اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں

ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں –

ہم ملکی وے کہکشاں (Milky Way Galaxy) میں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم اسی کہکشاں کے باشندے ہیں۔ یہ کہکشاں ارب ہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔ اکثرہمارا واسطہ اس قسم کے سوالوں سے پڑتا ہے کہ ہم انسان یہاں کیسے آئے؛ اور یہ کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا وغیرہ۔ انسانیت کا مستقبل اورمقدّرتو اسی کہکشاں کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات (Observable Universe) میں لگ بھگ دو کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔ (یہ ایک محتاط اندازہ ہے بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد چار کھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہے۔ مترجم) ان میں سے ہر کہکشاں اپنی اپنی جگہ منفرد، متحرک، اور نہایت عظیم الشان ہے۔ کہکشاؤں کی پوری زندگی بہت ہنگامہ خیز ہوتی ہے۔ ان کا جنم، ان کا ارتقاء اور ان کی موت، غرض سب ہی کچھ نہایت پُرہنگام اور خوفناک حالات میں ہوتا ہے۔ کہکشاؤں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ وہ کیسے ارتقاء پذیر ہوتی ہیں؟ ان کا مستقبل کیا ہے؟ اوران کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ یہ سوالات وہ ہیں جو اکثرہمارے ذہنوں میں آتے ہیں؛ اور جن کے جوابات جاننے کےلئے ہم بے چین رہتے ہیں۔

ہماری اپنی کہکشاں کی عمر تقریباً بارہ ارب سال ہے۔ یہ ایک عظیم الشان ٹکیہ (Disk) کی مانند ہے جس کے مرغولہ نما (Spiral) دیوہیکل بازو ہیں؛ اور ٹکیہ کے بیچوں بیچ ایک گومڑ (Bulge) سا موجود ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١)۔ یہ اُن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جو ہماری کائنات میں موجود ہیں… وہ کہکشائیں جن میں سے کئی کے بارے میں جاننے کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔

ہر کہکشاں دراصل ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب (۱۰۰ اَرب) ستارے ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کا زچہ خانہ اور قبرستان، دونوں ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ ستارے کسی کہکشاں کے اُس حصّے میں بنتے ہیں جہاں گرد اور گیس (Dust and Gas) کے عظیم الشان بادل موجود ہوتے ہیں؛ جنہیں ہم ‘‘سحابیہ’’ (Nebulae) کہتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں بھی ارب ہا ارب ستارے ہیں؛ اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں… یعنی ہمارے نظامِ شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ تو پھر پوری کائنات کا کیا عالم ہوگا؟

خیر! خاصے عرصے تک ہمیں کہکشاؤں کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ایک صدی پہلے ہی کی بات ہے جب ہم صرف ملکی وے کہکشاں ہی کو ساری کی ساری کائنات سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں نے اس کا نام ‘‘جزیرہ کائنات’’ رکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق کوئی دوسری کہکشاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی! ۱۹۲۴ء میں ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) کی دریافت نے ہر چیز بدل کر رکھ دی۔ ہبل اس وقت کی جدید ترین دوربین سے خلائے بسیط کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اس دوربین کے آئینے کا قطر ۱۰۰ اِنچ تھا؛ اور یہ امریکی شہر لاس اینجلس کے نزدیک، ماؤنٹ ولسن (Mount Wilson) پر ایک رصدگاہ میں نصب تھی۔ اس نے خلاء میں، دور بہت ہی دور، روشنی کے دھندلے سے گولے دیکھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی ستارے نہیں۔ ہماری کہکشاں سے بہت زیادہ فاصلے پر، یہ تو ستاروں کی پوری کی پوری بستیاں تھیں۔

ماہرین فلکیات کےلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ صرف ایک سال پہلے تک ہماری پوری کائنات صرف ملکی وے پر مشتمل تھی؛ مگر اب وہ لاتعداد کہکشاؤں کا گھر بن گئی تھی۔ ہبل نے فلکیات کے میدان میں ایک عظیم الشان دریافت کرلی تھی۔ کائنات میں صرف ایک نہیں بلکہ لاتعداد کہکشائیں تھیں!

کہکشاؤں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ گردابی کہکشاں (Whirlpool Galaxy)، بیضوی کہکشاں (Elliptical Galaxy)، چھلے (Ring) کی شکل والی کہکشاں، مرغولہ نما (Spiral) کہکشاں وغیرہ۔ مثلاً ایک کہکشاں جسے ‘‘میسنر کٹیلاگ کی 87 ویں کہکشاں’’ یا مختصراً صرف M-87 کہا جاتا ہے، ایک بیضوی کہکشاں ہے۔ یہ اب تک دریافت ہونے والی، قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کے ستاروں کی روشنی سنہری مائل ہے۔ ایک اور کہکشاں ‘‘سومبریرو’’ (Sombrero) کہلاتی ہے۔ اس کا نظارہ نہایت شاندار ہے۔ اس کا مرکز نہایت بڑا اور روشن ہے جس کے اطراف گیس اور گرد کے بادلوں کا ایک بڑا سا ہالا بنا ہوا ہے۔ کہکشائیں دیکھنے میں بے حد حسین نظر آتی ہیں۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھرکیوں کی طرح چکراتی اور وسیع و عریض خلاء میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسی شاندار آتش بازی کا نمونہ لگتی ہیں جو صنّاعِ فطرت نے گویا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصاویر نمبر٢،٣ اور ٤۔)

ہمارے لئے کہکشائوں کی وسعت کا تصور کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں۔ مگر خلاء میں فاصلہ ‘‘نوری سال’’ میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال (Light Year) کہلاتا ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل سے ذرا ہی کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز (کہکشانی مرکز) سے خود ہمارا فاصلہ بھی پچیس ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر ملکی وے کی ہی بات کریں، جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشائوں میں ہوتا ہے، تو اس کی چوڑائی بھی تقریباً ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائناتی صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرّے کی مانند ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی لگتی ہے، لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں خاصی چھوٹی ہے۔ مثلاً اینڈرومیڈا (Andromeda) کہکشاں جسے عربی میں ‘‘مراۃ المسلسلہ’’ بھی کہا جاتا ہے، اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے، اس کی چوڑائی (قطر) تقریباً دو لاکھ نوری ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔

M-87 کا تذکرہ ہم کچھ پہلے کرچکے ہیں۔ یہ ایک بیضوی کہکشاں ہے جو اینڈرومیڈا کے مقابلے میں بھی خاصی بڑی ہے۔ لیکن پھر بھی IC-1101 نامی کہکشاں کے مقابلے میں نہایت چھوٹی سی ہے۔ IC-1101 کہکشاں اب تک کی دریافت ہونے والی، سب سے بڑی کہکشاں ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے تقریباً ساٹھ گنا بڑی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٥۔)

اب تک ہم جان چکے ہیں کہ کہکشائیں بہت وسیع و عریض ہوتی ہیں؛ اور یہ خلاء میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ فلکی طبیعیات کا اہم سوال ہے کہ کہکشائیں کہاں سے آئی ہیں۔ ہم اب تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ یہ انتہائی گرم اور بے انتہاء کثافت والا مرحلہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ تب کہکشاں جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوسکتی تھی۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ کہکشائیں بہت بعد ہی میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اپنے آپ میں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے؛ اور کائنات میں اوّلین ستارہ، بگ بینگ کے بیس کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔ قوتِ ثقل (Gravity) نے ایسے اربوں اوّلین ستاروں کو بتدریج یکجا کرنا شروع کیا… اور آخرکار کائنات میں اوّلین کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) ہمیں ماضی کے اس اوّلین دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ جب کہکشائیں وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔ آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں، وہ دراصل ان کا ستاروں کا ماضی ہوتا ہے: وہ ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے، آج کی تاریخ میں اُن سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہوگی… اور وہ روشنی ہمیں ان ستاروں کے اتنے ہی قدیم ماضی کی خبر دے رہی ہوگی۔ جب ہم ‘‘ہبل ڈیپ فیلڈ’’ (Hubble Deep Field) نامی دوربین میں جھانکتے ہیں (جو ہبل خلائی دوربین ہی کا ایک اہم حصہ ہے) تو ہمیں کہکشائیں چھوٹے چھوٹے دھبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

وہ دور دراز ماضی کی کہکشائیں، آج کی قریبی کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہکشائیں روشنی کے چھوٹے دھبوں جیسی لگتی ہیں جن میں ہم بمشکل فرق کر پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٦)۔ ایسے ہر دھبے میں کروڑوں یا اربوں ستارے ہیں، جنہوں نے قوّت ثقل کے زیر اثر ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ یہ دھندلے دھبے اوّلین کہکشائیں ہیں؛ جو بگ بینگ کے لگ بھگ ایک ارب سال بعد بننا شروع ہوئیں۔ لیکن ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائناتی ماضی میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے۔ اس میں اور زیادہ آگے تک، کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہمیں مزید دور تک ماضی میں جھانکنا ہو، تو اس کیلئے ہمیں مختلف قسم کی، اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور دوربین کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک ایسی دوربین ہونی چاہئے جو اب تک کی سب سے بڑی دوربین ہو۔
Courtesy:تجسس سائنس فورم
منقول: انجینئر منیر بٹ

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You