کالم/مضامین

ممبر: کراچی یونین آف جرنلسٹ، کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی

*کالمکار:جاویدصدیق*

*جرنلسٹ، کالم کار، محقق، تجزیہ نگار کراچی*

*ممبر: کراچی یونین آف جرنلسٹ، کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی*

*ٹائٹل: بیدار ہونے تک*

*عنوان :فتنہ باز لبرل اور مشنریز اسکول*

معزز قائین جب ہماری درس گاہیں ہی منفی کاروائیوں میں ملوث ہونگیں تو ہمارے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہوگا اس کا آپ سب بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔آج میں اپنے کالم کو ان فتنے باز مشنریز اور لبرل اسکولوں کی جانب قلم اٹھاؤنگا انہی اسکولوں میں سٹی اسکول ، کراچی گرامر سمیت بیشمار اسکولز ہیں وہیں بیکن ہاؤس بھی منفی سرگرمی میں ملوث پایا گیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہےکہ کوئی اسکول کسی ریاست کو شکست دے دے؟بیکن ھاؤس کا نام سب سے پہلے سوشل میڈیا پر تب گردش میں آیا جب طلباء و طالبات کی مخلوط ڈانس محفلوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں پھر وہاں کے پڑھائے جانے والے نصابی کتب کے اسکرین شاٹس شیئر ہوئیں جنمیں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں انکو *انڈین اسٹیٹس* لکھا گیا تھا اور یہ معاملہ کسی ایک کتاب تک محدود نہیں تھا بلکہ تقریباً تمام کلاسسز کی تمام کتابوں میں تھا جنکے خلاف سوشل میڈیا، میڈیا حتی کہ سپریم کورٹ کے احکامات بھی بے اثر ثابت ہوئے، بیکن ھاؤس اور اسکے ذیلی ادارے *دی ایجوکیٹر* میں انڈین سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا۔ سن انیس سو چھیانوے میں ان اسکولوں میں *ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل فائنیس گروپ* نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا اسکول ہے۔ ایک اندازے کیمطابق بیکن ھاؤس ماہانہ پانچ تا چھ ارب اور سالانہ ساٹھ تا ستر ارب روپے پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے، یہ پاکستان کےسابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی بیگم نسرین قصوری کی ملکیت ہے اسکول کو انکا بیٹا قاسم قصوری چلاتا ہے، یہ خاندان اس تعلیمی ادارے کی بدولت کھرب پتی بن چکاہے،خورشید محمود قصوری وہی ہیں جس نے پندرویں آئینی ترمیم (شریعہ بل) کیخلاف احتجاجاً استعفی دیا تھا۔(شائد اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے) *لبرل ازم کا علمبرادار بیکن ھاؤس* ہر سال پاکستانی سوسائٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم چار لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جنمیں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹس، صحافی، سیاستدان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لا دین ہے، وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جنکی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔(جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جز ہے) پاکستان کے اعلی ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلباء کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے، اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتا۔اگر بیکن ھاؤس اسی رفتار سے کام کرتا رہا تو آنے والے پانچ سے دس سالوں میں پاکستان ایک لبرل ریاست بن چکا ہوگا جسکے بعد اسکے وجود کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون ایاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں کہ *ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز (پروفیسرز اور لیکچررز) گھسادئیے ہیں جو تمھاری نئی نسل کےان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے*۔۔۔۔ معزز قارئین!! انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگوگے، انہیں تمہارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظرآؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگےگا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگےگا اور وہ تمہارے بزرگوں کو احمق جانیں گے وہ تمہارے رسول ﷺ پر بھی بدگمان ہوجائیں گے حتی کہ تمہارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے بیکن ھاؤس نے تعلیم کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اسکو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس *عفریت* کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں، یہ کام ہم سب نے ملکرکرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ دیگر مشنری اور این جی اوز کی آڑ میں چلنے والے لبرل مہنگے ترین اسکولوں کا احاطہ کرنا ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ ان اسکولوں میں پس پشت منفی سوچ اور منفی عزائم کو بےنقاب کرنا ہم عوام کی بھی حکومت کیساتھ ساتھ ذمی داری عائد ہوتی ہے۔

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You