کالم/مضامین

عنوان: معجزہ قرآن عددی توازن

ٹائٹل: بیدار ھونے تک

عنوان: معجزہ قرآن عددی توازن

الله تبارک تعالیٰ کی بیشمار مخلوقات ہیں سوائے دو مخلوق انسان اور جنات کے تمام کی تمام الله کی فرماں برداری سجود اور شکر میں ہر وقت ہر لمحہ جڑے رہتی ہیں۔ انسان اور جنات ناشکرے سرکش اور غفلت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں سوائے انبیاء پیغمبر اور اولیاء اسلافین کے جو الله کے مقرب بندے ھوتے ہیں۔ اسی لیئے الله نے اپنی مقدس ترین کتاب المبین قرآن الحکیم میں انسان اور جنات کو خسارے میں بتادیا ھے کیونکہ ان دونوں مخلوق کیلئے سزا و جزا کااہتمام کیا جزا کیلئے عیش و تعائش اور پاک خواہشات کی تکمیل کیلئے بہترین مقام جنت اور سزا کیلئے اذیت ناک عذاب دوزخ میں رکھا ھے۔۔۔۔ معزز قارئین!! الله نے زمین و زماں سے قبل لوح محفوظ پرقرآن بنایا جس میں کن فیکون کی اول و آخر سطریں محفوظ کردیں اور اسے مکمل عددی توازن کیساتھ ترتیب دیا آئیے اس حقیقی مطالعہ کیجانب آپکو بتاتا چلوں۔معزز قارئین!! سورۃ الکوثر میں عددی معجزہ نے حیران کر رکھا ہے”۔ سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ دس ہیں۔ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے لیکن جب سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں دس حروف ہیں۔ سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں دس حروف ہیں۔ سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں دس حروف ہیں۔ اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏ حرف "ا” الف ہے جو دس دفعہ آیا ہے۔ وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد دس ہیں۔اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر” راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں دس واں حرف شمار ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر” راء پر اختتام پذیر ہورہی ‏ہیں، ان کی تعداد دس ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔ سورت میں جو دس کاعدد ہے اسکی حقیقت یہ ہیکہ وہ ذوالحجہ مہینے کا دس واں دن ہے جیسے کہ الله تعالی نے سورت کوثر میں فرمایا *” فصل لربک وانحر” ترجمہ: "پس نماز پڑھو اور قربانی کرو”* وہ دراصل قربانی کا دن ہے۔الله کی شان کہ یہ ‏سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت، جوایک سطر پرمشتمل ہے،میں آگیاآپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!‏الله تعالی نے اسی لئے فرمایا *”ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ”* الله تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے آمین ثما آمین۔ قرآن الحکیم کا دعویٰ ہیکہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہوسکتا اس لئے کہ قرآن الحکیم کا ایک ایک حرف اتنا زبردست کیلکو لیشن اوراتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فِٹ ہےکہ اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے سے وہ ساری کیلکولیشن درھم برھم ہوجاتی ہے جِس کے ساتھ قرآنِ پاک کی اعجازی شان نمایاں ہے۔ اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود عِلم و عِرفان کا ایک وسیع جہاں ہے۔ دُنیا کا لفظ اگر ایک سو پندرہ مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اسکے مقابل آخرت کا لفظ بھی ایک سو پندرہ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ *وعلیٰ ھٰذِہِ القِیاس۔* ( دُنیا وآخرت: ایک سو پندرہ ) ( شیاطین وملائکہ: اٹھاسی ) ( موت وحیات: ایک سو پینتالیس ) ( نفع وفساد: پچاس ) ( اجر و فصل: ایک سو آٹھ ) ( کفروایمان : پچیس ) ( شہر: بارہ ) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں بارہ مہینے ہی ہوتے ہیں اور یوم کا لفظ تین سو ساٹھ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنّف کے بس کی بات نہیں، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جدید ترین ریسرچ کیمطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں انیس کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے، اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ سنہ انیس سو اڑسٹھ میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے چلے گئے حتیٰ کہ سنہ انیس سو باہتر میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔ ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا اُن لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے انبار کھلنے لگے، قرآنِ الحکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جسکے مکمل اِدراک کیلئے اُس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔ کلام الله میں انیس کاہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے جہاں الله نے فرمایا: *دوزخ پر ہم نے اُنیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھے ہیں* اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ انیس کے عدد کا تعلق الله کےکسی حفاطتی انتظام سے ہےپھر ہرسورة کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت *بِسم الله* کو رکھا گیا ہے گویاکہ اسکا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بِسم الله کے کُل حروف بھی انیس ہی ہیں، پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اِضافہ ہوتا ہے کہ بسم الله میں ترتیب کےساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی توثابت ہوا کہ اِسم پورے قرآن میں انیس مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ *الرَّحمٰن* ستاون مرتبہ استعمال ہوا ہے جو انیس ضرب تین کا حاصل ہے اور لفظ *الرَّحِیم* ایک سو چودہ مرتبہ استعمال ہوا ہے جو انیس ضرب چھ کا حاصل ہے اور لفظ الله پورے قرآن میں دو ہزار چھ سو ننانوے مرتبہ استعمال ہوا ہے انیس ضرب ایک سو بیالیس کا حاصل ہے، لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہیکہ الله کی ذات پاک کسی حِساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔ قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی ایک سو چودہ ہےجو انیس ضرب چھ کا حاصل ہے۔ سورہ توبه کے آغاز میں بِسم الله نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر تیس میں مکمل بِسم الله نازل کرکے انیس کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔ اب آئیے حضور علیہ الصلواۃ و السَّلام پر اُترنے والی پہلی وحی کی طرف: یہ سورہ علق کی پہلی پانچ آیات ہیں: اوریہیں سے انیس کے اِس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے!! ان پانچ آیات کےکل الفاظ انیس ہیں اور ان انیس الفاظ کے کل حروف چھہتر ہیں جو ٹھیک انیس ضرب چار کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل انتہائی حیرت میں ڈوب گئی کہ اس کے کُل حروف تین سو چار ہیں جو انیس ضرب چار ضرب چار کا حاصل ہیں۔۔۔معزز قارئین!! عقل یہ دیکھ کر حیرت کی انتہائی گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مُطابق سورہ علق قرآن پاک کی چھیانوے نمبر سورة ہے اب اگر قرآن کی آخری سورة اَلنَّاس کی طرف سے گِنتی کریں تو آخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر انیس بنتا ہے اور اگر قرآن کی اِبتدأ سے دیکھیں تواس چھیانوےنمبر سورة سے پہلے پچانوے سورتیں ہیں جو ٹھیک انیس ضرب پانچ کا حاصلِ ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ الله تعالیٰ کے حِسابی نظام کا ہی ایک حِصّہ ہے۔ قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة سورۂ نصر ہے یہ سن کر آپ پر پھر ایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ الله پاک نے یہاں بھی انیس کا نِظام برقرار رکھا ہے، پہلی وحی کیطرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک انیس الفاظ پرمشتمل ہے یوں کلام الله کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حِسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن الحکیم کی پہلی سورة سورۂ بقرہ کی کُل آیات دوسو چھیاسی ہیں اور دو ہٹادیں تو مکّی سُورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے چھ ہٹادیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔چھیاسی کو اٹھائیس کے ساتھ جمع کریں تو کُل سورتوں کی تعداد ایک سو چودہ سامنے آتی ہیں۔آج جبکہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے۔حساب دان، سائنس دان، ہر خاص و عام مومن کافر سبھی سوچنے پرمجبور ہیں کہ آج بھی کِسی کِتاب میں ایساحِسابی نظام ڈالناانسانی بساط سے باہر ہے۔طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسےحسابی نظام کے مطابق ہرطرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی لیکن چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصوّر ہی محال ہے لہٰذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ قرآنِ الکریم کا حِسابی نظام الله کا ایسا شاہکارمعجزہ ہےجسکاجواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور قرآن میں الله تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ *”پوچھ لو گِنتی کرنے والوں سے”* ۔ القرآن الحکیم والفرقان المجید روز تِلاوت کیا کریں الله ہم سب کو قران پاک پڑھنے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور ہمارے دِلوں میں ایمان کو سلامت رکھے اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثما آمین ۔۔۔۔۔!!

کالمکار: جاوید صدیقی

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You