فلکیات کا شوق انسان کو ہر زمانے میں رہا ہے. وہ الگ بات ہے کہ یہ شوق
فلکیات کا شوق انسان کو ہر زمانے میں رہا ہے. وہ الگ بات ہے کہ یہ شوق
اپنی بہت سی اشکال میں سامنے آیا پر یہ حقیقت میں فلکیات ہی تھی. پہلے زمانے میں انسانوں کے پاس وہ ٹیکنالوجی تو تھی نہیں ،جو آج ہمارے پاس ہے، اس لئے انہوں نے اپنے آس پاس ہونے والی ہلچل کو دیکھ کر ان کے بارے میں مشاہدات کرنا شروع کردیے. چونکہ قدیم زمانے میں نہ تو خردبینیں تھیں اور نہ ہی دوربینیں اس لئے جن چیزوں کو ننگی آنکھ سے دیکھا جاسکتا تھا ان میں بلخصوص اور ان دیکھی چیزوں کے بارے میں بالعموم مشاہدات شروع ہوئے.
لیکن ایک بات جو مجھے، آپ کو اور باقی تمام انسانوں کو اور زیادہ مشاہدات کرنے پہ مجبور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم انسان کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو تو جاننے کی کوشش کرتے ہیں پر انسان تو صرف 2 لاکھ سال پہلے ہی بنے ہیں تو اس سے پہلے کیا تھا، کیا نہیں تھا، اس پر مشاہدات تو کئے جاچکے ہیں لیکن کائنات کے بننے سے لے کر آج تک اتنے واقعات ہوئے ہیں، پھر جا کے کہیں یہ کائنات وجود میں آئی جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں.
کائنات کے مرض وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک کے تمام واقعات اگر ہم کسی کورس یا لیکچر کی صورت میں بتانا شروع کریں تو اس کام کے لئے پتا نہیں کتنا وقت چاہئے ہوگا کیوں کہ 13.8 ارب سالوں پہ محیط واقعات کو درجہ بہ درجہ سمجھانا کوئی آسان کام نہیں ہے. پر اگر ہم 13.8 ارب سالوں کو سوکیڑھ کر ایک سال پر محیط ایک کیلنڈر بنا لیں جس کا ہر مہینہ تقریبآ ایک ارب سال کے برابر ہو اور اس کا ہر دن تقریبآ چار کروڑ سالوں پی برابر ہو. اس کیلنڈر سے سمجھنا زیادہ آسان ہوگا کیوں کہ ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں کیلنڈر کے تمام مہینوں کے ناموں سے اچھی طرح واقف ہیں. چونکہ اس پورے کیلنڈر میں کائنات کی پیدائش سے لے کر آج تک کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے اس لئے ماہرین نے اس کو ’کائناتی کیلنڈر‘ کا نام دیا ہے.
1جنوری:
کائناتی کیلنڈر میں سال کے آغاز میں ایک دم سے پھیلاوں شروع ہوا جس سے آج پوری کائنات میں موجود انرجی، مادہ اور وقت وجود میں آیا. اس کو ’بگ بینگ‘ کا نام دیا گیا . پھیلاوں سے پہلے یہ تمام انرجی، مادہ اور وقت کسی ایٹم میں موجود الیکٹران کے سائز کے سویں حصّے کے برابر جگہ میں قید تھے. اتنی چوٹی سی جگہ میں انرجی کی بہت زیادہ مقدار جب قید ہوتی ہے تو اس جگہ میں موجود ذروں کے درمیان کشش ثقل ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجاے اس سے الٹ کام کرنا شروع ہو جاتی ہے اور یہی اس پھیلاوں کی وجہ بنی.
10 جنوری:
بگ بینگ کے بعد تمام کائنات کا درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوا اور اسی کے ساتھ ہی 20 لاکھ سالوں تک مکمل تاریکی چھایی رہی. پر تاریکی چھانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کائنات میں اس وقت کوئی ہلچل نہیں ہو رہی تھی، بلکہ بگ بینگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہائیڈروجن اور ہیلیم کے بادل موجود تھے اور اسی کے ساتھ ان میں موجود کشش ثقل ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹموں کو آپس میں جوڑ رہی تھی جس سے ستارے بنے. ان ستاروں کے بننے سے کائنات میں بگ بینگ کے بعد چھا جانے والی تاریکی کو زوال آیا اور کائنات میں ان ستاروں کی بدولت روشنی پیدا ہوئی.
13 جنوری:
ان نومولود ستاروں کے درمیان کشش نمایاں ہوئی اور یہ ستارے چھوٹے چھوٹے جھرمٹوں میں جمع ہونے لگے. ان جھرمٹوں کو کہکشاں کہا جاتا ہے. تو کائناتی کیلنڈر کے پہلے مہینے کی 13 تاریخ کو سب سے پہلی کہکشائیں وجود میں آئیں اور ان کہکشاؤں کے ملنے سے بڑی کہکشائیں بنی.
15 مارچ:
چھوٹی کہکشاؤں کے ملنے سے بڑی کہکشائیں بنتی چلی گئیں اور 15 مارچ کو ہماری اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے وجود میں آئی. ہر ایک کہکشاں میں کروڑوں اربوں ستارے ہوتے ہیں، ہماری کہکشاں میں بھی تھے اور ہیں بھی، لیکن ملکی وے کے بننے کے بعد یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کہکشاں کے اربوں ستاروں میں سے وہ ستارہ کونسا ہے جس کے طلوع ہونے سے ہماری صبح اور اس کے غروب ہوجانے سے ہماری رات ہو جاتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہماری کہکشاں کے بننے کے بعد بھی ہمارا سورج ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا تھا.
اب کائنات میں بہت سے اور ستارے بننا شروع ہوئے اور بہت سے بڑے ستارے پھٹنا شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں موجود حاصل شدہ مادہ دوسرے چھوٹے ستاروں میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا.
31 اگست:
ہمارے سورج کی سالگرہ بھی اسی دن ہے. آج سے تقریبآ 4.5 ارب سال پہلے ہمارا سورج بنا. اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا جسم جو، آج ہم سب کو زندگی بخشتا ہے، خود اس کائنات کے بننے کے تقریبآ 9 ارب سال بعد بنا ہے، پر ذرا ٹھہرے! ابھی نہ تو زمین بنی ہے، نہ چاند، نہ چاند کی چاندنی اور نہ ہی اس چاندنی کو دیکھنے والا انسان!
21 ستمبر:
اب ایک آگ کی طرح گرم اور کسی آتش فشاں کی طرح لال گول جسم سورج کے گرد گھومنا شروع ہوا. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ناجانے کس چیز کی بات کر رہا ہوں. یہ چیز کچھ اور نہیں بلکہ وہ جگہ ہے جہاں میں اور آپ رہتے ہیں اور اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں. یعنی 21 ستمبر کو ہماری اپنی زمین وجود میں آئی لیکن یہ اس وقت کسی آتش فشاں سے بھی کہیں زیادہ گرم تھی کہ یہاں زندگی کا کوئی نام و نشان موجود ہونے کے امکانات نہیں تھے. زمین گھومتی گھومتی ٹھنڈی ہونے لگی کہ اچانک سے نظام شمسی میں سے ایک سحاب ثاقب آکر زمین سے ٹکرایا جس سے زمین سے ذرّات ہوا میں اڑے اور ان ذرّات کی آپسی کشش نے بھی اپنا کام دکھایا اور ہمارا چاند بنا. اگر آپ اس وقت زمین کی سطح پر کھڑے یہ نظارہ دیکھ رہے ہوتے تو چاند کا سائز جتنا آپ کو آج نظر آتا ہے، اس وقت اس سے 100 گنا بڑا نظر آتا کیوں کہ چاند زمین کے قریب تھا.
زندگی کیسے وجود میں آئی؟ اس سوال کا جواب آج بھی سائنس کو نہیں پتا پر ہاں اتنا ضرور پتا چل چکا ہے کہ اس سحاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے بعد زندگی کا آغاز ہوا. اور وہ سحاب ثاقب یقینآ کہکشاں کے کسی دوسرے کونے سے آیا تھا.
9 نومبر:
زندگی کے وجود میں آنے کے بعد کیمیائی اور حیاتیاتی ارتقائی عمل کا آغاز ہوا اور اس عمل کے نتیجے میں 9 نومبر کو زندگی کی حالت یہ تھی کہ مائکروسکوپک جاندار سانس لے سکتے تھے، کھانا کھا سکتے تھے، اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچان سکتے تھے. ہاں، ہم انسان ابھی تک نہیں بنے تھے پر یہ چھوٹے جاندار ضرور بن چکے تھے.
17 دسمبر: یہ وہ دن ہے جب سمندری جانداروں نے خشکی پر آنا شروع کیا اور اس سے جانداروں میں مختلف اقسام پیدا ہوئیں. جنگلات، ڈائیناسار، پرندے اور ہم سب دسمبر کے آخری ہفتے میں ارتقائی عمل سے وجود میں آئے.
دسمبر کا آخری ہفتہ:
یہ وہ دن ہے جس دن دنیا کا پہلا پھول کھلا. اس دور میں قدرتی آفات کی وجہ سے جنگلات زمین کے نیچے دبے تو ان کے اوپر اور جنگلات بن گئے. یہ نیچے دب جانے والے جنگلات آج کوئلے میں تبدیل ہو گئے ہیں جنہیں ہم روزمرّہ کی زندگی میں توانائی کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں. ابھی بھی دنیا میں ڈائیناسار جیسے بڑے جانداروں کا ہی راج تھا اور چھوٹے جانور ان سے ڈر کر چھپتے رہتے تھے لیکن 30 دسمبر صبح 6 بج کر 24 منٹ پر ایک اور سحاب ثاقب زمین سے ٹکرایا اور ان بڑے جانداروں کو تباہ کر گیا. اس سے ان چھوٹے جانوروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا.
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کائناتی کیلنڈر کا آخری دن آگیا پر ہم انسان کے وجود میں آنے کا ذکر ہی نہیں آیا. تو جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں. ہم انسان اس کائناتی کیلنڈر کے آخری دن کے آخری گھنٹے میں وجود میں آئے ہیں.
آخری دن کے آخری گھنٹے کے آخری منٹ کے آخری چند سیکنڈز:
آج کی کتابوں میں جتنی بھی تاریخ لکھی گئی ہے وہ سب کی سب کائناتی کیلنڈر میں آخری 14 سیکنڈز میں واقعہ ہوئی ہے. تمام جنگیں، تمام بادشاہ، تمام انبیا اور اس کے علاوہ جتنے بھی سائنسدانوں کو آپ جانتے ہیں وہ سب ان ہی 14 سیکنڈز میں گزرے ہیں.
سال ختم ہونے کے ان 14 سیکنڈز یعنی 60،000 سالوں پہلے، ہم نے لکھنا سیکھا. اسی کیلنڈر کے آخری 1 سیکنڈ پہلے ہم نے سائنس کا استعمال شروع کیا اور ایجادات کیں. اسی آخری سیکنڈ میں گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے چاند کا نظارہ کیا اور اسی سیکنڈز میں ہی انسان چاند پر بھی پہنچ گیا. یاد رہے، کائناتی کلنڈر کا ایک سیکنڈ 400 سالوں کے برابر ہے.
اس سارے مضمون کا حاصل کلام یہ تھا کہ کائنات کی وسعت کو جاننا اور اسے پہچاننا اتنا آسان کام نہیں ہے، پر جو ایک دفعہ اس کی وسعت کا اندازہ بھی کرلے تو اس پر اصل حقیقت عیاں ہو جائے گی اور وہ شخص اش اش کر اٹھے گا. کائنات کے تمام واقعات کو 365 دن پر محیط ایک کیلنڈر کے ذریے بیان کرنا سو فیصد مطمئن تو نہیں کر سکتا پر ہاں، ان واقعات کی ہلکی ہلکی جھلک تو اس طریقے سے دیکھی جا سکتی ہے.
اگر آپکو فلکیات اور سائنس کی وڈیوز دیکھنی ہے تو ہمارے چینل کا ایک بار ضرور چکر لگائے آپکو ہر طرح کی معلومات ملے گی۔