لاہور: علاقائی صورتحال میں جارحانہ عزائم کے حامل بھارت کو لداخ پر طاری کی جانے والی صورتحال الٹ پڑی ہے اور یہاں اسے چینی افواج کے ہاتھوں لینے کے دینے پڑے ہیں اور یہ صورتحال اس کی پسپائی اور خارجی محاذ پر جگ ہنسائی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ صورتحال کے حوالے سے بھارت مکمل طور پر خاموش ہے اور صرف اس موقف کا اظہار کرتا نظر آ رہا ہے کہ چین کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
2017 میں بھی بھارت اور چین کے درمیان افواج ڈوکلم کے محاذ پر آمنے سامنے آئی تھیں۔ سرحدی تنازع اس قدر سنجیدہ ہو رہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی مسلسل اپنی افواج کی قیادت سے مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں مگر باضابطہ کسی ردعمل سے گریزاں ہیں جبکہ چین اپنے علاقہ میں بھارت کی تعمیرات ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں اور اس پر اسے پسپائی پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ علاقہ میں سرحدی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ہر جگہ اس کشیدگی کا مرکزی کردار بھارت ہے اور اب بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی خطرناک صورتحال اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔
چینی سفارت کاروں کا بھارت کے حوالہ سے لہجہ تلخ ہو رہا ہے۔ پاکستان تو بھارتی طرزعمل کے جواب میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے عالمی قوتوں اور عالمی برادری کو متوجہ کرتا نظر آتا ہے۔ نیپال فی الحال براہ راست ردعمل کی پوزیشن میں نہیں۔ البتہ چین بھارت کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں اور اسے مزا چکھانے پر مصر نظر آتا ہے۔ پاکستان اس حوالہ سے الرٹ ضرور ہے کہ وہ سی پیک کے حوالہ سے بھارت کے مذموم عزائم جانتا ہے اور گلگت بلتستان پر بھارت کی مہم جوئی کو خارج از امکان نہیں سمجھتا کیونکہ وہ سی پیک کے زیرو پوائنٹ کو ختم کرنے کے حوالہ سے بھارتی مقدمہ سے واقف ہے لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ چین کی طرح پاکستان بھی اپنے مفادات کے حوالہ سے الرٹ ہو اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھے اور اسے باور کرائے کہ اب اسے محاذآرائی کے بجائے اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ حالات کا ذمہ دار بھی خود بھارت ہوگا۔
1962 کی جنگ میں پاکستان کے امریکی سگنلز پر غیر جانبدارانہ کردار اختیار کیا تھا کیونکہ امریکا نے بھارت کو بچانے کیلئے پاکستان کو مسئلہ کشمیر حل کروانے کا عندیہ دیا تھا لیکن یہ مرحلہ گزر جانے کے بعد امریکی طرزعمل اور وعدوں کی حیثیت وہی ہوگی کہ رات گئی بات گئی اور بعدازاں اس نے دہشت گردی کی جنگ میں بنیادی کردار کے حامل پاکستان کو چھوڑ کر اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی آشیرباد پر فرنٹ لان کنٹری کا کردار ادا کرنے والا پاکستان امریکی کردار کو دیکھتا رہ گیا لہٰذا لداخ پر پیدا شدہ صورتحال میں اب ہمیں غیر جانبدار رہنے کے بجائے اپنے مفادات کو یقینی بنانے کا وقت آ گیا ہے اور ہمیں واشنگٹن کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنے مفادات میں بیجنگ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا کیونکہ لداخ کو گرم کرنے والا بھارت آنے والے وقت میں گلگت و بلتستان پر حملہ سے گریز نہیں کرے گا اور خصوصاً آزادکشمیر کے حوالہ سے بھی اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں اور بھارت نے اپنے طرزعمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ شرافت کی زبان نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا سفارتی یا سیاسی دباؤ کارگر ہوتا ہے اوراب لداخ پر بھی اس نے خاموشی صرف اس لئے اختیار کی کہ چین نے بھارت کو سبق سکھانے کیلئے اپنا آپ دکھایا ہے اور آج چینی فوج کے ردعمل کے بعد بھارت علاقائی صورتحال میں تنہائی، لداخ پر پسپائی اوربین الاقوامی محاذ پر جگ ہنسائی کا سامنا کر رہا ہے۔