عنوان: ھمارا المیہ جذبات یا لا علمی

ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان: ھمارا المیہ جذبات یا لا علمی:
دنیائے جہاں ظاہر و باطن میں الله واحد لاشریک کی بیشمار مخلوقات ہیں ان مخلوقات میں ایسی بھی مخلوق ہیں جنہیں جذبات سے محروم رکھا گیا ھے اور ایسی بھی مخلوقات ہیں جو جذبات اور سرکشی اور ہٹ دھرمی میں رہتی ہے اور ایسی بھی مخلوق ہے جو جذبات احساسات سرکشی کے بعد ندامت رکھتی ہیں اس مخلوق کو حضرت انسان کہتے ہیں۔ یہ مخلوق ہر مخلوق کی کچھ کچھ عادات اپنے اندر سمیٹے ھوئے ھے۔ فرشتوں کی طرح ندامت انکساری و عاجزی اطاعت گزاری اور ایثار و قربانی کی عادات بھی رکھتے ہیں ایسے بندوں کا شمار اولیاء الله درویش کے منصب و شکل میں دیکھتے ہیں ضروری نہیں کہ اس لیئے خاص لباس خاص چہرہ خاص جگہ متعین کی جائے کیونکہ الله کے مقرب بندے کسی بھی صورت اور عام انسان کی طرح ہوسکتےھیں یہی وجہ ھے کہ الله کے مقرب بندوں کا پہچانا اور جان لینا کوئی آسان بات نہیں موجودہ زمانے میں جہاں چاروں اطراف فتنوں دھوکوں اور گمراہ کن عناصر اپنی بھرپور قوت اور طاقت سے حملہ آور ہوں وہاں سچائی اور حقیقت کو تلاش کرنا ایسا ھی ھے جیسے ریگستان میں پانی کی تلاش ھو۔۔۔۔معزز قارئین!! ایک جانب دنیا سائنس و ٹیکنالوجی کے سبب نت نئی ایجادات سے مالا مال ہوتی جارہی ہے اور دنیا انسان کو مادیت پرستی کے دلدل میں اس قدر دھنس رہی ہے کہ انسان خود کو بھلا بیٹھا ھے احساس جذبات درد تکلیف ایثار و قربانی کے عمل سے عاری ھوتا جارہا ھے۔ جذبات اگر مثبت انداز کی سمت میں ھوں تو اچھا نتیجہ برآمد ھوتا ھے کیونکہ مثبت راہ الله کی راہ ھوتی ھے جبکہ منفی راہ شیطان ابلیس خبیث کی راہ ھے۔ عقل و شعور رکھنے والے دانشمند اور مفکر جانتے ھیں کہ خالق کائنات واحد لاشریک رب العزت کی راہ ہی درحقیقت اصل زندہ جاوید دائمی کامیابی و کامرانی کی راہ ھے۔ ھمارا سکون و چین ھمارے نظم وضبط اور ھماری بہتر زندگی راہ ھدایت میں پنہا ہیں۔ ھم ریاست ھو یا شعبہ جات تنظیمیں اپنے دورانیئے کو منظم رکھنے کیلئے اپنے ممبران سے ووٹوں کے ذریعے انتخابات میں کامیابی کا حصول اس لیئے پاتے ہیں کہ جس طرح الله نے عدل و انصاف کا طریقہ بتایا اور تقسیم کار کو واضع فرمایا کہ اس پر عمل کرکے فلاح پائیں لیکن ھم شعبہ جاتی انتخابی کامیابی حاصل کریں یا ملکی ریاستی انتخابات میں کامیاب ھوجائیں ھم خود ساختہ قوانین بناکر الله اور اسکے دین پر چڑھائی کرکے مرتب عذاب ھوتے ہیں۔ رب کی رحمانیت کو نعوذبالله اسے کمزور جانتے ہیں یہی طریقہ واردات شداد نمرود فرعون ابوجہل یزید شمر جیسے ملعمون و خبیث انسانوں کا رھا ھے جو انسانی شکل میں بدترین جانوروں سے بھی بدترین تھے تو کیا آج کے زمانے میں ھم ان خبیثوں کی باقیات کو نہیں دیکھتے۔ کیا موجودہ زمانے کا انسان نے اسلامی تاریخ سے سبق سیکھا ھے کیا آج کا مسلمان بلخصوص صاحب اقتدار ھو یا صاحب منصب قرآن و احادیث کی روشمنی میں زندگی استوار کررہا ھے خیر اس پر بات کی جائے تو بہت طویل ھوجائے گی لیکن یہاں میرے کالم کا عنوان سے متعلق میں بات بڑھاتا ھوں ۔۔۔۔ معزز قارئین!! ھمارا المیہ جذبات یا لا علمی ھے یا علم ھونے کے باوجود بربادی اور شعور کی کمی ھے یقیناً کہیں نہ کہیں سنگین غلطیوں کوتاہیوں کے مرتکب ھوتے چلے آرھے ھیں اس میں سب سے زیادہ عمل ہمارا فرسودہ ناکارہ نظام ریاست ھے جوکئی سو سال پرانے انگریزوں کے ظالمانہ نظام تھوپ رکھا ھے جبکہ قائداعظم محمد علی جناح سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے اراکین جو کاروان کی صورت میں پاکستان ہجرت کی لیکن افسوس قائد کے انتقال اور جانشین کو شہید کرکے غیر ملکی قوتوں نے اپنے غلاموں کے ہاتھوں میں ریاست کی باگ تھمادی اور ابتک نام نہاد جمہوریت ایسے غلاموں کی نسلوں میں جاچکی ھے۔ وزارتوں سے لیکر پارٹی سربراہوں تک مورثی سلسلے جاری ھیں۔ھمارا المیہ یہ بھی ھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مولوی ملاؤں نے مسلک کے نام پر اپنی اپنی اینٹوں میں باندھ رکھا ھے۔ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ تمام علماء و مشائخ پیر عظام مفتیان کرام محققین اسلام محدثین اسلام مجتہد اسلام سے سوال یہ ھے کہ عام عوام اکثر مجھے کہتی ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دین اسلام کو مسلکوں میں پیش کیا تھا اور دوسرا سوال یہ پوچھا کہ آخیر زمانے میں جب حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام کی موجودگی میں اگر دین اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے والا اور نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا تو اب کیوں نہیں!! ظاہر ہے میں کوئی عالم و فاضل نہیں وہی بہتر جواب دے سکتے ھیں میں تو صرف اتنا جانتا ھوں کہ ھم عوام نہ تو ملک و قوم کیلئے سنجیدہ ھوتے ہیں اور نہ ہی سیاسی ثقافتی اور مذہبی معاملات میں ھماری سنجیدگی نظر آتی یہی حال ہم معاشرتی پہلوؤں پر بھی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہداری کا مظاہرہ کرتے نظرآتے ہیں۔ اگر ھم نے ان المیائی صورتحال کو جذباتی انداز کے بجائے سنجیدگی علمی و فکری ذہن اور شعور کیساتھ تدبر اور حکمت سے حل تلاش کرنا ھے گویا بکھرے پثھے پرانے لباس کو اس طرح سنوارنا ھے گویا وہ نئے کا گمان لگیں اسی میں ھماری اور ملک و قوم کی بقا ھے الله ہم سب کا حامی و ناظر رھے آمین
کالمکار: جاوید صدیقی