وہ قاتل پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ اس کے سامنے تاحدِ نظر تک پھیلی برفیلی بلندیاں یوں معلوم ہوتی تھیں
دشتِ تنہائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5
وہ قاتل پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ اس کے سامنے تاحدِ نظر تک پھیلی برفیلی بلندیاں یوں معلوم ہوتی تھیں
جیسے کسی جناتی چٹان کے اردگرد چھوٹے چھوٹے سفید کنکر بکھرے پڑے ہوں۔ وہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے اس پہاڑ کے قدموں سے لے کر چوٹی تک کا سفر تنِ تنہا طے کیا تھا۔
پہاڑ بھی وہ جسے قاتل پہاڑ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی کے سینے میں کہیں اس کے سگے بھائی کی لاش بھی برفانی کفن میں مدفون تھی۔ بھائی کی جان گنوانے کے بعد بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی۔ اور ان برفوں کو اکیلا ہی روندتا چوٹی پر کھڑا تھا۔
تنہائی نے اسے ایک نیا حوصلہ بخشا۔ وہ دنیا کا واحد انسان ہے جس نے نہ صرف دنیا کی تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں کو تنِ تنہا سَر کیا۔ بلکہ آئس لینڈ کے دشت کو بھی عبور کیا اور عظیم صحرا گوبی کو پار کیا۔ وہ ایک زندہ عجوبہ ہے۔ جسے دنیا رائن ہولڈ میسنر کے نام سے جانتی ہے۔
سیاحت کا شوق رکھنے والوں کے لیے میسنر کا نام نیا نہیں ہے۔ وہ تاریخ کے بہترین کوہ پیماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اٹلی میں پیدا ہونے والے میسنر کے والد بھی کوہ پیمائی کے شوقین تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں میسنر اور گنتھر کو بھی پہاڑوں پر چڑھنا سکھایا۔ جب میسنر کوہ پیمائی کی دنیا میں قدم رکھ رہے تھے اس وقت پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے آکسیجن کا استعمال عام تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ جیسی چوٹیوں کو سَر کرنے کے لیے لاؤ لشکر سمیت کیمپ قائم کرنے اور چڑھائی چڑھنے کا رواج تھا۔ لیکن میسنر نے دنیا کو بتایا کہ بوتل میں بھری آکسیجن اور کسی قسم کی مدد کے بغیر انسان اکیلا بھی چاہے تو بلند و بالا چوٹیوں کو فتح کر سکتا ہے۔ کوہ پیمائی کے اس اسٹائل کو الپائن طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے۔ جو پہلے یورپ کی چھوٹی موٹی چوٹیوں پر چڑھنے کے لیے رائج تھا۔ لیکن میسنر نے ثابت کر دکھایا اس طریقے کی مدد سے بے مثال بلندیوں کو چھوتی ہمالیہ کی چوٹیاں بھی سر کی جا سکتی ہیں۔ اور وہ بھی تنِ تنہا۔۔۔۔۔
قدرت نے کرہ ارض کو جن بے مثال خوبیوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک زمین کے سینے پر کھڑے وہ بلند بالا پہاڑ ہیں جن کی آسمان کو چھوتی چوٹیاں انسان کے دل پر ہیبت طاری کر دیتی ہیں۔ دنیا کے کل 14 پہاڑ ایسے ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے بھی بلند ہیں۔ انہیں آٹھ ہزاری چوٹیاں بھی کہا جاتا ہے۔ ان پر چڑھنا انہیں سر کرنا جوئے شِیر لانے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ بے شمار کوہ پیما ان پر قدم رکھنے کی حسرت لیے برفوں کے سینے میں دفن ہو گئے۔ لیکن میسنر دنیا کا واحد اور پہلا انسان ہے جس نے تمام چودہ آٹھ ہزاری چوٹیوں کا غرور اپنے پاؤں تلے روندا وہ بھی بغیر کسی آکسیجن کی مدد کے۔ لیکن اس کی قیمت اسے ادا کرنا پڑی۔
پاکستان کی خوبصورت چراگاہ فئیری میڈوز کے پہلو میں شان سے سر اٹھائے کھڑا نانگا پربت کوہ پیمائی کے حوالے سے دنیا کا مشکل ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔ اسے پہلی بار کامیابی سے سر کرنے کا سہرا ہرمن بوہل کے سر ہے۔ جن سے پہلے دو درجن کے قریب کوہ پیماء نانگا پربت کو سر کرنے کی آس لیے ہلاک ہو چکے تھے۔ اسی بناء پر اسے قاتل پہاڑ کا نام دیا جاتا ہے۔ میسنر اور اس کے بھائی گنتھر نے 1970 میں نانگا پربت کی روپال سائیڈ سے چڑھائی کی جو کہ ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ دونوں بھائی روپال سائیڈ سے پربت سر کرنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن اترائی کے دوران پیش آنے والے حادثے کے نیتجے میں گنتھر جان بحق ہو گیا۔ اور میسنر تنہا رہ گیا۔ کچھ لوگوں کی جانب سے اسے بھائی کی ہلاکت کا زمہ دار بھی قرار دیا گیا حالانکہ اس حادثے کے بعد میسنر کے پاؤں کی سات انگلیاں بھی کاٹنا پڑیں۔ لیکن اسے کسی پل چین نہ تھا۔ تنہا ہونے کے بعد پربت کو سر کرنے کا جنوں اور بھی اس کے سر پر سوار ہو گیا۔ اس نے 1978 میں ایک بار پھر بغیر کسی مدد کے نانگا پربت پر چڑھائی کی۔ اور بلاآخر وہ قاتل پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا تھا۔
یہ سب کسی صورت ممکن نہ تھا اگر وہ تنہائیوں کا شیدائی نہ ہوتا۔ یہ تنہائی کا فریب ہی تھا جو اسے چوٹیوں سے اتار کر گوبی کے صحراؤں میں لے گیا۔ یہ دشت کی کشش ہی تھی جس نے اسے ریت کے صحرا سے نکال کر برف کے صحرا میں تنِ تنہا قدم رکھنے پر مجبور کیا۔ اور یہ اکیلے پن کی طاقت ہی تھی کہ وہ پتھروں سے ریت اور ریت سے برف تک کی ہر منزل طے کرتا گیا۔
اس سے کسی نے سوال کیا کہ ایورسٹ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر تنہائی کو آپ نے کیسے محسوس کیا تو اس کا جواب تھا کہ وہاں تنہائی نہیں تھی۔ کیوں کہ وہاں میں تھا۔ اس ایک جملے میں تنہائی کی ساری حقیقت پوشیدہ ہے۔ اپنی دنیا آپ بسانے والے لوگوں کو محفلوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ جہاں ہوتے ہیں وہیں رونق لگا لیتے ہیں۔ ان کی تنہائی ہی ایک عالم ہے۔ کیونکہ ان کے سینے میں زندگی سے بھرپور دل دھڑکتا ہے۔
میسنر دنیا کا واحد کوہ پیماء ہے جس نے اپنے تمام تر احساسات قلم کے راستے کاغذ تک منتقل کیے ہیں۔ اس جتنا کسی نے نہیں لکھا۔ میسنر کی اب تک 80 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے نصف انگریزی ترجمے کے ساتھ دنیا بھر میں دستیاب ہیں۔ جبکہ بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو اس نے صرف اپنے لیے لکھی ہیں۔ لکھنا بھی اس پسندیدہ مشغلہ ہے۔ شاید یہ شوق تنہائی کی جانب سے ہی وراثت میں ملا ہے۔ تنہائی کی زندگی بسر کرنے والا دنیا کا ہر انسان کبھی نہ کبھی لکھنے کی جانب ضرور راغب ہوتا ہے۔
"آپ نے بلند ترین چوٹیوں پر قدم رکھا، صحراؤں کو پار کیا، برفوں کی ویرانی میں سفر کیا۔۔۔۔ آپ کے لیے مشکل ترین وقت کون سا تھا؟”
اس سے سوال کیا گیا۔
"میرے لیے اس سب کے دوران مشکل ترین کام تنِ تنہا خیمہ لگانا تھا۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب میری شدت سے خواہش ہوتی کہ کوئی میرے پاس ہو جس سے میں بات کر سکوں۔ اپنی عارضی جائے مسکن قائم کرتے وقت اکیلے پن کا احساس میرے لیے مشکل ترین مرحلہ تھا۔”
اس کا جواب حیران کن تھا۔ اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ عارضی زندگی کے قیام میں انسان کو بہرحال کسی اپنے جیسے کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ تنہائیاں جتنا بھی اپنا گرویدہ بنا لیں۔ محفل کی یاد کبھی نہ کبھی ضرور ستاتی ہے۔ فراق گورکھپوری نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
میں ہوں، دل ہے، تنہائی ہے
تم بھی ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ہوتا
میسنر کے مطابق تنہا رہنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ اپنا ڈر کسی سے نہیں بانٹ سکتے۔ تنہائی اور ڈر بہرحال ایک دوسرے کے ہم نام ہیں۔
اسی سال سے زائد عمر کے باوجود میسنر آج بھی چاق و چوبند نظر آتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے تنہائیوں کے دشت کی وحشت جھلکتی رہتی ہے۔ وہ اب بھی پہاڑوں کا رخ کرتا رہتا ہے کیونکہ اس کے بقول "میں پہاڑوں پر مرنے کے لیے نہیں بلکہ جینے کے لیے جاتا ہوں۔” اسے سیاست کا بہت شوق ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کے تمام سیاست دان ایک بار کوہ پیمائی کر لیں۔ تو دنیا موجودہ دور سے کہیں بہتر ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ جینے کا ڈھنگ سیکھ لیں گے۔ زندگی کی اصل رنگینیوں کو تنہائی کے کینوس پر بکھرے دیکھ کر وہ ان لمحوں کو کبھی بھول نہ پائیں گے۔ ن م راشد کے شعر کے ساتھ اختتام کرتا ہوں۔
تجھ پہ کھل جاتی میری روح کی تنہائی بھی
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
(ندیم رزاق کھوہارا)
میسنر پر انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا پر آرٹیکل:
https://www.britannica.com/biography/Reinhold-Messner
ٹیلی گراف پر مضمون:
https://www.telegraph.co.uk/travel/lists/reinhold-messner-tribute-quotes-facts/
میسنر کا ایک تفصیلی انٹرویو: