*عنوان: میں تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادونگا*

*ٹائٹل : بیدار ھونے تک*
*عنوان: میں تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادونگا*
*کالمکار: جاوید صدیقی*
گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا، جرٱت مندانہ، بہادر، نڈر، باہمت، مضبوط اور باوقار ایک ہی شخصیت دیکھی۔ جس نے انہیں بھی آنکھ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ میں تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادونگا۔ یاد رھے کہ یہ معتبر شخصیت اپنی نو عمری کے زمانے میں پٹارو اسکول میں زیر تعلیم تا اور وہیں سے کالج کی تعلیم مکمل کرکے فارغ تحصیل ھوا۔ اللہ نے اسے بہت ذہین، فطین اور قابل بنایا ھے، اس کی ذہانت و قابلیت اور ماہرانہ سوچ و افکار کے سامنے آج کے تمام سیاستدان ایک معمولی بے توقیر بے حیثت اور بے جان سے لگتے ہیں۔ اس وقت یہ شخصیت سیاسی و تجارتی اور فلاحی میدان میں سر فہرست ھے اور اس کا ڈنکا ہر سو بجتا دکھائی دیتا ھے۔ یہ معتبر شخصیت دوستوں کی دوست اور دشمن کی دشمن بھی ھے۔ اس شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ ھے کہ اس کے مزاج میں منافقت اور بے وفائی نہیں جو کہہ دیتا ھے اسے کرکے ہی دم لیتا ھے۔ یہ اپنے اصول و معاملات میں بہت نکھرا اور کھرا ھے۔ اس کی اولادوں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ھے، اس نے بڑی بیٹی کی شادی کردی ھے جس سے وہ اب نانا بھی بن چکا ھے اور اسے فی الوقت سیاست سے دور رکھا ھے جبکہ چھوٹی بیٹی اور اکلوتے بیٹے کو سیاست میں داخل کرکے سیاسی ٹیکنکس اور موقع محل فیصلوں کی باریکیاں سمجھانے کی کوشش کیں ہیں لیکن انہیں اپنے باپ تک پہنچنے کیلئے کافی وقت لگے گا بحرکیف یہ وہ زندہ مثالی شخصیت ھے جس سے بہت ہی کم عرصہ میں یو اے ای، برطانیہ، امریکہ، یورپ میں اپنا سکہ بٹھا دیا ان ممالک میں مالی و کاروباری حیثیت کمال درجہ پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے اسکی بیوی کا ہاتھ ہوتا ھے یہاں محارہ اور تجزیہ ہی پلٹ گیا یہاں کامیاب مرد کے پیچھے بیوی کے بجائے خود صلاحیت کارفرما رہی ہیں لیکن اتنا ضرور ھے کہ بیوی سے سیاست کی اک سیڑھی میسر آئی لیکن سیاست ہو یا حکمرانی دونوں مقامات کی بلندی اس کی اپنی عقل و دانشوری کا پیش خیمہ رہی ھے۔ یہ محترم کی شخصیت زمین سے اڑ کر فلک تک جا پہنچی ھے۔ ان صاحب کا اس وقت مال و دولت میں دوسرا ثانی نہیں، ایک اندازے کے مطابق دنیا کے دولت مند لوگوں کی فہرست میں ابتدائی نمبروں میں شمار کیا جاتا ھے۔ اس معتبر شخصیت نے کراچی کی ایک بڑی تنظیم کو ایسا ہڑپ کیا کہ اب اسکا نام تو نام عوام ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس ذہین شخصیت نے ایسا داؤ کھیلا کہ یہ آپس میں ہی دست و گریبان اور آپس میں قتل و خون کی ہولی کھیلتے رھے اور یہ دور سے منظر دیکھ کر مسکراتا رھا اور اس لسانی تنظیم کی حقیقت پردہ چاک ہوگئی کیونکہ دنیا نے دیکھا کہ یہ لسانی تنظیم منافقوں خودغرضوں لاچیوں مطلب پرستوں اور غداروں پر منحصر تھی انھوں نے اپنی ہی قوم کو برباد و تباہ کر ڈالا اور پھر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رھے لگے۔ اس بہادر معتبر شخصیت کی سسر کی سیاسی تنظیم سنہ انیس سو اکہتر سے اس ریاست اور ملک میں زندہ جاوید کی طرح ھے، کئی جرنیل آئے مگر انکی سیاست اور سیاسی جماعت کا بال بیگھا نہ کرسکے کہ شائد اس صوبہ اور اس ملک کے باشندے انہیں ابھی بھی پسند کرتے ہیں قبول کرتے ہیں۔ یہ معتبر اور محترم شخصیت پہلے بھی ایک جرنل کی رضا سے صدر بنے اور اب بھی ایک جرنل کی رضا سے دوبارہ اسی منصب صدر کے عہدے پر برجمان ہیں۔ میرا ماننا اور کہنا ھے کہ اس صاحب عظیم کو صوبہ سندھ سے ذہین قابل فطین مخلص دیانتدار ایماندار اور سچے لوگوں کو بھی ساتھ شامل کرنا چاہئے جنہیں کراچی کی سابقہ بڑی سیاسی جماعت نے ورغلایا اور دھوکہ میں رکھا تھا۔ کراچی حیدرآباد میرپورخاص خیرپورمیرس اور سکھر سے تعلق رکھنے والے یہ باشندے اس شخصیت کے سسر کیساتھ بھی تھے ان کیلئے راہداری فراہم کرکے آپ اپنی جماعت کو اور مضبوط کریں گے۔ میں صرف یہ سوچتا ھوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ بہترین شخص اگر مثبت پہلو کی جانب بڑھ جائے اور اپنی ذاتی املاک سے کچھ نہیں کم از کم سالانہ زکواة مستحقین اور سفید پوش لوگوں تک صحیح اور درست طریقے سے پہنچادے تو انشاءاللہ جنت الفردوس میں کس قدر محلات اور جنتی دولت کما سکتا ھے اس کیلئے اور اسکے خاندان کیلئے دعا ہی کرسکتا ہوں اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رھے آمین۔۔۔!!