عنوان: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جرأت مندانہ بڑا فیصلہ

*ٹائٹل : بیدار ھونے تک*
*عنوان: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جرأت مندانہ بڑا فیصلہ*
قاضی ہمیشہ سے بہت بڑی ذمہداری میں رہتا ہے عدل و انصاف کے تقاضے کو مکمل کرنے کیلئے اسے اپنے نفس سے جنگ اور اپنی انا پرستی کو خاک میں مٹا کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودگی کیلئے ظالم و جابر حکمران کے سامنے نڈر اور جرأت مندانہ فیصلے کرتا ہے ایسے قاضی کی تعداد قلیل سے قلیل ہوتی جارہی ہے اس کی ایک وجہ سیاسی سپورٹ تو دوسری وجہ دباؤ کا بوجھ تیسری وجہ اپنے نفس کی غلامی شامل ہے لیکن قاضی وہی ہوتا ہے جو ظرف، ایمان، جرأت، حق و سچ پر ڈٹا رہے اور فیصلے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے خوف خدا اور عشق رسول ﷺ سے معمور رہے ایسے قاضی کو اللہ دین و دنیا میں پسند فرماتا ہے جسے اللہ اور اسکے رسول ﷺ پسند فرمالیں تو اس کی کیا شان ۔۔۔ سبحان اللہ، ماشاءاللہ ۔۔۔ معزز قارئین!! آج میرا کالم بھی ایسے ہی جرأت مند با ایمان اور اعلی ظرف کے مالک ایک قاضی پر ہے ۔۔۔۔ معزز قارئین!! پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلے میں ہائیکورٹ کا ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے زمین کے حصول سے متعلق اختیار نہ رکھنے کے حکمنامے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ستائیس صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔تفصیلات کیمطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ میں کہا ہے ملک کا آئین اور کوئی بھی قانون ججوں اور افواج پاکستان کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ زمین حاصل کرسکیں، کوئی بھی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان زمین لینے کے حقدار ہیں، حکومت کا جج صاحبان کو پلاٹس دینا ان کو نوازنے کے مترادف ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ میں مزید کہا عوام کی نظروں میں جج صاحبان کی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے خود مختار عدلیہ انتہائی ضروری ہے، کوئی وکیل یا سرکاری ملازم ایک پلاٹ سے زیادہ پلاٹ لینے کا حقدار نہیں، کسی مخصوص قانون کو شامل کیئے بغیر وزیراعظم سمیت کوئی بھی اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرکے کسی کو پلاٹ نہیں دے سکتا، کم آمدنی والے سرکاری ملازمین اورجونیئر افسران کیلئے کم قیمت پلاٹ دستیاب ہونے چاہیں، اضافی نوٹ کیمطابق بری، بحری اور فضائی افواج یا انکے ماتحت کوئی بھی فورس رہائشی، زرعی یا کمرشل زمین لینے کا حق نہیں رکھتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ میں ملکی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جب جنرل گریسی پاکستانی فوج کو کمان کررہے تھے توایوب خان نے پلاٹ لینےکی درخواست کی تھی اسوقت کے آرمی چیف جنرل گریسی نے ایوب خان کو پلاٹ دینے سے انکار کردیا تھا، حیران کُن طور پر ایک برطانوی افسر نے اس ملک کی زمین کو اسی دھرتی کے سپوت سےبچایا، شجاع نواز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ فوج اور سول بیورو کریسی میں ایک سے زائد پلاٹس کا کلچر عام ہے، گزرتے وقت کے ساتھ فوج میں ایسی *سویٹ ہارٹ* ڈیلز کو قابلِ قبول بنایا گیا، آئین کے تحت سرکاری سول اور فوجی ملازمین مساوی حیثیت رکھتے ہیں، اضافی نوٹ میں کہا گیا ہےکہ سول سرونٹس ساٹھ سال، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس باسٹھ سال کی عمرمیں ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ سال ہے اگر ججوں کے پاس رہنے کیلئے جگہ نہیں تو انہیں زندگی گزارنےکیلئے معقول پینشن دی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ میں ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے کہا مالی سال دو ہزار بیس۔اکیس کیلئے پنشن کی مد میں چار کھرب ستر ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں،ایک کھرب گیارہ ارب روپےسرکاری ملازمین کی پنشن کیلئے مختص کیئےگئے ہیں، تین کھرب انسٹھ ارب روپے سے زائد کی رقم افواج پاکستان کے ریٹائرڈ افسران اور اہلکاروں کیلئے رکھی گئی ہے، پنشن کی مد میں ادا ہونے ہونے والی رقم سویلین حکومت چلانے کے اخراجات کے تقریبا مساوی ہے، اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت بیرون ممالک سے قرض لے کر خسارہ بڑھا رہی ہے، رواں مالی سال میں انتیس کھرب چھیالیس ارب روپے سے زائد کی رقم قرض کی صورت میں ادا ہونی ہے، وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ بجے جو ابھی پیدا ہونے ہیں انکے بچے بھی غربت کا شکار ہونگے، پاکستان کا فوجی اور عدالتی نظام برطانوی طرز پر قائم ہے، بیشتر پاکستانیوں کو بنیادی رہائش کی سہولت تک میسر نہیں، قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جائے، ملک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن کے اصول کی نفی ہے، اس فیصلے کی کاپی اردو زبان میں بھی جاری کی جائے۔۔۔!!
*کالمکار: جاوید صدیقی*