عنوان: ماں تو ماں ھے

ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان: ماں تو ماں ھے
الله تبارک تعالیٰ نے انسانی رشتہ ماں کو تمام مذاہب مسلک گروہ گروپ قبیلہ گو کہ جنگلی جانوروں میں بھی امتیازی حیثیت عطا کی ہے۔الله نے بنی نوع انسان کو اپنی شان بتانے کیلئےبھی ماں کا حوالہ دیا کہ وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے کہیں زیادہ پیار محبت خلوص ہمدردی رکھتا ہے۔ تاریخِ دنیا ہو یا اسلامی تاریخ گو کہ دنیاوی علوم ہوں یا الہٰامی علوم پیغمبر ہوں یا انبیاء کرام سب نے ماں کے درجات بیان کیئے ہیں۔۔معزز قارئین!!ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت علیؓ سے پوچھاکیا فوت ہونے کے بعد والدین کی روحیں گھر لوٹتی ہیں؟مولا علیؓ نے جواب دیا۔ اےسلمان جب والدین فوت ہوجاتےہیں تو انکی روحیں اپنی اولادکے پاس گھروں کو لوٹتی ہیں اور ان سے فریاد کرتی ہیں آہ و بکا کرتی ہیں اور یہ سوال کرتی ہیں کہ صدقات اور نیک اعمال کے ذریعے سے ان پر مہربانی کرو وہ اولاد سے اپنے لیئے دعاؤں کاسوال کرتی ہیں۔ سلمان فارسیؓ نے عرض کیا روحیں کب کب اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں؟فرمایا! یہ شب جمعہ کو اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں اور اپنوں کو پکارتی ہیں جسکو لوگ نہی سن سکتے پھر یہ روحیں مایوس ہوکر لوٹ جاتی ہیں سوائے انکے جن کی اولاد نیکوکار اور والدین کیلئے صدقات و ایصال و ثواب کرتی رہتی ہیں پھر فرمایا اے سلمانؓ یاد رکھنا اپنےمرحوم والدین کیلئے دعا کرتے رہنا جب کوئی مرحوم والدین کیلئے دعا کرتا ھے تو یہ روحیں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتی ہیں یااللہ جس طرح ہماری اولاد نے ہمارے اوپر احسان کیا ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا تو بھی ان پر رحم فرما اور دنیاوی پریشانیوں تکلیفوں اور بیماریوں کو ان سے دورفرما۔ معزز قارئین!!خدا کیلئے اپنے والدین کیلئےمغفرت کی دعا کرتے رہاکریں ان کیلئےایصال وثواب اور صدقات کرتے رہا کریں کیونکہ فوت شدگان ایک ایک نیکی کیلئے زندہ لوگوں کے محتاج رہتے ہیں اور وہ ہر لمحہ یہ پکار کرتے کہ انکے رشتہ دار انکو کچھ بخش دیں۔اس بات کا اندازہ تب ہوگاجب ہم خوداندھیری قبر میں اتارے جائیں گے۔۔۔۔۔معزز قارئین!! ہمیں چاہئے کہ ہم ہرجمعرات کو اپنے والدین کیطرف سے صدقہ دینے کا معمول بنالیں رب کعبہ کی قسم ہماری مشکلات خود بہ خود حل ہوجائیں گی اورجن کے والدین حیات ہوں ان کیلئے بھی ہر جمعرات ایک تسبیح درود شریف پڑھ کر ماں باپ اور امتِ مسلمہ کو بخش دیناچاہئے۔ بس والدین کیطرف سے صدقہ کرنا ھے اور اس صدقہ کی برکت سے والدین کی روح خوش ہوگی بلکہ ہماری مشکلات خود بہ خود حل ہونا شروع ہوجائیں گی۔ زندہ والدین اور بلخصوص والدہ کا ذکر چل نکلا ہے تو یہاں اپنے دوست کی تحریر کو بھی شامل کرتا چلوں جو انھوں نے مجھے واٹس اپ کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔ بھارت کے ڈی آئی جی نونت سکیرا جی نے عبرتناک داستان پوسٹ کی جسکا عنوان ایک جج اپنی بیوی کو طلاق کیوں دے رہے ہیں؟ رکھا۔۔۔۔ رونگٹھے کھڑے کردینےوالا یہ سچا واقعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ شب ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کے کئی پہلوؤں کو چھولیا قریب شام کے سات بجے ھونگے، موبائل کی گھنٹی بجی اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز۔ میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی آخر ہوا کیا؟ ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟اور کتنی دیر میں آسکتے ہیں میں نے کہا آپ پریشانی بتائیے اور بھائی کہاں ہیں اور ماں کدھر ہیں۔ آخر ہوا کیا ہے؟لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کے آپ فوراً آجائیے میں نے مطمعین کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگےگا پہنچنے میں جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا دیکھاکہ بھائی،جو ہمارے جج دوست ہیں سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھابی رونا چیخنا کررہی ہیں؛ بارہ سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور نو سال کی بیٹی بھی کچھ کہ نہیں پا رہی ہے۔ میں نے بھائی سے پوچھا کہ” آخر کیا بات ہے”؟ بھائی کچھ جواب نہیں دے رہے تھے پھر بھابی نے کہا؛یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات کورٹ سےتیارکراکر لائے ہیں۔ مجھے طلاق دینا،چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اتنی اچھی فیملی ہے؛ دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔ پہلی نظر میں مجھے لگاکہ یہ مذاق ہے لیکن میں نے بچوں سے پوچھا دادی کدھر ھیں تو بچوں نے بتایا؛ پاپا انہیں تین دن پہلے نوئیڈا کے”اولڈ ایج ھوم”میں شفٹ کرآئے ہیں۔ میں نےنوکر سے کہا؛ مجھے اور بھائی کو چائے پلاؤ؛ کچھ دیر میں چائے آئی بھائی کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی مگر انہوں نے نہیں پی اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچوں کیطرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگےاور بولے میں نے تین دنوں سےکچھ بھی نہیں کھایا ہے۔میں اپنی اکسٹھ سال کی ماں کوکچھ لوگوں کےحوالےکرکےآیاھوں۔ پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کیلئے اتنی مصیبتیں ہوگئیں کہ بیوی نے قسم کھالی میں ماں کا دھیان نہیں رکھ سکتی نا تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔ روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی۔نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے اور منمانی کرتے۔ ماں نے دس دن پہلے بول دیاتھا تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کوسمجھانے کی لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی جب میں دوسال کا تھا تب ابو انتقال کرگئےتھے۔ ماں نے دوسروں کے گھروں میں کام کرکے مجھے پڑھایا اس قابل بنایاکہ میں آج ایک جج ھوں لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی۔اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ھوم میں چھوڑ آیا۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لیئے اٹھائے تھے مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھاماں میرے ساتھ رات رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔ایک بارجب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت تیز بخار میں پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا میں نے ماں سے کہا آپ کو تیز بخار ہے۔تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بناکر آئی ہوں اسلیئے گرم ہے۔لوگوں سے ادھارمانگ کر مجھے دھلی یونیورسٹی سے ایل ایل بی تک پڑھایا مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانے دیا کہیں میرا وقت برباد نہ ہوجائے۔ کہتے کہتے رونے لگے اور کہنے لگے۔جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہونگے ہم جنکے جسم کے ٹکڑےہیں، آج ہم ان کو ایسے لوگوں کے حوالے کرآئے’ جو انکے عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ جب میں ایسی ماں کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتا تو میں کسی اور کیلئے بھلا کیا کرسکتا ہوں۔آزادی اگر اتنی پیاری ھے اورماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جائیں گے۔اسیلئے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کےحوالےکرکے اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں اور اگر اتناسب کچھ کرنےکےباوجود ماں، آشرم میں رہنے کیلئے مجبور ہے۔ تو ایک دن مجھے بھی آخرجانا ہی پڑےگا۔ ماں کیساتھ رہتے عادت بھی ھو جائے گی۔ ماں کیطرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔جتنا بولتےاس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ اسی درمیان رات کے ساڑھے بارہ ھوگئے۔ میں نے بھابی کے چہرے کو دیکھا انکے چہرے پر پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئےتھے۔ میں نےڈرائیور سے کہا” ابھی ہم لوگ نوئیڈا چلیں گے بھابی؛ بچےاور ہم سارے لوگ نوئیڈا پہونچے، بہت زیادہ گزارش کرنے پر گیٹ کھلا۔ بھائی نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیئے۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب”؟ بھائی نے کہا میں ایک جج ہوں۔ چوکیدار نے کہا "جہاں سارے ثبوت سامنے ہے۔ تب تو آپ اپنی ماں کیساتھ انصاف نہیں کر پائے اوروں کیساتھ کیا انصاف کرتے ہونگے اتنا کہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔اندر سے ایک عورت آئی جو وارڈن تھی۔ اس نے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔ دو بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں اسے ماردیں تو میں اللہ کو کیا جواب دونگی؟ میں نے وارڈن سے کہا "بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت پچھتاوے میں جی رہے ہیں، آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی۔کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔صرف ایک فوٹو جسمیں پوری فیملی ہے، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔ مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آئے ھیں تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔ آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک آہی گئے انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔
کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوئی۔ پورے آشرم کے لوگ باہر تک آئے۔ کسی طرح ہم لوگ آشرم کے لوگوں کو چھوڑ پائے۔ سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے،شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔ راستے بھر بچے اور بھابی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور بھائی صاحب ایک دوسرے کےجذبات کواپنےپرانے رشتے پر بٹھا رہے تھے۔ گھر آتے آتے تقریباً تین بجکر پینتالیس منٹ ھوگئے۔بھابی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے۔ یہ سمجھ گئی تھیں۔ میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔۔۔ ماں صرف ماں ھے۔۔ اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔ ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔اگر وہ کمزور ہوگئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزورھوجائیگی اوربنا ریڑھ کا سماج کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اس طرح کی کوئی مسئلہ ھو تو؛ انھیں یہ ضرور پڑھوائیں اور اچھی طرح سمجھائھیں؛ کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔ اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی سالوں تک رہے گا۔ یقین مانیں سب ھوگا تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔ سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔ اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کو دیں۔۔ تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکے۔۔ اے رب العزت باری تعالیٰ یاالله تو میرے والدین کی بخشش فرما اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کردے انکی قبر کو اپنے نور سے منور کردے اور مجھے میری موت کے بعد قیامت کے روز انکا فرماں بردار اولاد اٹھانا مجھے اور میرے والدین کو آخر الزماں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت عطا فرمانا آمین ثما آمین !!
کالمکار: جاوید صدیقی