
اسے اپنی اس سہیلی سے ملنے سے روک دیا گیا تھا جسے وہ بچپن سے جانتی تھیں اور جسے ملے بغیر وہ ایک دن بھی نہیں رہتی تھی۔ چند روز سے نبیلہ نے اپنی سہیلی مقدس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔
کچھ دن پہلے وہ اچانک ساتھ والے گھر کی چھت پھلانگ کر مقدس کے گھر پہنچ گئیں اور اس سے تکرار شروع کر دی۔ مقدس کی والدہ اس کی شکایت کرنے پاس ہی واقع اس کے گھر پہنچیں۔ لیکن ان کے اپنے ہی گھر میں موجود نبیلہ نے اچانک دو پستول نکالے اور دونوں سے بیک وقت مقدس پر فائرنگ کر دی۔
مقدس موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک گولی اس کی چچی کو بھی لگی جو مقدس کو بچانے کے لیے دوڑی تھیں۔ فائرنگ کرنے کے بعد نبیلہ وہاں سے نکل کر صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد تحصیل چک جھمرہ میں اپنے چچا کے گھر پہنچی، مگر چچا کے گھر اسے پناہ نہیں ملی اور وہاں سے اسے نکال دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
قاتل عورتیں: کیا عورتیں بھی مردوں کی طرح ہی کی قاتل ہوتی ہیں؟
پانچ سب سے خطرناک جاسوس خواتین
افغان لڑکی جس نے والدین کے قاتل طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا
سگے باپ کو قتل کرنے والی لڑکی رہا
کچھ ہی دیر بعد پولیس نے نبیلہ کو سڑک پر سے ہی گرفتار کر لیا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ نبیلہ نے زہر کھا رکھا تھا اور اس کی حالت بگڑ رہی تھی۔ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکی تھی۔
قتل کے بعد خودکشی کے اس واقع کی تحقیقات کرنے والے پولیس کے تفتیشی افسر ارشد چٹھہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر نبیلہ نے اپنی دیرینہ سہیلی کے قتل سے خود کشی تک سب منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
نبیلہ
،تصویر کا کیپشن
نبیلہ جس نے قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی
’جب اسے چچا کے گھر سے نکالا گیا تو وہ اسی وقت ہی ڈول رہی تھی اور گر رہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنی سہیلی کو قتل کرنے کے فوراً بعد ہی زہر کھا لیا تھا جو کہ اس کے پاس موجود تھا۔‘
پولیس کے تحقیقاتی افسر کے مطابق نبیلہ اپنی سہیلی مقدس کو قتل کرنے اور پھر بعد میں خودکشی کا ارادہ کرنے کے بعد ہی چھت پھلانگ کر مقدس کے گھر میں داخل ہوئی تھی اور یہ تمام کارروائی بظاہر اس نے اکیلے ہی کی تھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نبیلہ نے محض مقدس سے ملنے سے روکنے پر اس قدر شدید ردِ عمل ظاہر کیا کہ اپنی بچپن کی سہیلی کو قتل کر کے خود کو بھی ختم کر لیا؟
پولیس کے لیے یہ بھی ایک معمہ ہے کہ نبیلہ نے قتل میں استعمال ہونے والے پستول کہاں سے حاصل کیے اور بظاہر ایک گھریلو لڑکی نے بیک وقت دو پستولوں سے فائرنگ کیسے کی؟
مکان کی چھت
نبیلہ چھت سے کود کر مقدس کے گھر آئی جہاں اس نے اپنی سہیلی کو قتل کر دیا
‘آپ کو پتہ ہے میری چار منگنیاں ٹوٹ چکی ہیں’
حال ہی میں نبیلہ اور مقدس کے درمیان سماجی رابطوں کی موبائل ایپلیکیشن واٹس ایپ پر ہونے والی مبینہ بات چیت کے سکرین شاٹس سامنے آئے ہیں۔ ان کی اس گفتگو میں بظاہر کچھ اشارے بھی ملتے ہیں۔
ایک پیغام میں مبینہ طور پر مقدس اپنی سہیلی نبیلہ کو لکھتی ہیں ’آپ کو پتہ ہے میری چار منگنیاں ٹوٹی ہیں، اگر یہ بھی ٹوٹ گئی تو اللہ کی قسم میں بہت ذلت کی موت مروں گی۔‘ اس پر نبیلہ لکھتی ہے کہ ’چپ کر ایسا مت بول۔‘
گاؤں کے چند رہائشیوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔ ایک رہائشی نے بتایا کہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ نبیلہ کی وجہ سے مقدس کی پہلے بھی منگنیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ’اس کے بعد ہی مقدس کے گھر والوں نے نبیلہ پر ان کے گھر آنے اور مقدس سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ دونوں بچپن میں اکٹھے پڑھتی تھیں اور ان میں بہت گہری دوستی تھی۔ دونوں تقریباً پڑوسی تھیں اور نبیلہ کئی مرتبہ مقدس کے گھر رات کو بھی رک چکی تھی۔
پستول
’وہ لڑکوں جیسا لباس پہنتی تھی‘
گاؤں کے دو اور افراد نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی۔ انھوں نے بتایا کہ دونوں میں انتہائی گہری دوستی تھی۔ نبیلہ بے باک سی طبیعت کی مالک تھی۔ ‘وہ زیادہ تر لڑکوں کی طرز کا لباس پہنتی تھی اور اسے کئی مرتبہ ایسی جگہوں پر بھی دیکھا گیا تھا جہاں لڑکے اکٹھے بیٹھتے تھے۔‘
گاؤں کے ایک رہائشی کے مطابق نبیلہ نہیں چاہتی تھیں کہ مقدس کی شادی ہو۔ ’جب بھی مقدس کی منگنی ہوتی، نبیلہ کوئی نہ کوئی کام ایسا کرتی تھی کہ یہ منگنی ٹوٹ جاتی۔ اس طرح اس کی تین چار منگنیاں یہ ختم کروا چکی تھی۔‘
حال ہی دوبارہ مقدس کی منگنی طے پائی تھی اور اس کے گھر والوں کو خدشہ تھا کہ نبیلہ اس کو بھی ختم کروانے کی کوشش کرے گی، اس لیے انھوں نے نبیلہ کے مقدس کے گھر آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
’پری، میں گر گئی ہوں اس کی نظروں میں‘
گاؤں کے ایک رہائشی کے مطابق مقدس کے بھائی خصوصاً ان کا میل جول پسند نہیں کرتے تھے اس لیے انھوں نے بھی دونوں کے ملنے پر پابندی لگائی تھی۔
ان کے سامنے آنے والے واٹس ایپ کے پیغامات میں ایک جگہ مقدس اسی حوالے سے نبیلہ کو لکھتی ہیں ‘پری، میں گر گئی ہوں اس کی نظر میں۔ وہ کہتا ہے تم نے میرا اعتبار توڑا ہے ۔۔۔ ساری رات اپنے رب سے پوچھا کہ میرے کتنے امتحان لے گا۔‘
مقدس بظاہر اپنے بھائی کے حوالے سے بات کر رہی تھی۔ تاہم اس کے جواب میں نبیلہ نے لکھا کہ ’پلیز ایسا مت بول۔ کہہ کہ اس میں گرنے والی کیا بات ہے۔ وہ کافر تو نہیں انسان ہی ہے، بات کر لی تو کیا ہوا۔ تم مجھے اب سزا دو گے۔‘
گاؤں کے رہائشی کے مطابق نبیلہ اس بات سے ناخوش تو تھی لیکن مقدس کو قتل کرنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہو سکتی۔ ’نبیلہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ مقدس کی شادی کسی اور سے ہو۔ وہ کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکی تھی کہ وہ اس کی شادی کسی سے نہیں ہونے دے گی۔‘
پولیس کیا کہتی ہے؟
پولیس کے تفتیشی افسر ارشد چٹھہ کے مطابق تحقیقات تاحال انتہائی ابتدائی سطح پر ہیں، تاہم ان کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں آئی جس سے یہ معلوم ہو کہ نبیلہ نے مقدس کی منگنیاں تڑوائی تھیں۔ لیکن وہ اس پہلو کو بھی تحقیقات کا حصہ بنائیں گے۔
تاہم انھوں نے بھی یہ بات دہرائی کہ نبیلہ گاؤں کی دوسری لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ ’اس کے ماں باپ مر چکے تھے اور شاید معاشرتی رویوں کی وجہ سے وہ ایسی ہو گئی ہو گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ نبیلہ لڑکوں جیسا حلیہ بنا کر رکھتی تھی اور ان جیسا لباس پہنتی تھی۔ تاہم اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں تھے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا بھی لڑکوں کے ساتھ تھا۔
مقدس کے بھائی نے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کے لیے دی جانے والی درخواست میں وجہ بتائی ہے کہ ’نبیلہ کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا اس لیے انھوں نے اپنی بہن کو اس سے ملنے سے روکا تھا۔‘
کیا واٹس ایپ کے پیغامات اصل ہیں؟
ارشد چٹھہ نے بتایا کہ انھیں بھی دونوں لڑکیوں کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ کی گفتگو کے سکرین شاٹ موصول ہوئے ہیں تاہم وہ اس وقت تک ان کے درست ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے جب تک فرانزک کے ذریعے ان کی تصدیق نہیں ہو جاتی۔
’ہمیں تاحال قتل ہونے والی لڑکی کا فون نمبر نہیں مل پایا۔ لیکن ہم اس کے فون کا ریکارڈ بھی حاصل کریں گے اور اس کو تفتیش کا حصہ بنائیں گے۔‘
ارشد چٹھہ کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’دونوں لڑکیوں میں بہت گہری دوستی تھی جیسی دو لڑکیوں میں ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کو ملنے سے روکنے پر وہ خوش نہیں تھیں۔’ تاہم کیا یہی بات قتل کی وجہ بنی یہ مزید تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو پائے گا۔
کیا لڑکی نے اکیلے دو پستولوں سے فائرنگ کی؟
دوسرا پستول
نبیلہ نے دونوں پستولوں سے گولیاں چلائیں اور پھر انھیں پھینک دیا
انھوں نے بتایا کہ نبیلہ نے خود ہی منصوبہ بنایا اور خود ہی اس پر عملدرآمد کیا۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔
’یہ نہیں معلوم ہو پایا کہ لڑکی نے پستول کہاں سے حاصل کیے۔ ایک پستول کے چیمبر میں گولی پھنسی ہوئی تھی جو بعد میں ہم نے نکالی تھی۔ لڑکی نے دونوں پستولوں سے بیک وقت فائرنگ کی تھی۔‘
پولیس کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ پستول میں گولی پھنس جائے تو وہ اپنے منصوبے پر عملدرآمد نہ کر سکے۔
واقعہ کا احوال سناتے ہوئے مقدس کی والدہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ جب نبیلہ چھت کے ذریعے ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ان کی بیٹی سے تکرار شروع کر دی تو وہ اس کی شکایت کرنے کے لیے جلدی سے اس کے گھر گئیں۔
لیکن جب وہ واپس آئیں تو انھوں نے صحن میں اپنی بیٹی کی لاش پڑی دیکھی اور پاس ہی لڑکی کی چچی زخمی حالت میں گری پڑی تھیں۔ پولیس کے مطابق بظاہر نبیلہ نے قتل کرنے کے فوراً بعد ہی چوہے مار گولیاں کھا لی تھیں جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھیں۔
فیصل آباد کے اس نواحی گاؤں میں لوگ اب بھی ششدر ہیں۔ پولیس افسر ارشد چٹھہ کے لیے بھی یہ اپنی نوعیت کا ایک واقعہ ہے۔ آخری مرتبہ کئی برس پہلے ان کے سامنے ایک ایسا واقع آیا تھا جس میں ایک خاتون نے اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کسی کو قتل کیا تھا۔