ناسا کی دوربین .ہبل کے خلا میں گزرے 30 سال کی کہانی
ناسا کی دوربین .ہبل کے خلا میں گزرے 30 سال کی کہانی
جوناتھن ایموس
بی بی سی سائنس رپورٹر
25 اپريل 2020
یہ 30 سال پہلے کی بات ہے جب ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا میں چھوڑا گیا تھا۔ اس کی سالگرہ کی خوشی میں اس تاریخی دوربین نے کائنات کی ایک اور حیران کن تصویر پیش کی ہے۔
یہ زمین سے ایک لاکھ 63 ہزار نوری سال کے فاصلے پر خلا کے اس حصے میں واقع ہے جہاں ستارے بنتے ہیں۔
اس میں نظر آنے والی بڑی چیز گیسوں اور گرد کا ایک بادل این جی سی 2014 ہے، جس کے پڑوس میں این جی سی 2020 ہے۔
لیکن ماہرین فلکیات نے اس کو اس کی زیر سمندر نظاروں سے مشابہت کی وجہ سے ‘کوسمک ریف’ یعنی کائناتی چٹان کا نام دیا ہے۔
سنہ 1990 میں خلا میں چھوڑے جانے کے وقت دھندلی تصاویر بنانے کی وجہ سے اسے وہ قدر و منزلت حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن بعد میں ہبل کی مرمت کی گئی اور اس کو اور جدید بنا دیا گیا۔
یقیناً کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ ہبل ٹیلی سکوپ اب تک ایجاد کیے جانے والے آلات میں سب سے اہم سائنسی آلا ہے۔
یہ ابھی بھی ریٹائرمنٹ سے کافی دور ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی (ایسا) کے ساتھ مل کر اس دوربین کے مشن کو چلانے والے امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پیسہ اس وقت تک فراہم کیا جاتا رہے گا جب تک اس کی افادیت اپنی جگہ موجود رہے گی۔
گذشتہ سال اس ٹیلی سکوپ سے حاصل کی گئی تصاویر اور ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہزار سے زیادہ سائنسی مقالے شائع ہوئے، لہٰذا یہ اب بھی سائنسی دریافتوں کے لیے اہم ہے۔
انجینیئرز مستقل اس ٹیلی سکوپ کے مختلف سسٹمز اور اس کے کام پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس کے چاروں آلات جن میں تصاویر لینے والے دو ’امیجرز‘ یا کیمرے اور اجرامِ فلکی کی روشنی کا تجزیہ کرنے والے دو ’سپیکٹوگراف‘ بالکل صحیح کام کر رہے ہیں۔
ماضی میں اس ٹیلی سکوپ کے چھ جائروسکوپ یا گردش نُما اس کی ایک کمزوری رہے ہیں، جن کا کام اس کا رخ بدلنے اور اس کو اپنے اہداف کی تصویر اتارتے وقت کسی چٹان کی طرح ساکن رکھنے میں مدد کرنا ہے۔
یہ جائروسکوپ اس تمام عرصے میں وقفے وقفے سے خراب ہوتے رہے ہیں۔
سنہ 2009 میں ہبل ٹیلی سکوپ کی مرمت کرنے کے آخری مشن کے دوران خلا بازوں کو ان چھ کے چھ آلات کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کے بعد سے تین جائروسکوپ پھر بند ہو چکے ہیں لیکن ناسا کی پراجیکٹ سائنٹسٹ ڈاکٹر جینیفر وائزمین کا کہنا ہے کہ یہ ابھی کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر تین جائروسکوپس کے ذریعے کام کیا جاتا ہے۔ لیکن انجینئرز کی مہارت کی وجہ سے ہبل ٹیلی سکوپ کو ایک کے ذریعے بھی چلایا جا سکتا ہے۔
اس بارے میں سب کو اعتماد ہے کہ ہبل 2020 کی دہائی میں بھی چلتی رہے گی۔
اس کے بعد جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ اس کی جانشین ہوگی، جسے آئندہ سال خلا میں چھوڑے جانے کا منصوبہ ہے۔
خلا میں ایک اور جدید ٹیلی سکوپ کی موجودگی سے ہبل کی افادیت بڑھ جائے گی اور اس کی اہمیت میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی ٹیلی سکوپ کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ کائنات کی عکس بندی ہبل سے زیادہ طولِ موج یا ویو لینتھ میں کر سکتی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ وہ چیزیں بھی اپنے کیمروں میں قید کر پائے گی جو ہبل کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اس کی کیمروں کی سکت سے باہر ہیں۔
دونوں ٹیلی سکوپ ایک دوسرے کے کام کو بہتر بنائیں گی اور بعض اوقات ایک ہی ہدف کا ایک ساتھ جائزہ لیں گی تاکہ اس کی زیادہ مکمل تصویر سامنے آ سکے۔
سائنسدانوں کے لیے یہ بڑی ولولہ انگیز بات ہے اور یورپی خلائی ادارے کی پراجیکٹ سائنٹسٹ ڈاکٹر اینتونیلا نوتا کا کہنا ہے کہ ایسا خاص طور پر یورپی سائنسدانوں کے لیے ہوگا جہاں ہبل سے خوب فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس منصوبے کی پہلے سے طے شدہ شرائط کے تحت یورپی ماہرینِ فلکیات کو ہبل کے ذریعے خلا کا مشاہدہ کرنے کا 15 فیصد وقت دیا جانا تھا لیکن اصل میں انھیں 22 فیصد وقت ملا۔ اور اس پورے مرحلے پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اس لیے ہمیں کبھی نشاندہی کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ یورپی خلائی ماہرین میں تخلیقی صلاحیت ہے، وہ ذہین ہیں اور وہ خلائی تحقیق میں صف اول کا کام کر رہے ہیں۔‘
ہبل کی وجہ سے سائنس کو کیا ملا؟
یہ بات ویسے تو بہت مرتبہ کہی گئی ہے لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ہبل دریافتوں کی ایک مشین ہے۔
سنہ 1990 میں اس دوربین کے خلا میں بھیجیے جانے سے پہلے سائنسدانوں کو یہ علم نہیں تھا کہ ہماری کائنات 10 ارب سال پرانی ہے یا 20 ارب سال پرانی ہے۔
ہبل کے ذریعے کسی روشنی کے مینار یا لائٹ ہاؤس کی طرح دھڑکتے ستاروں سے اس بے یقینی کو کم کرنے میں مدد ملی ہے اور اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کائنات کی عمر 13 اعشاریہ آٹھ ارب سال ہے۔
اسی دوربین کی وجہ سے یہ علم ہو سکا ہے کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اور اس دریافت پر نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ اسی دوربین کی بنیاد پر یہ ٹھوس ثبوت بھی ملا تھا کہ کہکشاؤں کے مرکز میں انتہائی بڑے بلیک ہولز موجود ہیں۔
یہ بھی کتنی حیران کن بات ہے کہ ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجے جانے سے پہلے سائنسدان نظامِ شمسی سے باہر موجود کسی ایک بھی سیارے یا ’ایکسو پلینٹ‘ کا پتا نہیں لگا پائے تھے۔
ہبل کے ذریعے آج ان دور دراز دنیاؤں کی فضاؤں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہاں پر حالات کیسے ہیں۔
اب گو کہ چمکتی دمکتی آٹھ آٹھ میٹر بڑی زمینی دوربینیں کچھ شعبوں میں ہبل کی برابری یا اس کو پیچھے چھوڑ سکتی ہیں، لیکن تحقیق کے بعض شعبوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور خلا کی گہرائیوں میں جھانکنے میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اس کے ذریعے ’ڈیپ فیلڈ‘ مشاہدے، جن میں آسمان کے کسی مخصوص حصے کو کئی دن تک مسلسل دیکھا جا سکتا ہے، اس سے بہت دور دراز اور انتہائی مدھم کہکشاؤں کی شناخت کرنے میں مدد ملی ہے، اور یہ فلکیات کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
اس تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ’بگ بینگ‘ کے چند کروڑ سال بعد ہماری کائنات کس طرح کی تھی۔
اگلے سال خلا میں بھیجی جانے والی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ زیریں سرخ شعاؤں کو دیکھ سکنے والے آلات کی بدولت اس سے بھی گہرائی میں جا کر دیکھ سکے گی
کیتھرین سلیوان ان خلا بازوں میں شامل تھیں جو 25 اپریل 1990 کو ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا میں 612 کلومیٹر کی بلندی لے جا کر مدار میں چھوڑنے والی خلائی شٹل ڈسکوری پر سوار تھے۔ یہ ساری یادیں انھوں نے اپنی نئی کتاب ہینڈ پرنٹس آن ہبل میں رقم کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہبل کا سائنس پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’لیکن جس چیز کا انھیں اپنی کتاب لکھنے کے دوران اندازہ ہوا، وہ یہ کہ ہبل سے حاصل شدہ خوبصورت تصاویر اور ان کے ذہن الجھا دینے والے نتائج سے خلا کے بارے میں سوچ اور تصورات کس طرح ہماری ثقافت میں سرایت کر گئے ہیں۔‘
’میں ہبل کی تصاویر اشتہارات میں، شرٹس پر، لنچ بکس پر، جسم پر ٹیٹوز اور ہر جگہ دیکھتی ہوں۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہبل نے اپنا کام اس دور میں شروع کیا جب انٹرنیٹ وہ شکل اختیار کر رہا تھا جس میں اسے ہم آج جانتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے یہ تمام تصاویر سیدھی لوگوں کے سامنے آگئی ہیں۔‘