عنوان: مسلمانوں کا تشخص اردو
ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان: مسلمانوں کا تشخص اردو
اردو زبان کی تاریخی واقفت رکھنے والے جانتے ہیں کہ مغلیہ دور بلخصوص شہنشاہ اکبر کی دین سے دوری اور ہندن زوجہ کے سبب ہندو مذہب میں انتہا کی دلچسپی نے اسے جہاں دہریہ بنادیا تھا وہیں اس نے نیا دین لانے کی ناکام کوشش بھی کی تھی جیسے اس وقت کے مسلمان پیشواؤں بزرگان دین مفکر دانشور محقق لکھت کار اور سچے ایمان کی دولت سے مالا مال مسلمانوں سے سخت ترین ردعمل دکھایا جس پر اکبر بادشاہ مجبور اور بےبس ہوکر رہ گیا اسی کے دور میں سنسکرت یعنی ہندی زبان پڑھوان چلی اور فارسی زبان کو پس پشت کرڈالا۔ زبان کی اس توقیر اور کم درجہ بندی کو محسوس کرتے ہوئے مسلمانان ہند کے انتہائی قابل فطین ذہین موجدوں نے سر جوڑ کر عربی سنسکرت سندھی فارسی و دیگر زبانوں کے ملاپ سے ایک نئی زبان مرتب کی جس سے اردو کا نام دیا گیا۔ تاریخ نے ہمیں بتایا کہ اردو نے کم وقت میں اپنا مقام تشخص پیدا کرلیا اور مسلمانوں کی نہ صرف پہچان بن گئی بلکہ ہندی یعنی سنسکرت اس قدر پست ہوئی کہ ہر کوئی اردو بولنے لکھنے کو ترجیح دیتا تھا۔ ہندوستان کے صوفیائے کرام کے آستانوں خانقاہوں سے اردو زبان کے ذریعے صوفی ازم کی شعاعیں پھیلنے لگی یہ سلسلہ دارالعلوم دیو بند دارالعلوم بریلی سمیت دیگر مسلک سے بھی علوم کے سمندر پھیلنے لگے۔ اردو زبان کو ہندوستان میں آزادی کی تحریک کو جلا بخشی۔ سرسید احمد خان۔ مولانا محمد علی جوہر۔ مولانا شوکت علی جوہر۔ ابو کلام آزاد سمیت بیسمار شاعروں ادیبوں دانشوروں مفکروں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کیلئے بے مثل و مثال گراں قدر لازوال خدمات پیش کرکے بین الاقوامی مقام تک پہنچایا۔ تحریک پاکستان میں اور پھر قیام پاکستان کے بعد اردو کو اپنا ملک بھی میسر آگیا۔ کفار و مشرکین اور دشمانان پاکستان کی ازل سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں اردو کے مقام کو ختم کردیا جائے اسی بناء پر این جی اوز اور بیرونی طاقتوں نے سب سے پہلے تفریق پیدا کرنے کیلئے انگریزی زبان کو پھیلانے اور اردو زبان کی اہمیت و افادیت کو ختم کرنے کیلئے لسانی فتنوں کو جنم دیا اور نفرت پھیلاتے ہوئے بیرونی ملک کے ذیلی اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کو فروغ دینے کیلئے وزراء اور نوکرشاہی طبقوں کو خریدا گیا اور سرکاری درسگاہوں میں شفارشی اساتذہ کی تعیناتی کو فروخت دیتے ہوئے حکومتی درسگاہوں کو مکمل تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اردو زبان کو ختم کرنے والے یقیناً خود ختم ہوجائیں گے انشاءالله ۔۔۔۔ معزز قارئین!! دنیا کی قومیں اپنی قومی زبان کو ترجیح دیتی ہیں اسی لئیے تاریخ شاہد ہے وہ ترقی کی بلند منزلوں پر قائم ہیں جیسے چین فرانس جرمنی روس جاپان وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ معزز قارئین!! پاکستانی نسل اس وقت تک یقینی طور پر ہر شعبے میں ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ تدریسی عوامل قومی زبان میں نہ کئے جائیں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم غلامانہ ذہن کے اس قدر عادی بن چکے ہیں کہ انگلش زبان بولے بغیر ہمارا حلق خشک رہتا ہے اور فرنگیوں کی زبان کو مقدم اور معتبر سمجھتے ہیں اس عمل سے دنیا بھر میں ہماری جگ ہسائی بھی ہوتی ہے اور ہمیں بے توقیر بے وقعت قوم سمجھا جاتا ہے اسی لیئے وقت کے تقاضے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اردو زبان ہی اب ہمارا تشخص بن چکی ہے یوں تو قبل قیام پاکستان اردو زبان برصغیر کے مسلمانوں کا تشخص تھی۔ زمانہ حال کی پاکستانی ریاست کو چاہئے کہ قومی زبان اردو کو اس کا مقام دیتے ہوئے سرکاری دفاتر میں عام کیا جائے یاد رہے اس بابت آئینی حیثیت کے مطابق بار ہا بار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان احکامات جاری کرچکے ہیں مگر افسوس سیاسی و نوکرشاہی طبقہ آئین اور عدالیہ کو کسی قدر سے نہیں دیکھتا جو ایک ریاستی جرم بھی ہے گر مجرموں کے مجرمانہ عمل پر قدغن نہ لگائی گئی تو وہ دن دور نہیں جب ریاست پاکستان انکارکی کا شکار ہوسکتا ہے اسی لیئے عدالت عظمیٰ اپنی رٹ قائم کرے۔۔۔!!
کالمکار: جاوید صدیقی