اور ہمارا حشر بھی ظالموں میں ہوسکتا ھے۔ اللہ سے معافی طلب کرکے خود کو بدلنے کے بعد ہی ہم ظالمین کی صف سے نکل سکتے ہیں، اللہ ظالموں کے ظلم سے ھم سب کو محفوظ رکھے.اور ہمیں ان تمام عادات سے دور رکھے جو ظالم بناتی ھے۔ آمین یا رب العالمین ۔۔۔.!!