کالم/مضامین

عنوان: کراچی سرکلر ریلوے’ سپریم کورٹ کو لولی پاپ

*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*

*عنوان: کراچی سرکلر ریلوے’ سپریم کورٹ کو لولی پاپ*

پاکستان کے انتہائی سینئر سیاستدان اور منجھے ہوئے وفاقی وزیر شیخ رشید بلآخر نوکر شاہی طبقے کے دھوکے میں آگئے یہ انکی سادگی اور بیوقوفی کی وجہ سے ہوا یا پھر اب شیخ صاحب کی دور نظری مشاہداتی نظر بوڑھاپے کی طرح کمزور مانند پڑگئی یہ بات میں اسلئے کہہ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ نے لوکل ٹرین کی جگہ سرکلر ٹرین کے الفاظ استعمال کئے تھے سپریم کورٹ جانتی ہے کہ ہم سن دوہزار بیس کے اختتام پر کھڑے ہیں اور ہماری کراچی شہر کی سرکولر ریلوے ٹیکنالوجی بہت پیچھے ہے یاد رہے نواز شریف کی معاونت پر شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں اورنج ٹرین کا افتتاح کرکے کام شروع کردیا تھا جو اپنے اقتدار کے ختم ہونے تک تقریبإ پائے تکمیل تک پہنچادیا اور گزشتہ ماہ میں افتتاح تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے فیتا کاٹ کر افتتاح کردیا لیکن درحقیقت یہ سہرا شہباز شریف کو ہی جاتا ہے یہی نہیں بلکہ شہباز اور نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب میں شاہراہوں موٹر ویز پارکس تفریحی مقامات ریلویز اور ریلوے اسٹیشنز کو جلا بخشی بحیثیت صحافی میں نے اپنے شہر کراچی تا راولپنڈی تک سفر کیا تھا اور شہر شہر کریہ کریہ گاؤں گاؤں تحقیقی مشاہدے کے بعد برملا اظہار کرتا ہوں کہ اگر انھوں نے کھایا تو لگایا بھی لیکن پاکستان کا صوبہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جو کماتا خوب ہے مگر لگاتا کچھ نہیں۔ ستر سالوں سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہی رہی ہے جبکہ وفاق میں بینظیر بھٹو نے ایک سے زائد جبکہ زرداری نے ایک بار اقتدار پر برجمان ہوئے ان اثناء میں وہ اپنے دور اقتدار کا اور امور کا تقابلی جائزہ لیں تو یقینا شرم سے ڈوب مریں گے اگر ہوگی تو!! معزز قارئین !! سرکلر ریلوے کا ڈرامہ جس کی پہلی قسط آج کراچی میں پیش کی گئی جس کے مہمان اداکار وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تھے۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات پر کی جارہی ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہےکہ لوکل ٹرین کے روٹ پر نئے ڈبوں کی ٹرین چلاکر اسکو کراچی سرکلر ریلوے کا نام دیا جارہاہے۔ یہ ٹرین پیپری نزد اسٹیل مل سے شروع ہوکر سٹی ریلوے اسٹیشن، آئی آئی چندریگر روڈ پر اختتام پذیر ہوگی یہ وہ روٹ ہے جس پر کراچی آنے والی ہر ٹرین چلتی ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کا اصل ٹریک کراچی کے اندر ہےجس میں گلستان جوہر، گلشن اقبال، کریم آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد، سائٹ اور دیگر علاقے شامل ہیں لیکن اس ٹریک پر حکومتی حلیف جماعتوں کے دور میں مکمل طور پر قبضہ کرلیا گیا ہے حد تو یہ ہے کہ گلشن اقبال گیلانی ریلوے اسٹیشن کی زمین پر بڑے بڑے پلازے حکومتی دعوں کا منہ چڑا رھے ہیں۔ناظم آباد کے علاقے میڑک بورڈ آفس کے اسٹیشن کی زمین پر ایم کیو ایم کے سابق وفاقی وزیر بابر غوری نے صائمہ برج ویو کا بلند پلازہ کھڑا کردیا ہےیہی نہیں گلشن اقبال تیرہ ڈی کا بہت بڑاحصہ ایم کیوایم اور پی پی پی نے گٹھ جوڑ کیساتھ ریلوے کی زمینیوں پر لینڈ مافیہ کے ذریعے کھربوں کمائے جو ان سے سپریم کورٹ بھی پوچھنے سے معزور ہے پھرکیونکر سرکاری زمین وارگزار کرائی جاسکے گی کیونکہ جب جب سپریم کورٹ احکامات جاری کرتی ہے یہ دونوں سیاسی جماعتیں ہوا میں اڑا دیتی ہیں رہی سہی کسر پاکستان پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے ٹریک اور زمینوں پر قبضہ کرکے پوری کردی ہے۔ اب تو کراچی سے وافر مقدار میں منتخب ہونے والی جماعت تحریک انصاف بھی ان جیسا اوڑھنا بچھونا اپنائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سرکلر ریلوے کی بحالی میں پورا کردار ادا کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سال کے عرصے میں کتنا ٹریک خالی کروایا جاسکا؟؟؟ سرکلر ریلوے ایک سال بعد بھی صرف مرکزی لائن پر ہی کیوں چلائی جارہی ہے؟؟؟؟ غیر قانونی قابضین کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟؟؟؟ کیا سرکلر ریلوے کے نام پر کراچی کو ایک بار پھر بیوقوف بنایا جارہا ہے؟؟؟؟ سرکلر ریلوے کی بحالی موجودہ صورت حال میں ایک فراڈ ہے اور کراچی کے عوام کو فریب دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ اگر تحریک انصاف کراچی سے تاریخی مینڈیٹ لینے کے باوجود بھی عوام سے فراڈ کریگی تو اسکا انجام سابقہ حکمرانوں سے بھی بدتر ہوسکتا ہے۔ کراچی والوں نے ستر سال سے سیاستدانوں کے جھوٹ کو برداشت کیا ہے اب ان میں برداشت کی قوت ختم ہوچکی ہے یہ آخری موقع ہے کہ سیاستدان خود کو سدھار لیں بصورت عوام نا قابل برداشت جواب دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

*کالمکار: جاوید صدیقی*

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You