نو آبادیاتی نظام سے منسلک 300 متنازع تاریخی عمارتیں
لاہور: (سپیشل فیچر) نئی دل دہلا دینے والی رپورٹ کے مطابق 93 محلات اور کوٹھیوں کے مالکان نے غلاموں کے استحصال سے تعمیر مکمل کی تھیں۔
برطانیہ، ویلز اور ناردرن آئرلینڈ میں قومی ثقافتی ورثے کا تحفظ نیشنل ٹرسٹ‘‘ نامی ادارے کی ذمہ داری ہے جسے 56 لاکھ ممبران کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ 500 تاریخی عمارات کی نگرانی پر مامور ہے جن میں سے 300 کا تعلق کسی نہ کسی طرح استحصالی نظام سے نکلتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے متعدد کرتا دھرتاؤں کی جائیدادیں بھی تنقید کی زد میں ہیں۔
اس ادارے کی جاری کردہ 115 صفحات پر مشتمل نئی رپورٹ دل دہلا دینے والی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 93 محلات اور کوٹھیوں کے مالکان نے غلاموں کے استحصال سے تعمیر مکمل کی۔
عالمی منظر نامے پر اسی برطانوی رپورٹ کے چرچے ہیں۔غیر ملکی میڈیا میں شہ سرخیوں کا سبب بننے والی خبروں کے مطابق برطانیہ میں 300 محلوں کا پس منظرتاریک ہے، یہ تمام محل غلاموں کے استحصال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے بنائے گئے ۔ان عالی شان عمارات کی تاریخ نہایت ہی تاریک ہے۔ اتنی بھیانک کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ ۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں سینکڑوں محلوں کے مالک انگلش باشندے تو ہیں لیکن چونکہ یہ جائیدادیں غلاموں کی محنت سے بنائی گئی ہیں اس لئے ان پر انگریزوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ انگریز میسور، نواب آف حیدر آبا اور جونا گڑھ کی ریاستوں کو اپنے تسلط میں لینے کے بعد ان کے وسائل پربھی قابض ہو گئے تھے۔
ان تین سو سے زائد گھروں اور محلوں کا اندرونی منظر دلکش ہے، اتنا خوبصورت کہ کئی فلموں کی جان یہی ناظر ہیں، پرکشش مناظر سے دل لبھانے والے ان محلوں کے مالکان فلم بندی سے بھی لاکھوں ڈالر کما چکے ہیں۔ 2005ء میں Basildon Park مینشن میں جین آسٹن کی پرائیڈ اینڈ پری جوڈسز ‘‘کی فلم بندی کی گئی تھی ۔یہ عمارت 1771ء میں فرانسس سکائی نے ایک برطانوی سوداگر سے خریدی تھی ۔کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ اس کی بنیادیں غلاموں کے خون سے سینچی گئی ہیں، نوآبادیاتی ممالک کی دولت پر استوار یہ بنیادیں آج چیخ چیخ کر ماضی کا المیہ بیان کر رہی ہیں۔
1833ء میں برطانوی حکومت نے گوروں اور غلاموں کی مدد کے لئے سالانہ 4کروڑ پائونڈ جاری کئے تھے جن میں سے 2کروڑ پائونڈ غلاموں کی محنت کے معاوضے کی ادائیگی کے لئے رکھے گئے تھے لیکن گوری چمڑی نے یہ فنڈز ڈکار لئے بغیر ہضم کر لئے۔
غلاموں کو پھوٹی کوڑی نہ ملی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غلاموں کو معاوضہ ادا کر دیا گیا تھا ،اکثریت اختلاف کرتی ہے۔ 15ویں صدی میں بنایا گیا ٹاور Glastonbury Tor‘‘ موسیقی کی دنیا میں خصوصی مقبولیت کا حامل ہے لیکن اس کی بنیاد خون سے سرخ ہے ۔یہ ان 29عمارات میں شامل ہے ، جن کے مالکان نے غلاموں کے لئے مختص کردہ کروڑ وں پائونڈ ہڑپ کرنے میں ذرا شرم محسوس نہ کی۔
رابرٹ کلائیو :ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی افسر رابرٹ کلائیو مسلمانوں سے جنگ و جدل میں ملوث رہے ،انہوں نے انڈیا میں کافی دولت کمائی ،ان کا محل نما گھر پووس کاسل‘‘ (Powis Castle) بھی 93 متنازعہ ترین جائیدادوں میں شامل ہے۔ کلائیو انڈیا میں لوٹ مار میں ملوث رہے، مسلمان حکمرانوں کے محلات سے چرائی گئی قیمتی و نادر اشیاء ان کے پووس محل کی رونق ہیں۔ رپورٹ میں قیمتی اور تاریخی نوادرات کو سابقہ مسلم ریاستوں کے شاہی محلوں سے چرائے جانے اعتراف کیا گیا ہے۔
ونسٹن چرچل :کہا جا رہا ہے کہ چرچل کے گھر کی تعمیر میں بھی انڈیا کی دولت شامل ہے۔ وہ 1921ء تا 1922ء سیکرٹری آف سٹیٹ برائے کالونیز بھی رہے۔ان کا رویہ نوآبادیات کے ساتھ اچھا نہیں رہا۔
بنگال میں 1943ء میں آنے والے خوفناک قحط کے دنوں میں کئی رہنمائوں نے خوراک کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا لیکن چرچل ایسی ہر تجویز پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن گئے۔چرچل کے بائیو گرافر اینڈریو رابرٹس نے نیشنل ٹرسٹ کو لاعلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ غلامی 1833ء میں چرچل کی پیدائش سے 41 برس پہلے ختم ہو گئی تھی۔
جو شخص اس وقت پیدا ہی نہیں ہوا تھا اس پر غلامی سے مستفیض ہونے کا الزام لاعلمی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ڈاکٹر وارن ڈاکر کے بقول چرچل اور کلائیو آف انڈیا کا موازنہ کرنا زیادتی ہے، ان کے نزدیک چرچل اور کلائیو آف انڈیا کو ایک ہی پلڑے میں رکھنا چرچل سے ناانصافی ہے۔وہ سامراجی تھے، اس میں کوئی شک نہیں،لیکن وہ ایڈروڈ کالسٹن یا غلاموں کے سوداگر ہرگز نہ تھے‘‘۔
ولیم ورڈز ورتھ :کہا جاتا ہے کہ اس عالمی شہرت یافتہ شاعر کے خاندان نے بھی انڈیا کی دولت پر عیش کی۔ 23اپریل 1850ء کو مرنے والا یہ رومانوی شاعر اپنے محل ایلی لیک ( Allan Bank) میں 1808 ء تا 1811ء رہائش پذیر رہا۔کہا جاتا ہے کہ اس محل کی تعمیر میں بھی غلاموں کا خون شامل ہے۔ متنازعہ فہرست میں ان کے نام کی شمولیت کی وجہ ان کے بھائی جان‘‘ ہیں، جو ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک شپ کے کمانڈر تھے ، اور 1801ء میں دو مرتبہ چین جانے والے جہاز کے کپتان تھے۔
رڈ یارڈ کپلنگ: رڈ یارڈ کپلنگ کا گھر بیٹ مین (Bateman) ہائوس‘‘ کہلاتا ہے ۔ 1907ء میں ادب کا نوبل انعام پانے والا یہ ادیب 1902ء سے اپنی موت تک 1936ء تک یہیں مقیم رہا۔ کپلنگ نے کئی سال برصغیر میں بھی قیام کیا، وہ لاہور سے نکلنے والے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘کے مدیر تھے۔ لاہور کی کمائی برطانیہ بھیجی گئی تھی۔ ان کی اکثر تحریروں سے گوروں کی حاکمیت کو فروغ ملا ، انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں نوکری بھی کی۔تاہم وہ جس محل میں مقیم تھے اس کی تعمیر1634 ء میں مکمل ہوئی جبکہ کپلنگ 1902 ء میں نامکمل مکان میں شفٹ ہوئے تھے۔
سر تھامس آف ومپول : سر تھامس ومپول نے ایبے‘‘ نامی محل سابق دولت مند تاجر سیموئل سے خریدا گیا تھا۔ سیموئل ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈائریکٹر اور سائوتھ سی کمپنی‘‘ کے سربراہ بھی رہے۔ ان کے والد سیموئل شیپ ہرڈ سینئر ایسٹ انڈیا کمپنی کے بانیوں میں شامل تھے۔انہوں نے تمام دولت مسلمانوں والے علاقوں سے تجارت میں کمائی ، وہ اپنے نام سے منسوب ومپول ہال کے بھی مالک ہیں ۔ یہ ہال 1713ء میں ہارلے فیملی کی ملکیت میں بھی رہا۔ رابرٹ ہارلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک شاخ سائوتھ سی کمپنی بنانے والوں میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے غلاموں کی مدد سے تین ممالک میں شجر کار ی مہم میں حصہ لیا۔ اس فہرست میں شمولیت کی وجہ ان کی بیوی سارا رسل بھی ہیں۔ سارا کے والد ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈائریکٹر تھے، وہ انڈیا میں نافذ کئے جانے والے تمام استحصالی فیصلوں میں شریک تھے۔
فرانسس ساکاس : برطانیہ کے نیشنل ٹرسٹ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ1776ء سے 1783ء تک کئی رہنما انڈیا کی دولت کے ساتھ برطانیہ پہنچے ۔اس دولت سے فرانسس ساکاس کے لئے بلسٹن پارک ‘‘بنایاتھا۔یہ شخص اپنی عیاشانہ زندگی کے لئے انڈین خزانے کے ساتھ برطانیہ پہنچا تھا۔
ہیچ لینڈز پارک سرے:1756ء میں بننے والا یہ محل بعد ازاں انڈیا میں برطانوی مفادات کی نگرانی کے مرکز میں استعمال کیا گیا، باسکووانین نے اسی مرکز سے 1748ء میں پونڈے چری کے محاصرے کی نگرانی کی اور کامیاب رہے۔رابرٹ کلائیو ان کی نگرانی میں کام کر رہے تھے۔
اس راز سے پردہ اٹھنا باقی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ،اس کا ہرجانہ کون دے گا؟ ایک اورسوال یہ کیا جا رہا ہے انڈیا میں مسلمانوں سے چھینی گئی جائیدادیں مسلمان کو کب واپس ملیں گی؟ جہاں سیاہ فام باشندے ان عمارات کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہاں ہمارے ہاں بھی یہی مطالبہ کرنے میں حرج ہی کیا ہے!