فتحِ سپین.ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی
فتحِ سپین.ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی
افریقہ کی گورنری تفوِیض ہوئی۔ اُس دور میں سپین کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی خراب تھی۔ عیش کوش حکمرانوں نے غریب رِعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔ اُنہیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کا سوچا اور وہاں سے فرار ہو کر اس وقت کے بنو امیہ کے نامزد گورنر اور جرنیل موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی, جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کر کے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے سپین کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔
سپین پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لئے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام ’طریف‘ کی کمان میں جولائی 710ء میں 100 سواروں اور 400 پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے سپین کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں ’طریفہ‘ کہا جاتا ہے۔
آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد ’طریف‘ نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جاسکتی ہے۔
موسیٰ بن نصیر نے اگلے ہی سال 711ء بمطابق 92ھ اپنے معروف بربر جرنیل ’طارق بن زیاد‘ کو 7,000 فوج کے ساتھ سپین پر لشکر کشی کیلئے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے سپین کے ساحل پر جبل الطارق(Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔
’طارق‘ کا سامنا وہاں سپین کے حکمران ’راڈرک‘ کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیئے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
أيها النّاسُ! أين المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و ليس لکم و اللهِ إلا الصّدق و الصبر.
(دولةُ الاسلام فی الاندلس، 1 : 46)
اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن، اور بخدا تمہارے لئے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شریف اِدریسی نے اپنی کتاب ’’نُزھۃُ المشتاق‘‘ میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلا دی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بےجگری سے لڑی اور 19جولائی711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی, وہاں سپین کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ(Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔ بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔
اِسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا تو وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پذیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا سپین فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔ (دولۃُ الاسلام فی الاندلس، 1 : 51)
اِسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیادہ اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا سپین فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دارالحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبدالعزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔
’موسیٰ بن نصیر‘ اور ’طارق بن زیاد‘ کی واپسی کے بعد 714ء سے 756ء تک 43 سالوں میں ملک سیاسی حوالے سے عدم اِستحکام کا شکار رہا۔ اُس دوران میں کل 22 گورنرز اندلس میں مقرر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی اور تہذیبی اِرتقاء کے ضمن میں اُس دور میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔ اندلس کی تاریخ میں یہ دور کافی حد تک غیر واضح ہے۔ اُس دَور کو اِسلامی سپین کی تاریخ میں عصرِ وُلاۃ (یعنی گورنروں کا دَور) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اسپین میں دورِ بنواُمیہ………………!
40 ہجری سے 132 ہجری تک عالمِ اِسلام پر حکمرانی کے بعد جب اُموی دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس نے غلبہ پانے کے بعد شاہی خاندان کے اَفراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو اُموی خاندان کے چند اَفراد بمشکل جان بچا سکے۔ اُنہی بچ نکلنے والوں میں سے ’ہشام بن عبدالملک‘ کا 20 سالہ نوجوان پوتا ’عبدالرحمن بن معاویہ‘ بھی تھا جس کی ماں ’قیوطہ‘ افریقہ کے بربری قبیلہ ’نفرہ‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ عبدالرحمن نے عباسیوں کے مظالم سے بچنے کیلئے افریقہ کا رُخ کیا جہاں اُس کیلئے پناہ کے مواقع ایشیا کی نسبت بہت زیادہ تھے۔ وہ افریقہ سے گزرتا ہوا 5-سال بعد اندلس کے ساحل تک جا پہنچا۔ جہاں اُموی دور کی شاہی اَفواج موجود تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبدالرحمن نے اُن میں اِتنا اثر پیدا کر لیا کہ اُنہوں نے اُسے اپنا کمانڈر بنا لیا۔ یہ فوج شمال کی سمت چلی اور چند ہی سالوں میں تمام اندلس اُس کے زیرِ قبضہ آگیا۔ مقامی اُمراء اور عوام نے اُس کی اِطاعت قبول کر لی اور پورا ملک آزاد اُموی ریاست کی صورت اِختیار کر گیا۔
تاریخ اُسے ’عبدالرحمن الداخل‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اُس نے اندلس پر 756ء سے 788ء تک کل 32 سال حکومت کی۔ اس دوران میں اُس نے مقامی اُمراء کی بغاوتوں کو ختم کرنے کے علاوہ فرانس کے بادشاہ ’شارلیمان‘ کا حملہ بھی بری طرح پسپا کیا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا ’ہشام‘ تختِ سلطنت پر بیٹھا۔ اُس کے عہد میں مسلمانوں نے جنوبی فرانس کے بہت سے شہروں کو فتح کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فقہ مالکی کو ریاست میں قانون کی بنیاد کے طور پر نافذ کیا گیا۔
822ء میں ’عبدالرحمن دُوم‘ تخت نشین ہوا۔ اُس کے 30 سالہ دورِ حکومت میں ملک اِنتظامی طور پر مضبوط ہوا۔ علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا، سائنسی علوم کی تروِیج عام ہونے لگی۔ صنعت و حرفت نے بھی بہت زیادہ ترقی کی اور تجارت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ اندلس کی بحری طاقت بڑھ جانے سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ یہ دَور تعمیرات اور دولت کی فرانوانی کا دَور تھا۔ دُوسری طرف یہی وہ دَور ہے جس میں یورپ میں اِسلام کے خلاف باقاعدہ طور پر مسیحی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس نے بعدازاں صدیوں تک سپین کے مسلمانوں کو جنگوں میں اُلجھائے رکھا اور بالآخر جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) سے نکال کر دَم لیا۔
اِسلامی سپین کی تاریخ میں سب سے عظیم حکمران ’عبدالرحمن سوم‘ تھا۔ اُس نے 21 برس کی عمر میں 912ء میں اپنے دادا ’عبداللہ‘ کی وفات کے بعد سلطنت کا اِنتظام سنبھالا۔ یہ وہ دَور تھا جب اندلس میں مسلمان رُوبہ زوال تھے اور صلیبی تحریک خوب زور پکڑ چکی تھی۔ اُس نے ہر طرح کی داخلی بدامنی اور خارجی شورشوں کو کچل کر معاشرے کا امن بحال کیا اور ایک نئے دَور کی بنیاد رکھی۔ یہ اندلس کا پہلا حکمران تھا جس نے ’الناصر لدین اللہ‘ کے لقب کے ساتھ اپنی خلافت کا اِعلان کیا۔ اپنے 912ء سے 961ء تک 49 سالہ دورِ حکومت میں اُس نے نہ صرف بہت سی عیسائی ریاستوں کو اپنا زیرِنگیں کر لیا بلکہ ملک کو عظیم اِسلامی تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بنا دیا۔ اُس کے دَور میں علوم و فنون کو عروج ملا جس سے اندلس اپنے دَور کی ایک عظیم ویلفیئر سٹیٹ بن کر اُبھرا۔
’عبدالرحمن سوم‘ کے بعد ’حکم ثانی‘، ’ہشام‘ اور ’مظفر‘ تخت آرائے خلافت ہوئے مگر اُن کے بعد 1010ء میں سلطنت کا اِنتظام بکھرنا شروع ہوا اور پورا اندلس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ 1010ء سے 1031ء تک 21 سالوں میں کل 9 خلفاء تخت نشین ہوئے مگر کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ لاسکا۔ 1031ء میں اِنتشار اِس حد تک بڑھا کہ اُس کے نتیجے میں اندلس سے اُموی خلافت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا، سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں اور ملوک نے حکومت شروع کر دی۔ تاریخ اُن سرداروں کو ’ملوکُ الطوائف‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔