سندھ

پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام کے منافی ہے، ڈاکٹر سید صادق

*پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام کے منافی ہے، ڈاکٹر سید صادق *

*جمہوریت کے نام پر ایک دھوکا اور فراڈ ہے، ڈاکٹر سید صادق علی*

*دو تہائی اکثریت کے باوجود پارلیمانی اسمبلیاں آئین میں رد و بدل کا اختیار نہیں رکھتیں، ڈاکٹر سید صادق علی*

کراچی (رپورٹ: جاوید صدیقی) پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام کے منافی ہے جمہوریت کے نام پر ایک دھوکا اور فراڈ ہے دو تہائی اکثریت کے باوجود پارلیمانی اسمبلیاں آئین میں رد و بدل کا اختیار نہیں رکھتیں۔ ان خیالات کا اظہار بانی و چیئرمین جناح کا سفید انقلاب ڈاکٹر سید صادق علی نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں ہے کہا کہ موجودہ پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام کے مکمل منافی ہے اور اس میں عوام کی دو تہائی اکثریت کی رائے شامل نہ ہونے کی بنا پر یہ اسمبلیاں آئین میں رد و بدل کا حق نہیں رکھتیں پاکستان کی آبادی کم و بیش چوبیس کروڑ ہے اور اس کے نصف سے بھی کم تعداد میں ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ اس نصف تعداد کے ووٹرز کی مزید نصف تعداد سے بھی کم لوگ کسی بھی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتے ہیں جبکہ ایک کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے اس حق سے بھی محروم رکھے جاتے ہیں۔ کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے بھی کسی بھی سیاسی جماعت کو کبھی بھی ڈیڑھ سے دو کروڑ سے زائد ووٹ حاصل نہیں ہوئے اور اتنی قلیل تعداد کے باوجود پاکستان کی اقتدار کے منصب پہ فائز ہونے والی سیاسی جماعتیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کم و بیش چوبیس کروڑ عوام کی نمائندگی کے دعوے کرتے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ اور گمراہی کا شاخسانہ ہے، پاکستان میں کوئی بھی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو پورے پاکستان سے بیک وقت اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرسکیں تمام تر سیاسی جماعتیں الگ الگ صوبے کی نمائندہ جماعتیں ہیں اور اپنی ذاتی بادشاہت قائم رکھتے ہوئے موروثی جماعتیں بن چکی ہیں اور صوبے کو اپنی ریاست اور جاگیر سمجھتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی سرپرست یا رہنما جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق نصف سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، یہی وہ بنیادی نقطہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھ سے لکھی ہوئی دس جولائی سنہ انیس سو سینتالیس عیسوی کی تحریر جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں صدارتی نظام کے نفاذ اور پارلیمانی نظام کے خطرات سے آگاہ کیا تھا کو پچھہتر سالوں تک پاکستان کی عوام سے پوشیدہ رکھا گیا پچھہتر سالوں تک کسی بھی شخص، بیوروکریٹ، سیاسی جماعت، صحافی، تجزیہ کار، محقق، وکیل یا بیرسٹر نے اسے ظاہر کیوں نہیں کیا؟ اسے دریافت کرنے کے بعد ہی میں نے سپریم کورٹ میں قائد اعظم کی وصیت پر عملدرآمد کیلئے پٹیشن 149/2022 دائر کی، جسے ابھی تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کی سنوائی کا مطلب ہے موجودہ پارلیمانی نظام کا آئین و قانون کے مطابق مکمل خاتمہ، اور پاکستان میں صدارتی نظام کا نفاذ ہی کرنا پڑے گا۔ پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام اس لئے نہیں ہے، اس میں ایک حلقے سے کثیر تعداد میں ووٹ لینے والا بھی ایک اسمبلی نشست حاصل کرتا ہے اور چھوٹے حلقے سے قلیل تعداد میں ووٹ لینے والا ممبر بھی ایک ہی نشست حاصل کرتا ہے۔ جب پانچ لاکھ ووٹرز کا اور ایک لاکھ ووٹرز کا نمائندہ بھی اسمبلی کی کسی قرارداد یا قانون سازی کے عمل میں ایک ہی ووٹ کا حقدار ہوتا ہے تو اس میں ووٹرز کی متناسب نمائندگی کیسے شمار کی جا سکتی ہے؟ اور دو تہائی اسمبلی کے ارکان دو تہائی عوامی نمائندگی کے حامل کیسے بن سکتے ہیں اور آئین میں رد و بدل یا ترامیم کے حقدار کیسے بن سکتے ہیں؟ اور ایسے تمام قوانین جو قراداد مقاصد، قرآن مجید کے احکامات اور انسانی حقوقِ سے متصادم ہیں فوری طور پر منسوخ کرنا ہوں گے۔ پارلیمانی نظام میں بھی پارلیمنٹ قانون یا آئین میں رد و بدل یا ترمیم کی تجاویز دینے کی ہی مجاز ہے نافذ یا منسوخ کرنے کے احکامات صرف عدلیہ ہی جاری کر سکتی یے جبکہ صدارتی نظام میں پورا پاکستان ایک حلقہ ہوتا ہے اور تمام امیدوار بشمول سینیٹ اراکین ملک بھر سے اجتماعی ووٹ لے کر ہی منتخب ہوسکتے ہیں اور صدر اپنی کابینہ کے ہر شعبہ کیلئے ملک کے بہترین تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد پر مشتمل لوگوں کو چنتا ہے۔ صدارتی نظام ہی ملک کے تمام مسائل کا حل ہے اور یہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وصیت اور خواہش بھی تھی۔ پاکستان میں نافذ ہونے والے صدارتی نظام جمہوری نظام کے منافی تھے، اسی لئے آمرانہ صدارتی نظام کہلاتے ہیں۔

{"remix_data”:[],”remix_entry_point”:”challenges”,”source_tags”:["local”],”origin”:”unknown”,”total_draw_time”:0,”total_draw_actions”:0,”layers_used”:0,”brushes_used”:0,”photos_added”:0,”total_editor_actions”:{},”tools_used”:{},”is_sticker”:false,”edited_since_last_sticker_save”:false,”containsFTESticker”:false}

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You