عنوان: نیکی کسی کا میراث نہیں
*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*
*عنوان: نیکی کسی کا میراث نہیں*
اللہ واحد لاشریک سبحان اللہ تعالی نے مخلوق انسان کو پیدا کیا ہے ازل سے ابد تک کے انسانوں کی ارواح بنائیں اور تمام ارواح سے پوچھا تم دنیا میں جاکر کیا
کروگے یک زبان ہوکر تمام انسانی ارواح نے کہا اور عہد کیا کہ اے باری تعالی ہم تیری ہی عبادت کریں گے تجھ ہی سے مانگیں گے اور دنیا میں نیک کام کرکے تیری خوشنودگی حاصل کریں گے۔۔۔ معزز قارئین!! نیکی اس عمل کا نام ہے جو خالصتا اللہ کی خوشنودگی کیلئے کی جائے اس کیلئے شرط نہیں کہ انسان مسلمان ہی ہو یہ اعلی انسانی مقام میسر ہوتا ہے کہ جب انسان مسلمان ہوکر نیکی کے کام میں جڑ جائے غیر مسلموں کی نیکیوں کا انعام اللہ واحد لاشریک دنیا میں عطا کردیتا ہے جبکہ مسلمان کو دونوں جہاں کے انعامات سے نواز دیتا ہے، ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ غیر مسلم نیکی کرتے کرتے از خود دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اسلام دین فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ اس دین کی کشش، روحانیت اور کیفیت انسان کو سیدھی سچی راہ کی روشنی دکھاتی ہے اور روشن دل رکھنے والے غیر مسلم اسلام کی روحانیت سے منسوب ہوجاتے ہیں اور خود کو دائرہ اسلام میں داخل کرکے حقیقی سکون پاتے ہیں، طلوع اسلام میں بھی ایسی کئی شہادتیں ملتی ہیں جو اسلام کی روشنی سے متاثر ہوتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔۔۔ معزز قارئین!! یہاں میں آپ کو بھارت کے ایک ہندو کی نیکی کا ذکر کرتا ہوں۔۔ اجے منوت اورنگ آباد بھارت کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا بچپن اور جوانی شدید مشکلات اور محنت سے گزارا، مہاراشٹر آیا کپڑے اور گندم کا کاروبار شروع کیا اور اپنی محنت سے لکھ پتی بن گیا. اجے منوت نے اپنی بیٹی شریا منوت کی شادی کیلئے کروڑ روپے جمع کئے لیکن اس نے اپنی بیٹی کا جہیز نہیں بنایا کپڑے جوتے اورزیورات نہیں بنائے داماد کو نئی گاڑی لے کر نہیں دی. اس نے اپنی بیوی، بیٹی اور داماد سے مشورہ کیا اور پھر دو ایکڑ زمین خریدی اور اس پر چھوٹے چھوٹے نوے گھر بنوا دیئے پھر یہ گھرجھونپڑیوں میں رہنے والوں میں تقسیم کر دیئے ہر گھر 12×20 فٹ کا ہے، اس میں کچن بھی ہے، بجلی بھی ہے اور پینے کا صاف پانی بھی.گھر بانٹتے ہوئے اجے منوت کی فیملی نے خود کچی آبادیوں کا رخ کیا اور مستحق خاندانوں میں ہی گھر بانٹے، یہ بھی خیال رکھا گیا کہ کوئی چرسی شرابی یا جرائم پیشہ یہ گھر نہ لے سکے. شادی کے دن شریا منوت نے اپنے شوہر کیساتھ مل کر خود گھروں کی چابیاں مستحق خاندانوں میں تقسیم کیں. نوے خاندانوں کے سینکڑوں افراد نے دولہا دلہن کی زندگی میں خوشیوں کیلئے دعائیں کیں اور یہ آج تک روزانہ صبح شام ان کیلئے دعائیں کررہے ہیں. اجے منوت اور اسکی بیٹی جین مت کے ماننے والے ہیں، انکا اللہ رسول سے، روز قیامت سے جزا و سزا سے جنت دوزخ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔ معزز قارئین!! اب آئیے پاکستان کی جانب تو یہاں ملتان کے ایک امیر کبیر تاجر شبیر قریشی نے اپنے بیٹے نعمان کی شادی کی، بارات کیلئے دس لیموزین گاڑیاں منگوائی گئیں، دولہے کو سونے تاج پہنا کر شیر کے پنجرے پر بٹھایا گیا، اسکے علاوہ مہمانوں کی سینکڑوں گاڑیاں الگ تھیں.شادی کارڈز ہیلی کاپٹر سے پورے ملتان شہر پر پھینکے گئے۔ دلہن کے ماں باپ نے بھی اپنی بیٹی کو پانچ کروڑ روپے کا جہیز دیا جسمیں ایک فل فرنشڈ گھر اور گاڑی شامل ہے. اس شادی پرایف بی آر نے دونوں خاندانوں کو اثاثہ جات، آمدنی اور ٹیکس گوشواروں کی تفصیل جمع کروانے کیلئے نوٹس جاری کردیئے۔۔۔۔ معزز قارئین!! شبیر قریشی مسلمان ہے، اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے، یہ عاشق رسول بھی ہے اور اسے امت مسلمہ کی زبوں حالی پر پریشانی بھی ہے لیکن شبیر قریشی اجےمنوت کیطرح قربانی اورایثار کیلئے تیارنہیں شبیر قریشی جیسے پاکستان میں ڈھیروں امراء اشرافیہ موجود ہیں، یہ لوگ خود گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور ملازموں کو ڈگی میں بٹھا دیتے ہیں، ملازموں کیساتھ ہوٹل جاتے ہیں خود پیزا کھاتے ہیں اور ملازم کو ماش کی دال ملتی ہے. آپ شہر کی کسی بھی بڑی شادی کا حال دیکھ لیں، کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، شرابیں چلتیں ہیں، کنجریوں پر لاکھوں پھینکے جاتے ہیں،لاکھوں کی فائرنگ ہوتی ہے لیکن غریبوں کو ولیمہ سے بچ جانے والا کھانا بھی نہیں ملتا۔ کیا آپ پاکستان کی تباہی و بربادی کی وجوہات تلاش کرناچاہتے ہیں؟ اپنےاردگردنظر دوڑائیں انگلیوں پرگن لیں اجے منوت جیسے کتنے ہیں اور شبیر قریشی جیسے کتنے۔۔۔ معزز قارئین!! ہمارے امراء حضرات اپنے رتی برابر خسارے کے عوض اپنے برسوں سے کام کرنے والے مخلص ملازمین کو ڈاؤن سائزنگ کے نام پر نکالتے ہوئے بھی زرا سا احساس نہیں کرتے کہ جس رب نے نقصان پہنچایا ہے وہی فائدہ بھی دیگا بس یقین اور ایمان اللہ پر رکھنا ہوتا ہےہم مسلمان کھاوے کیلئے قرآن خوانی، میلاد و لنگر نیاز کی محفل سجاکر احسان اور غرور کرتے ہیں کہ جیسے یہ سب ہم نے اپنی محنت مشقت سے حاصل کیا جبکہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ سب کچھ منجانب رب ہوتا ہے ہم پاکستانیوں میں نیکی کا جزبہ بھی اپنی خود نمائی اور نفس پرستی کی نزر رہتا ہے کیا ہمارے نیکیاں سودمند ثابت ہونگی یا ہم نے نیکی کو اپنی جائیداد کی طرح سمجھ رکھا ہے زرا غور طلب ہے میری یہ بات کہ نیکی کسی کی میراث نہیں ہوتی نیکی خوش نصیبوں کو ملتی ہے ۔۔۔!!
کالمکار: جاوید صدیقی