*ٹائٹل: بیدار ہونے تک* *عنوان:مجھے ہے افسوس مسلماں ہونا*
*ٹائٹل: بیدار ہونے تک*
*عنوان:مجھے ہے افسوس مسلماں ہونا*
آج میں نے اپنے اندر جھانک کر دیکھا تو میں لرزے بغیر نہ رہ سکا مانا کہ دولت کی ریل پیل نہیں ہے مگر پھر بھی کوئی خاطر خواہ نیک عمل بھی نہیں، حسن سلوک سے لیکر شریعت پر عمل بھی، میں ایک مسلماں تو ہوں لیکن میرے قدم کسی اور جانب ہیں مجھے تو ہر صورت سنت نبوی اور اصحاب کرام کے نقش قدمی کو اپنانا تھا، لیکن ہائے میرے نفس امارہ تونے مجھے مسلماں ہوکر بھی عملی مسلماں ہونے نہ دیا، الله اور اس کے حبیب ﷺ کا کرم ہے کہ میرے دل کی آنکھ کو بیدار کیا کہ اب ایسا توکل مضبوط ہوگیا ہے کہ جاب لیس ہونے کے باوجود پرسکون اور مطمعین ہوں اور دعا کرتا رہتا ہوں کہ الله تو مجھے ہمیشہ حقوق العباد ادا کرنے میں غافل نہ رکھ کیونکہ تیرے محبوب حضرت محمد ﷺ نے چالیس سال قبل نبوت حقوق العباد احسن ادا کرکے ہمارے لیئے سبق عظیم چھوڑا یے اور تمام عمر تیری عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ جس طریقے سے انسانوں کے حقوق ادا کیئے وہ ہمارے لیئے مشعل راہ ہیں، آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد آپﷺ کے خلفا نے بہت خوبصورت نبھایا جب جب اسلامی ریاستیں دنیا میں کہیں بھی قائم ہوئیں وہ مثالی اور کامیاب رہیں کیونکہ ان ریاستوں میں مسلمان عملی طور پر دین الہی کو اپناتا ہوا نظر آتا تھا۔۔۔ معزز قارئین!! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایک شخص ملک شام سے سفر کرتا ہوا آیااور اپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ آپ امیر بھی ہیں یعنی مالدار بھی ہیں اور امیر بھی یعنی مسلمانوں کے سربراہ بھی ہیں۔ عرض کرنے لگا حضور میرے اوپر قرضہ چڑھ گیا ہے میری مدد کریں تو آپ اس کو اپنے گھر لے گئے شخص کہتا ہے کہ باہر سے دروازہ بہت خوبصورت تھا لیکن گھر پر ایک چارپائی بھی نہ تھی کھجور کی چھال کی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور وہ بھی پھٹی ہوئی فرماتے ہیں سیدناصدیق ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے مجھے چٹائی پر بٹھالیا اور مجھے کہنے لگے یار ایک عجیب بات نہ بتاؤں میں نے کہا بتائے تو عرض کرنے لگے تین دن سے میں نے ایک اناج کا دانہ بھی نہیں کھایا کھجور پر گزارا کرلیتا ہوں آجکل میرے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہے تو شخص کہنے لگا حضور میں اب پھر کیا کروں میں تو بہت دور سے امید لگا کر آیا تھا، تو فرمانے لگے تو عثمان غنی کے پاس جا شخص کہنے لگا مجھےتو بہت سارے پیسے چاہیے ہیں تو آپ نے فرمایا تیری سوچ وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے عثمان کی سخاوت شروع ہوتی تو جو سوچتا ہے اتنے ملیں گے تیری سوچ ختم ہوتی ہیں وہاں سے عثمان کی سخاوت شروع ہوتی ہے تو جا ان کے پاس شخص کہنے لگا آپ کا نام لوں کے مجھے امیر المومنین نے بھیجا ہے تو فرمانا لگےاس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی صرف اتنا بتانا کہ میں مقروض ہوں اور رسول ﷺ کا نوکر ہوں۔ وہ شخض کہنے لگا کے وہ دلیل حوالہ مانگے گے فرمایا عثمان سخاوت کرتے وقت دلیل یا حوالے نہیں مانگتے عثمان اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے تفتیشے نہیں کرتا اور سخاوت کرتے وقت ٹٹولنا عثمان کی عادت نہیں، وہ شخص کہتا ہے کہ میں چلا گیا پوچھتا پوچھتے دروازے پر دستخط دی حضرت عثمان غنی کے اندر سے بولنے کی آواز آرہی تھی "اپنے بچوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ یار تم لوگ دودھ کے اندر شہد ملا کر پیتے ہوں خرچا تھوڑا کم کرو اتنا خرچا بڑھادیا ہے دودھ میٹھا شہد بھی مٹھا ایک چیز استعمال کرلو تم کوئی بیمار تھوڑی ہوں” شخص کہتا ہے میں نے کہا ابوبکر تو بڑی باتیں بتارہے تھے یہاں تو دودھ اور شہد پر لڑائی ہو رہی ہے اور مجھے تو کئی ہزار دینار چاہیے کیا یہ دے دے گا، شخص کہتا ہے کہ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ وہ باہر آئے اور میں نے کہا السلام علیکم! انہوں نے سلام کا جواب دیا اور وہ سمجھ گئے کہ میں مسلمان ہوں اور مخاطب ہوکر کہنے لگے معاف کرنا بچوں کو ذرا ایک بات سمجھانی تھی آنے میں ذرا دیر ہوگئی، ان کا پہلا جملہ ان کے بڑے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا پھر دروازہ کھولا اور مجھے انہوں نے گھر بٹھایا اور میرے لئے جو پہلی چیز پیش کی گئی وہ دودھ میں شہد ڈال کردیا گیا اور پھر کھجور کا حلوہ پیش کیا۔ شخص کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا عجیب شخص ہے گھر والوں کے ساتھ جھگڑا کر رہے تھے ایک چیز استعمال کیا کرو میرے لیے تین تین چیزیں آ گئی ہےلیکن ابھی میرا تصور جما نہیں تھا میں نے دل میں خیال کیا اتنا تگڑا نہیں جتنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا ہے وہ شخص کہتا ہے کہ کھلانے پلانے کے بعد پوچھنے لگے کیسے آئے ہو، میں نے کہا کہ ” میں مسلمان ہو اور ملک شام کے گاؤں کا رہنے والا ہوں اور کچھ کاروباری مشکلات آئی تو مقروض ہوگیا ہوں اور میرے اوپر قرضہ ہے اور مجھے کچھ پیسوں کی حاجت ہے ”
کہنے لگا تو میں نے کچھ پیسے کہا تو انہوں نے ایک آواز دی تو ایک غلام اونٹ پر سامان لدا ہوا لیکر حاضر ہوا، شخص کہتا ہے کہ مجھے تین ہزار اشرفیاں چاہیے تھی، ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ” اس اونٹ پر تیرے لیے تیرے گھر والوں کے لئے میں نے کپڑے اور کھانے پینے کا سامان اور چھ ہزاراشرفیاں رکھوا دی ہے اور تو پیدل آیا تھا اب اونٹ لے کر جانا” شخص کہنے لگا میں نے کہا حضور یہ اونٹ انہیں واپس کرنے کون آئے گا، حضرت عثمان فرمانے لگے واپس کرنے کے لیے دیا ہی نہیں یہ تحفہ ہے تو لے جا، شخص کہتا ہے کہ میں کہاں سے چلا تھا ڈھونڈتا ہوا اور پھر مدینے میں آیا اور جب مدینے میں آیا تو اللہ نے مجھے جھولی بھر کے عطا فرمایا کہتا ہے میری آنکھوں میں آنسوں آگئے اور میں نے کہا حضور آپ نے تو مجھے میری ضرورت سے کہیں بڑھ کر نواز دیا ہے معاف کیجئے گا میں سوچ رہا تھا دودھ شہد پر تو گھر میں لڑائی ہو رہی ہے۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے جو پیسے عثمان کو دیئے ہیں وہ اس لئے نہیں دیئے کہ عثمان کی اولادیں عیش مستی کرتی پھیرے میرے مالک نے مجھے نوازا ہے تاکہ میں محمد عربی ﷺ کے نوکروں کی نوکری کروں، شخص کہتا ہے میں دروازے تک گیا تو میں نے کہا شکریہ! کہتا ہے ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بھیجا ہے کہ آپ فرمانے لگے کہ شکریہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) کا ادا کرنا جس نے تجھے یہ راستہ دکھایا ہے، شخص کہتا ہے کہ میں نے کہا حضور آپ کو تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ مجھے ۔۔۔۔تو آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرا کر فرمانے لگے چھوڑوں آپ کا کام ہو گیا اس تفصیلات میں نہ پڑوں۔۔۔۔(سبحان اللہ) یہ شان ہے خدمت گاروں کی سرکار کا عالم کیا ہوگا۔۔۔۔۔معززقارئین!! آپ خود فیصلہ کریں اور سوچیں کہ کیا میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرسکتا ہوں، فرض کیا میں کسی بھی ادارے کا مالک ہوں اور اہنی خواہشات کی تکمیل دولت کی ہوس کے سبب ان ملازمین کو بے دخل کردیتا ہوں جن کی تنخواہ قلیل ہوں جو میرے ادارے سے مخلص دیانتدار اور سچے رہے ہوں اور اپنے ایسے افسران جن کی تنخواہیں کئی کئی لاکھ دوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ میرے ادارے میں گروپ بندی اور سازشوں کے انبار کھڑے کردیئے ہیں مختلف شعبوں کے ہیڈز کی منافقتی رویئوں کو پہچاننے کے باوجود انہیں نظر انداز کرتا چلا جاؤں گوکہ گھر اور ادارے میں محافل منعقد کروں کہ شائد الله اور اس کے رسول ﷺ مجھ سے راضی ہوجائیں گے، میرا دل اورضمیر بے چین ہے یقینا میں نے اپنے ملازمین کو نکال کر کئی گھرانوں کا معاشی قتل کیا ہے ڈر ہے کس کس حالت میں ہونگے یقینا میں مسلماں ہوکر بھی عملی مسلمان نہ بن سکا ہوسکتا ہے مجھ جیسے کئی امیر امرا ایسے ہونگے جو میری طرح سنگین غلطی کے مرتب ہوئے ہوں، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ میں سنت نبوی ﷺ پر چلتے ہوئے نیک امور کو بھرپور رضائے الہی کی خاطر اپنائیں ورنہ مجھ سمیت غافل سست اور نفس امارہ کا غلامی میں قید رہنے والوں کا انجام بھیانک ہوگا ابھی بھی وقت ہے کہیں دیر نہ ہوجائے اپنی غلطی کا ازالہ کرسکتے ہیں بعد موت سوائے ذلت اور عزاب کے کچھ میسر نہیں۔۔۔۔!!