اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جس میں نیا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ وفاقی میزانیے کا حجم سات ہزار چھ سو ارب، ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار تین سو چوبیس ارب جبکہ انسداد کورونا کے لیے ستر ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر صنعت وپیداوار حماد اظہر کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اسے وبا کے باعث مشکلات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔
کرپشن کا خاتمہ، سرکاری اداروں میں شفافیت اور احتساب کا عمل
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران کرپشن کا خاتمہ، سرکاری اداروں میں شفافیت اور احتساب کا عمل جاری ہے۔ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔ دو سال کے دوران کرپشن کا خاتمہ اور احتساب رہنما اصول رہے۔ بی آئی ایس پی میں 8 لاکھ سے زائد جعلی افراد کو نکالا گیا۔
شرح نمو میں بہتری کے لیے حکومتی اقدامات
حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں کہا کہ شرح نمو میں بہتری کے لیے ہر ممکن اقدام کیے۔ اقتدار سنبھالا تو ملک معاشی بحران کا شکار تھا۔ تجارتی خسارہ 32 ارب تک پہنچ چکا تھا۔ ہم سے پہلے پانچ سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب ڈالر کی انتہائی سطح پر تھا۔ ماضی میں سٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرض لیے گئے جبکہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے ماضی میں کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
پاکستانی مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی کیلئے ‘’میڈ ان پاکستان’’ پروگرام
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کرانے کے لیے ’’میڈ ان پاکستان‘‘ پروگرام شروع کیا۔ گزشتہ مالی سال میں کوئی ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی۔ سرکاری اداروں میں بہتری کے لیے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی گئیں۔ بلوم برگ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو 10 بہترین مارکیٹ میں شامل کیا۔ اصلاحاتی پروگرام پر آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کی اضافی منظوری دی۔ مالی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اہم معاشی اصلاحات کیں۔
کورونا وائرس کیخلاف حکومت کے معاشی اقدامات
انہوں نے کہا کہ معیشت کے استحکام کے لیے جو محنت کی اسے کورونا وائرس کی وجہ سے شدید دھچکا لگا۔ بدقسمتی سے اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طویل لاک ڈاؤن کے ذریعے معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ کورونا کی وجہ سے تمام صعنتیں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ حکومت نے کمزور طبقے کے لیے 1200 ارب کا پیکج دیا جبکہ طبی شعبے کیلئے 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کاروبار میں آسانی کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے۔ وزیراعظم نے چھوٹے تاجروں کو خصوصی پیکج دیا۔ تعمیراتی شعبے کو تاریخی مراعات دیتے ہوئے ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ اور اسے صعنت کا درجہ دیا گیا۔
آسان کاروبار میں اصلاحات اور دیگر اقدامات
حکومتی اصلاحات بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنشن کے نظام کو جدید بنانے سے 20 ارب کی بچت ہوگی۔ نجکاری کے عمل سے حکومت کے غیر پیداواری بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔ آسان کاروبار میں اصلاحات میں عالمی ریکنگ 136 سے 106 پر آ گئی۔ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کرکے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا۔ طویل مدتی قرضوں کے حصول میں آسانی پیدا کی گئی۔ بینکوں کو 800 ارب قرض دینے کی اجازت دی گئی۔
کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی
وفاقی وزیر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی۔ افواج پاکستان کے مشکور ہیں جس نے کفایت شعاری مہم میں بھرپور تعاون کیا۔ کمزور طبقے کے لیے احساس پروگرام کے تحت مالی معاونت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ٹڈی دل کی روک تھام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ وبا کی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ 200 ارب روپے روزانہ اجرت کمانے والوں کو دیئے گئے ہیں۔
عوامی ریلیف کیلئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
وفاقی وزیر نے کہا کہ عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ کورونا کے تدارک کے لیے 12 سو ارب روپے سے زائد کے پیکج کی منظوری دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ طبی آلات کی خریداری کے لیے 71 ارب روپے، غریب خاندانوں کے لیے 150 ارب، یمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے، آزاد جموں کشمیر کے لیے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب، خیبر پختونخوا میں ضم اضلاع کے لیے 56 ارب، سندھ کے لیے 19 ارب مختص جبکہ بلوچستان کے لیے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے 30 ارب روپے مختص
انہوں نے بتایا کہ آبی وسائل کے لیے مجموعی طور پر 69 ارب روپے، خوراک وزراعت کے لیے 12 ارب روپے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کیلئے 6 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 20 ارب روپے، قومی شاہراہوں کے لیے 118 ارب روپے، شعبہ صحت کے لیے 20 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 30 ارب روپے مختص کی گئے ہیں۔
شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز
عام دکانداروں سے سیلز ٹیکس کی شرح 12 فیصد کی تجویز ہے۔ درآمدی سگریٹ اور تمباکو پر ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد مقرر کر دی گئی ہے۔ شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ کورونا اور کینسر کی تشخیص کے آلات کی درآمد پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی ہے۔ کیفین والی مشروبات پر شرح 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد جبکہ ڈبل کیبن گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔
وزارت صحت کیلئے مجموعی طور پر چودہ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں وزارت صحت کیلئے مجموعی طور پر چودہ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پمز میں دو سو بیڈ پر مشتمل حادثات اور ایمرجنسی سینٹر بنانے کا منصوبہ، کوئٹہ میں الرجی سینٹر اور اسلام آباد میں دو سو بیڈز پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ، وزیراعظم کے پروگرام صحت سہولت پروگرام کیلئے چار ارب روپے، ای پی آئی پروگرام کیلئے دو ارب بیس کروڑ روپے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں بہبود آبادی، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی پروگراموں کیلئے فنڈز مختص کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلئے ترقیاتی بجٹ کا حجم 29 ارب 47 کروڑ روپے تجویز
نئے بجٹ میں 94 جاری منصوبوں کیلئے ساڑھے چوبیس ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی کیلیے پانچ ارب روپے مالیت کے 23 نئے منصوبے، 15.8 کروڑ روپے مالیت کا پاک یو کے نالج گیٹ وے کا منصوبہ، سمارٹ یونیورسٹیز فیز ون کیلئے ساڑھے 46 کروڑ روپے، سی پیک کنسورشیم آف یونیورسٹیز کے تحت اکیڈمک تعاون منصوبہ اور شمالی وزیرستان میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ بھی بجٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ منصوبے کی فیزیبلٹی سٹڈی کیلئے 75لاکھ روپے کے فنڈز بجٹ میں مختص کرنے کی تجویز جبکہ چترال اور تربت میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کے منصوبے بھی نئے بجٹ میں شامل کر لیے گئے ہیں۔
مختلف ٹیکسز کے ذریعے 5 ہزار 464 روپے وصولیوں کا تخمینہ
وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال میں مختلف ٹیکسز کے ذریعے 5 ہزار 464 روپے وصولیوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر کے ٹیکسز سے 4 ہزار 963 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف تجویز جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسز سے 2 ہزار 43 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔ انکم ٹیکس کی مد میں 2 ارب تین کروڑ روپے سے زائد، ورکرز ویلفئیر فنڈ سے تین ارب روپے سے زائد کے ٹیکسز، ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 2 ہزار 920 ارب سے زائد، کسٹمز ڈیوٹیز کی مد میں 640 ارب اور سیلز ٹیکس کی مد میں ایک ہزار 919 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
فیڈرل ایکسائز کی مد میں 361 ارب روپے، موبائل ہینڈ سیٹ لیوی کی مد میں پانچ ارب 80 کروڑ روپے، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس سے 15 ارب روپے اور قدرتی گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سے 10 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ پٹرولیم لیوی کی مد میں ساڑھے چار سو ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔
آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشا اور 200 سی سی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم
وفاقی وزیر حماد اظہر نے بتایان کہ آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشا اور 200 سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے جبکہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس عائد کر دیا گیا ے۔ دو لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس لینے والے تعلیمی اداروں کو 100 فیصد سے زائد ٹیکس دینا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو بھی بجٹ میں مدنظر رکھا گیا۔ ایک سال میں بیرونی محصولات پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
وفاقی بجٹ 2020- 21ء کی مکمل تفصیل