عنوان:60 لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام محض ڈرامہ
ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان:60 لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام محض ڈرامہ
کالمکدنیا بھر کو تجارت صنعت و حرفت و مالیات کو یہودیوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ھے اور ھم مسلمان ہیں کہ آپس میں دست و گرییان ہیں اور دشمنانانِ پاکستان کی سازش و غداری کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تاریخِ اسلام اور دنیائےِ تاریخ شاہد ھے کہ مسلم ریاستوں کو اپنے ہی نا اہل اورغداروں نے نقصان پہنچایا۔ چند نام نہاد مسلمان طبقے نے اپنی نفسیاتی و نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنے ملک و قوم کو ہی بیچ ڈالا یا پھر انہیں اس قدر معاشی تنگ دستی کے سے دو چار کر دیا کہ وہ غیر مسلموں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ھوگئے۔ عصرِ حاضر میں مسلم دنیا کے دو بڑے دشمن ہیں جو حرمتِ رسول اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انہیں اکسانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انہیں آپس میں لڑوا کر انہی کی املاک کو انہی کے ہاتھوں برباد کرواتے ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ھے۔! یہاں سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہودیوں نے مکر و فریب کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں نہیں کیں ہونگیں۔ یقیناً بیشمار کیں تھیں جس کا ذکر قرآن پاک اور احادیث میں کئی مقام پر آیا ھے۔ اس کا جواب آپس کی دست گریبانی سے نہی بلکہ حکمت و دانائی کیساتھ انہی کی سازشوں کو الٹا ان پر پلٹ کے بہترین انداز سے جواب دیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی بہترین حکمتِ عملی کے صلے میں الله کامیابی سے ہمکنار فرماتا تھا۔ اب بھی یہی سوچ و افکار اور حکمت کی ضرورت ھے اب تو ہمیں یہودیوں مشرکین نصرانی بت پرستوں کیساتھ ساتھ مسلمانوں کے سب سے غلیظ خبیث قادیانیوں کا بھی مقابلہ کرنا ھے۔ مسلم ممالک بلخصوص پاکستان حالتِ جنگ میں ہیں یہ جنگی حالت امام زمانہ حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد اور غزوہ ہند تک جاری رہیگا ہمیں آپس میں تمام چھوٹے بڑے اختلافات بھلا کر اتحاد اتفاق کیساتھ متحد ہونا چاہئے پاکستان اور اسلام کی سربلندی کیلئے کیونکہ پاکستان عالمِ اسلام میں واحد ایٹمی طاقت ھے۔ ہمیں یہودیوں کو ہولوکاسٹ کا ذکر کرکے ذہنی و جسمانی اذیت دینی ہوگی اور منافق کافر قادیانیوں کو کافر ٹہراتے ھوئے بے دین ھونے کا بار بار احساس یاد دلانا ھوگا۔ آج اپنے معزز قارئین کو بتانا چاہتا ھوں کہ یہودیوں کی حیثیت و وقعت ہٹلر نے دکھادی تھی۔صہیونی زدہ مغربی ممالک کی تمام ثقافتی اور سماجی پالیسیاں یہودیوں کی مظلومیت کے زیرِ اثر رہتی ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کے پاس شہیدوں کی داستانیں ہیں جن سے وہ معنوی طاقت حاصل کرتے ہیں اسی طرح صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کا دعویٰ کر رکھا ہے اور مبینہ ہولوکاسٹ کے موقع پر ہونے والے مظالم کی صرف شدت بڑھانے کیلئے ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کے قتلِ عام کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں نازی جرمنی (ہٹلر) کے حکم سے بھٹیوں میں جلادیا گیا اور گیس چیمبرز میں لے جاکر قتل کر دیا گیا۔صہیونی خونخوار ان خود ساختہ اذیتوں کا ذکر کرکے دنیا کی ہمدردی حاصل کرتے ہیں اورسچ بیان کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے قوانین بھی بنائے گئے ہیں کہ ہولوکاسٹ یا یہودیوں کے قتل عام کی مخالفت میں لب کشائی نہ ہوسکے۔ اس واقعے کے اچھالنے پر پولینڈ کے ایک معروف یہودی مصنف *’’کرٹس‘‘* کو سنہ دو ہزار دو عیسوی میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے سیاسی اثر و رسوخ کیوجہ سے نوبل انعام دنیا کے مخصوص لوگوں کو ہی ملتا ہے مثلاً سنہ انیس سو بیانوے عیسوی میں ادب کا نوبل انعام بھی اس یہودی کو ملا تھا جس نے لکھ دیا تھا کہ *’’بیسویں صدی کا سب سے اہم واقعہ یہودیوں کا قتلِ عام تھا (یعنی ہولوکاسٹ)* لیکن ہم لوگوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا کیونکہ بعض دفعہ اس سے انکار بھی کردیا جاتا ہے‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے لکھنے والے کو جسے خود پولینڈ میں کوئی نہیں جانتا، راتوں رات ادب کا نوبل انعام کیوں عطا کردیا جاتا ہے؟ اسکے جواب کیلئے پولینڈ کے دو اور افراد کی کہانی سننے کے قابل ہے: *لوئی شلکو* اور *ایلی ویزل۔* پہلے مارشلکو کا تذکرہ جس نے ہولوکاسٹ کو فرضی قصہ قراردیا تو اسے گوشۂ گمنامی میں دھکیل دیا گیا۔ جبکہ ایلی ویزل نے اپنی پوری طاقت سے ہولوکاسٹ کی تبلیغ کی جس کے نتیجے میں اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا گیا۔ مارشلکو، پولینڈ کا عیسائی محقق ہے اس نے سنہ انیس سو اٹھاون عیسوی میں ایک کتاب پولش زبان میں لکھی جسکا بعد میں انگریزی میں ترجمہ ہوا جسے کرسچین بکس کلب نے یورپ میں شائع کیا۔ اس کتاب سے چند باتیں حاضر ہیں۔ سیاسی طور سےمعاشرے پرحکومتی اداروں کی حکومت ہوتی ہے لیکن معاشی یا اقتصادی طور پر یہ لگام ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جنہیں دولت و ثروت کے اعتبار سے اہم مقام حاصل ہوتا ہے۔ ان افراد کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ چھوٹے موٹے ممالک کی حکومت، صدر، وزیراعظم حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی ان افراد کا حکم ماننے پرمجبور ہوتی ہے۔ یہودیوں کو یہ راز پرانے زمانے سے معلوم ہیکہ ان اہم افراد کو اپنے اختیار میں کسطرح رکھیں،ان سے کیسے فائدہ اٹھائیں اور دنیا کی سیاسی قوتوں کو کن طریقوں سے قابو میں لائیں یا پردے کے پیچھے سے کس طرح حکومتوں اور عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں ۔۔۔۔ مارشلکو دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے امریکی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ *’’امریکا کے چار سو چالیس امیرترین غیریہودی خاندانوں کے پاس پچیس ارب ڈالر کی دولت تھی جبکہ مٹھی بھر یہودی خاندانوں کے پاس موجود دولت کا اندازہ پانچ سو ارب ڈالر لگایا گیا تھا*۔۔۔صہیونیوں نے یہودیوں کے قتلِ عام کا پروپیگنڈا کرکے متعدد مادی، سیاسی اور معاشی فوائد اٹھائے۔ عالمی تجارت پر قبضہ جمایا اور دنیا کو اپنے پنجے میں جکڑنے کی پالیسی جاری رکھی۔ یہاں پر مارشلکو نے دلچسپ اعداد و شمار سے یہ ثابت کیا ہیکہ پچاس لاکھ یا ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام محض ڈرامہ اور فریب ہے۔ وہ کہتا ہیکہ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی زد میں زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ یہودی تھے یعنی پورے جرمنی اور پولینڈ اور اسکے پڑوسی ممالک میں یہودیوں کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ اب اگر نازیوں نے تمام یہودیوں کو بھی مار دیا ہو ( جو کہ نہیں ہوا ) تو بھی مرنے والے یہودیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے آگے نہیں بڑھتی جبکہ اس کے مقابلے میں عیسائی دنیا کا کتنا نقصان کیا تھا نازیوں نے؟ اس کو نہ عیسائی دنیا یاد کرتی ہے نہ پروپیگنڈا کرتی ہے نہ رونا روتی ہے۔۔۔ صرف پولینڈ کی اس وقت کی کل آبادی آج کل کے تمام یہودیوں سے زیادہ نہیں تھی۔ پولینڈ نے اس دوسری جنگ عظیم میں جو قربانیاں دی ہیں وہ بھی دس لاکھ سے زیادہ نہیں ہیں۔ پولینڈ کا ذکر اسلیئے اہمیت کا حامل ہیکہ جنگ وہیں سے شروع ہوئی تھی۔۔۔چرچل کہتا ہے کہ جھوٹ کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک وہ جھوٹ جو بے شرمی سے بولا جائے اور دوسرا وہ جھوٹ جو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں سیاسی اور معاشی رنگ میں پیش کیا جائے۔۔صہیونیوں نے اپنے نقصان کے ازالے کیلئے یورپی ممالک سے ابتک کھربوں ڈالر وصول کرلئے ہیں اورسیاسی طور پر اسرائیل کا وجود حاصل کیا اور اب اپنی مظلومیت اور خطرے میں ہونے کی صورت بیان کرکے واویلا کیا ہوا ہے۔۔۔۔ مارشلکو گیس چیمبر اور انسانوں کو جلانے والی بھٹی کے حوالے سے بھی ثبوت پیش کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ فرانس کےایک زیرِ زمین خفیہ صہیونی روزنامہ *’’شم‘‘* کے آٹھ جنوری سنہ انیس سو چوالیس عیسوی کے شمارے میں جرمنی میں قید یہودیوں کے نو کیمپوں کا حال لکھا ہوا ہے۔اسکی مکمل تفصیل پڑھ کر بھی یہ نہیں پتہ چلتا کہ یہودیوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ہوئے ہوں۔ اس رپورٹ میں کسی گیس چیمبر، موت کے کمروں یا بچہ کشی کا ذکر بھی نہیں ہے بلکہ اس یہودی اخبار نے لکھا ہے کہ جرمنوں نے سات سال تک کے یہودی بچوں کو جرمنی کے مختلف اسپتالوں میں بہتر نگہداشت کیلئے بھیج دیا تھا۔ اس رپورٹ میں مارشلکو نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سنہ انیس سو پینتالیس عیسوی کے آخر میں صہیونیوں نے کس طرح ایک باغ کو اجاڑ کر ویران کیا۔ اسکی تفصیل یوں ہیکہ کسی بھی قیدیوں کے کیمپ کو اجاڑ اور ویران دکھانے کیلئے اس کا حلیہ بدل دیا جاتا تھا کیونکہ فلم بنانے والے یہودیوں کو یہ بات فلم بینوں کو نہیں دکھانی تھی کہ یہودیوں پر خوبصورت باغوں میں تشدد ہوتا تھا اور انہیں ہاسٹل کے صاف ستھرے کمرے رہائش کیلئے ملے ہوئے تھے۔ فلم ساز ادارے ماحول کو خوفناک اور ہولناک بنانے کیلئے ویسا ہی بنا دیتے تھے۔ اسی لئے ایک ایسا خصوصی حوض بنایا گیا جس میں ایک نکاسی کا پائپ باہر کی طرف نکلا ہوا تھا تاکہ اس طرح ظاہر کیا جائے کہ یہودیوں کا خون بہا کر اس پائپ کے ذریعہ باہر نکال دیا جاتا تھا۔ یہ ایک دلخراش منظر تھا۔ اس طرح قیدیوں کے کیمپ میں داخل ہونے کا منظر، قیدیوں کو مار مار کر کپڑے بدلوانے کا منظر، حمام میں قیدیوں کو بھر کر تالا لگانا اور پھر نلکوں سے پانی کے بجائے زہریلی گیس کا نکلنا ان تمام باتوں کے ایجاد کرنے والے خود یہودی تھے کیونکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو سچائی کا رنگ دینا چاہتے تھے۔۔سیاسی طور پر ہولوکاسٹ کو منوانے کیلئے صہیونی ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں۔ اسی لئےجب کبھی کوئی بڑا انعام ( جیسے نوبل انعام ) ملتا ہے تو صہیونی سوچ رکھنے والوں اور انکی خدمت کرنے والوں کو ہی ملتا ہے خاص طور پر ہولوکاسٹ کے حوالے سے۔۔۔۔مارشلکو آخر میں کہتا ہے کہ ساٹھ لاکھ چوہوں کا مارنا بھی مضحکہ خیز ہے انسانوں کی تو بات ہی الگ ہے اور پھر مارنے کے آسان، سستے اور فوری طریقے چھوڑ کر مشکل، مہنگے اور طولانی طریقوں سے یہودیوں کو مارنا بھی فضول اور لغویات ہے۔ اب آیئے دوسرے مصنف کی طرف جسکا نام *’’ایلی ویزل‘‘* ہے۔ یہ سنہ انیس سو اٹھائیس عیسوی میں پیدا ہوا۔ جب گیارہ سال کا ہوا تو دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ جنگ کے خاتمہ پر اس کا گھرانہ فرانس ہجرت کرگیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فرانس کے صہیونی اخبار سے منسلک ہوگیا اور لکھنے میں ملکہ حاصل کیا۔ پھر بہت کچھ لکھ ڈالا مگر سب کچھ صہیونی نظریات کے پر چار کیلئے۔ پانچ چھ سال کے اندر تیس سے زیادہ کتابیں لکھ ڈالیں۔ سنہ انیس سو چھیاسی عیسوی میں اٹھاون سال کی عمر میں اس کو امریکا میں نوبل انعام سے نوازا گیا کیونکہ صہیونیوں کے مقصد کی خدمت کی تھی۔ اس سارے معاملے کو سمجھنے کیلئے یہ پڑھ لیجئے کہ نوبل انعام دینے کا فیصلہ کرنے والی جیوری کے افراد اس مصنف کی کس کارکردگی پر انعام دے رہے ہیں۔۔۔ایلی ویزل کو نوبل انعام اس لئے دیا جارہا ہیکہ وہ خود کو ہولوکاسٹ کے نظریے کا سچا محافظ سمجھتا ہے۔پوری زندگی اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ تمام دنیا میں ہونے والے قتلِ عام پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔اس عبارت کا اصل مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جب کبھی اور کہیں بھی ظلم کی مثال دیجائے تو یہودیوں کے قتلِ عام کو مثال بنایا جائے۔ مثلاً سرائیوو اور بوسنیا کے واقعات کا تذکرہ کرنا ہے تو کہتا ہے کہ اسے دیکھ کر ہولوکاسٹ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب یہودیوں کو بے قصور اجتماعی طور پر قتل کردیا گیا تھا اسی لئے ان واقعات کی بھی مذمت کی جانی چاہئے۔ *’’ایلی ویزل‘‘* ہولوکاسٹ کے بارے میں لکھتا ہے کہ چونکہ یہ قتلِ عام انسان سے متعلق ہے لہٰذا اسے تاریخ کا حصہ نہیں بننا چاہئے بلکہ تاریخ سے ماوراء یا تاریخ سے بالاتر مقام دیا جانا چاہئے تاکہ ہمیشہ زندہ رہے۔ یہ اتنا نادر واقعہ ہے کہ کسی بھی ظلم کو ہولوکاسٹ کی مثال دینا دراصل تاریخ کو قتل کرنا ہے لہٰذا کسی بڑے سے بڑے ظلم کی بھی مثال ہولوکاسٹ نہیں دی جاسکتی ہے۔۔ایلی ویزل کے خیال میں پہلی جنگِ عظیم کے واقعات، دوسری جنگِ عظیم کے بے شمار مظالم، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کاحملہ، بوسنیا، سرائیوو اور دنیا کے دوسرے تمام قتلِ عام کے واقعات اس قابل نہیں ہیں کہ انکا تذکرہ اہمیت کیساتھ کیا جائے کیونکہ ان واقعات میں کوئی یہودی شامل نہیں ہے۔۔ایلی ویزل پولینڈ کا یہودی ہے وہ اپنے ناول *’’شب‘‘* میں دوسری جنگِ عظیم کے آخر میں پولینڈ میں رہنے والے یہودیوں کی زندگی کی منظرکشی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ انسانوں کو زندہ جلانے کے واقعات کو زندہ کرکے پیش کردے خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام انسان یہودی تھےجس زمانے میں وہ یہ ناول لکھ رہا تھا اس وقت وہ جوان تھا لہٰذا یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی جذباتی تصویر کھینچتے ہوئے وہ مضحکہ خیز مثالیں دے گیا۔ یہاں تک کہ گیس چیمبر کا تذکرہ کرنا بھی بھول گیا کیونکہ وہ گیس چیمبر حقیقت میں تو کہیں تھا ہی نہیں لہٰذا اس کو بھول جانا ایک قدرتی امر ہے پھر دو تہائی ناول میں عجیب و غریب طریقوں سے یہودیوں کو اذیتیں دینے کا ذکر کرتا ہے اس نے دو بڑے گڑھوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک میں بوڑھے ڈالے جاتے تھے اور دوسرے میں جوان اور بچے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گڑھوں کا ذکر اس کے ناول کے علاوہ کہیں نہیں ملتا ہے ایک جگہ لکھتا ہے کہ: *’’جہاں ہم قید تھے اس کے نزدیک ایک گڑھا تھا۔ گڑھے میں کیا تھا وہ ہمیں نظر نہیں آتا تھا بس آسمان تک شعلے جاتے تھے اس کے بعد ایک ٹرک آتا اور جو کچھ اس میں ہوتا وہ گڑھے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ لڑکے اور بچے ہوتے تھے۔ جی ہاں میں نے خود دیکھا ننھے ننھے بچے جلا دیئے جاتے تھے۔ میں نے اپنی ان دو آنکھوں سے معصوم بچوں کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھا ہے۔ کافی عرصے تک میں نہ دن میں سوسکا نہ رات میں۔ اس گڑھے سے آگے ایک ذرا بڑا گڑھا تھا جس میں بڑے اور بوڑھے جلائے جاتے تھے۔ ہم لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے‘‘* یہ اور اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں پورے ناول میں بھری پڑی ہیں ۔۔۔ساٹھ لاکھ چوہے بھی اس طرح نہیں مارے جاسکتے تو بھلا انسان کیسے مارا جاتا یہ سب یہودیوں کے ذہن کی اختراع ہے۔ ہاں جنگ تھی، دونوں طرف سے کشت و خون کا بازار گرم تھا لیکن صرف یہودیوں کی اس طرح سے مظلومیت نمائی کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ نوبل انعام یافتہ افراد اپنے آپ کو دنیا کے عظیم انسانوں میں شامل سمجھتے ہیں۔ ایلی ویزل بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہ لوگ شعوری کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے مذاہب کے تقدس اور احترام کو کم کردیا جائے تاکہ بین الاقوامی طور پر دنیا کے ممالک اور دنیا کے عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے بڑی طاقتوں کی طرف ہی دیکھا کریں جن پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ ایلی ویزل نے اٹھارہ جنوری سے بیس جنوری سنہ انیس سو اڑسٹھ عیسوی کو فرانس میں پہلی مرتبہ تمام نوبل انعام پانے والوں کو ایک کانفرنس میں جمع کیا۔ اس کیلئے اس نے فرانسیسی صدر فرانسواں متراں سے درخواست کی جس نے اس کانفرنس کا اہتمام کروایا۔ اس کانفرنس میں چودہ ممالک سے پچھہتر مہمان آئے تھے اور بند کمرے میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی۔
ایلی ویزل نے اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن کا نازیوں کے قبرستان جانے کا مضحکہ اڑایا۔ اس متعصب یہودی نے فرانسیسی صدر متراں سے انٹرویو کے بہانے ان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا یعنی ایلی ویزل فرانس کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اور طرف داری سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا بلکہ مزید تقاضے کر رہا تھا۔
متراں ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاستدان رہے ہیں انہوں نے بڑے محتاط سے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دریائے اردن کے اطراف میں فلسطینیوں کو بھی آباد رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ سنتے ہی ویزل بھڑک اٹھا اور اس نے انتہائی چبھتے ہوئے سوالات فرانسواں متراں سے کرنے شروع کردیئے کہ ایک اطلاع کے مطابق آپ کے اور نازیوں کے درمیان خفیہ تعلقات ہیں۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صہیونی ہر اُس سربراہِ مملکت کو بھی ذلیل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو فلسطینیوں کے حقوق کا بھی قائل ہو۔ بہرصورت صدر متراں نے جواب دینے سے پہلے یہ کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیئے دے رہا ہوں کہ سوال پوچھنے والے تم ہو ورنہ میں ان لوگوں کا جواب دہ نہیں ہوں جن کو بغیر کسی دلیل کے جج کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ متراں کا یہ جملہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کی سیاست پر صہیونیوں کا اقتدار کتنا مضبوط ہے۔ بلا شبہ ایلی ویزل کو یہ طاقت اس لیے ملی ہے کہ وہ اسرائیل کا سچا خیر خواہ ہے۔ ایلی ویزل خود کو اور اسرائیل کو ایک ہی سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مخالفین ہمارے دل سے اسرائیل کو نکال دینا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ صہیونیوں نے جرمنی، آسٹریا، پولینڈ، سوئٹزرلینڈ کے علاوہ بھی جہاں سے ممکن ہوا اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے ازالے کیلئے اربوں ڈالرز جمع کیئے ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے ایک یہودی پروفیسر نارمن فینکل اسٹائن نے ایک دلچسپ کتاب *’’ہولوکاسٹ کا کاروبار‘‘* کے نام سے لکھی ہے جس میں انہوں نے صہیونیوں کے پیسے جمع کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی ہے یعنی ہولوکاسٹ آج بھی ان کیلئے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے جو بھی ہولوکاسٹ کا مخالف ہے وہ اسرائیل دشمن ہے۔ چنانچہ ایلی ویزل قڈیلی ٹیلی گراف اسی نارمن فینکل اسٹائن کے بارے میں واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ ہولوکاسٹ کی مخالفت کرکے اسرائیل کو کمزور کرنا چاہ رہا ہے۔ مشہور فرانسوی رائٹر ( ژاک لانزمن ) نے سنہ انیس سو چوالیس عیسوی میں واضح طور پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل ہر چیز سے پہلے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا ملک ہے جنہیں نازیوں نے دھواں بنادیا۔ ہر زندہ اسرائیلی کے پیچھے دو مردہ یہودی موجود ہیں جو اسے پوری دنیا کے مقابلے میں ثابت قدم رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔معزز قارئین!! دنیائے اسلام بلخصوص پاکستان کو گاھے بگاہے وقتاً فوقتاً قادیانیوں صہیونیوں یہودیوں بھارت امریکہ اور یورپین ممالک نے ہر سو ہر انداز ہر فتنے سے کمزور اور نقصان پہنچانے کیلئے کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور تا حال مزموم مقاصد میں مصروف عمل ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے عشق و محبت سے معمور اپنی طاقت کو زائل ھونے سے بچاتے ہیں اور اپنی قومی املاک کو بھی محفوظ رکھتے ہیں البتہ دشمنوں کی چال کو سمجھتے ھوئے بہتر تدبیر سے کام لیتے ہیں۔ الله ھم میں اتحاد و اتفاق قائم رکھے آمین ثما آمین۔۔۔!!
کالمکار: جاوید صدیقی