عنوان: الله کے ناپسندیدہ بندوں کا حشر

ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان: الله کے ناپسندیدہ بندوں کا حشر
تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال قبل کی بات ھے جب ایک بہت ہی زبردست قوم ہوا کرتی تھی ۔ وہ لوگ سائنسی ترقی و ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی کی معراج پر تھی۔وہ لوگ پہاڑوں کو اس خوبصورت طریقے سے تراش کر مضبوط ترین محلات اور تعمیرات کیا کرتے تھے کہ آج کی سائنس انکی عقل دانش پر اشک کر اٹھے۔وہ لوگ بے حد ذہین اور ماہرین تعمیرات تھے کہ جنت بنادیا کرتے تھے وہ انتہائی طاقتور قد آور بھی تھے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ اُس دور کی سپر پاور کہلاتے تھے۔اپنی ترقی تعمیرات و خصوصیات کیوجہ سے سرکش ہوتے چلے گئے۔وہ خدائے وحدہ لاشریک کے وجود سے منکر ہوگئے تھے۔ انبیاء کرام انکو ہدایت کی بات سمجھاتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اذیتیں پہنچاتے، اپنی بستیوں سے تشدد کرکے نکال دیا کرتے ۔ وہ خطہ بہت سر سبز و شاداب تھا لیکن جب ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو انکے ہاں بارشیں روک دی گئیں لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئے ۔ ان کے ہاں بارشوں اور بادلوں نے اپنے رب کے حکم سے بالکل رخ پھیر لیا جس کی وجہ سے وہاں قحط سالی کی صورت حال پیدا ھوگئی تھی ۔ پھر ایک روز انتہائی عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔ انہوں ایک روز آسمان پر اٹھنے والے ایک دھوئیں کے بادل کو دیکھا جو تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا اس بادل کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھے کہ انکی قحط سالی ختم ہوگئی ہے یہ بادل خوب برسے گااور ایک بار پھر انکے ہاں ہرطرف ہریالی اور سبزے کا دوردورہ ہوجائیگا۔ لیکن یہ بادل قہر برسانے والا تھا۔ یہ وہ بادل نہیں تھا بلکہ اس بادل نے سوائے انکے مضبوط مکانات محلات کے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔قرآن پٌاک میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح ملتا ھے۔
*فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۭ بَلْ هُوَ مَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭرِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 24ۙ*
*تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ 25*
پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک ابر ہے جو انکے میدانوں کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے، کہنے لگے کہ یہ تو ابر ہے جو ہم پر برسے گا، (نہیں) بلکہ یہ وہی ہے جسے تم جلدی چاہتے تھے یعنی آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر ایک چیز کو برباد کردیگی پس وہ صبح کو ایسے ہوگئے کہ سوائے ان کے گھروں کے کچھ نظر نہ آتا تھا، ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیا کرتے ہیں۔ 24/25 سورۃ احقاف ۔۔۔۔۔۔!!
وہ ایک ایسی تند و تیز اور تابکاری اثرات والی ھوا تھی جس نے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس خطۂ زمین کو آباد نہیں ھونے دیا۔ وہاں پر کسی نباتات اور ہریالی کو نہ تو چھوڑا اور نہ ہی کسی کو سلامت رھنے دیا تھا۔ وہ ہوا جہاں جہاں سے گزرتی انسانوں کے جسموں سے گوشت کو اتار کر اسے صرف ہڈیوں کا پنجر رھنے دیتی (ایٹمی حملے کیطرح انسان کے جسموں کا گوشت پگھل کر بھاپ میں تبدیل ہوتا گیا) وہ ھوا ایسی بانجھ کردینے والی تھی جیسے تابکاری کسی جگہ کی زمین کے اندر تک اثر کرکے اس کو بانجھ کر دیتی ھے کسی چیز کو پیدا نہیں ھونے دیتی ۔الله تعالیٰ قرآن الحکیم میں ارشاد فرماتا ہے ۔
*وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ 41ۚ*
اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا (بانجھ ہوا) بھیج دی۔ (41)
*مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42ۭ*
وہ جس چیز پر سے گزرتی اسے بوسیدہ ہڈیوں کی طرح کئے بغیر نہ چھوڑتی۔ سورۃ الذاریات 41/42
اس تابکاری نما ھوا نے ان کے جسموں کو گوشت کے بغیر بوسیدہ ہڈیوں جیسا بنادیا۔ سب کچھ مٹ گیا۔ نہ نخلستان رھے نہ خوشنما باغات نہ سبزہ۔ ھر طرف اڑتی ریت اور انسانی ڈھانچے رہ گئے ۔ یہ پورا خطہ خالی ہوگیا۔ آج بھی یہاں دور دور تک صرف ریت اڑتی نظر آتی ھے۔ آج کے زمانے میں اس خطے کو ربع خالی کے نام سے ہی پکارا جاتا ھے۔ پانچ ہزار سال سے زائد گزر گئے۔ ایک روز اسی علاقے سے دنیا کے بہترین انسانوں کا ایک لشکر گزرا جس کی قیادت کائنات کے سب سے بہترین انسان کر رھے تھے۔ لشکر ایک طویل مسافت طے کرکے آرھا تھا۔ اھل لشکر نے اس خطے میں کچھ کھنڈرات دیکھے تو وھاں کچھ دیر رک کر آرام کرنے اور کھانے پینے کا ارادہ کیا۔ وہیں ایک کنواں بھی موجود تھا۔ اھل لشکر نے کنوئیں سے پانی لیا وھاں کچھ خشک لکڑیاں اکٹھی کی اور ان کو جلا کر روٹی اور سالن تیار کرنے لگے۔ جب دوجہاں کے سردار خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور لشکر کے قائد کو اس بارے معلوم ھوا تو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کنوئیں سے نکالا ھوا پانی ، پکائی ھوئی روٹیاں اور تیارشدہ سالن کو ضائع کردو اور اس میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ اور نہ ہی پیو۔ جتنی جلدی ھوسکے یہاں سے آگے نکل جاؤ ورنہ تم سب پر بھی بلا آسکتی ھے ۔ یہاں پر ایک قوم کو عذاب دیا گیا تھا۔ یہاں کی کسی چیز کو مت استعمال کرنا۔ یہ کھانا جو ایک بڑے لشکر کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ بہت بڑی مقدار میں تھا لیکن آپ ﷺ کے حکم پر سارے کا سارا ضائع کردیا گیا۔ یہ آپ ﷺ کا علم جو اللہ نے عطا کیا تھا کہ آپ ﷺ نے اس جگہ پر نہ نظر آنے والی وبا یا بلا کا پتہ لگالیا تھا جو انسانوں کیلئے مہلک تھی ۔قران پاک میں اس ھوا کیلئے لفظ *ریح العقیم* استعمال کیا گیا ھے۔ ریح کا مطلب ھوا اور عقیم بانجھ عورت مرد یا زمین کو کہا جاتا ھے ۔
علمائے کرام اس لفظ بانجھ ھوا کے معنی عرصہ دراز تک تلاش کرتے رھے لیکن ایسی بانجھ ھوا کے بارے میں نہ جان سکے جو اتنی ہلاکت خیز تھی کہ جسم سے گوشت پگھلا کر ھڈیوں کو بوسیدہ کردے اور اس جگہ پر موجود ھر چیز کو ایسا بانجھ کردےکہ وہاں ھزاروں سال بعد بھی کوئی چیز کچھ نہ پیدا کرسکےموجودہ دور میں جب ایٹمی تجربات اور انکی تابکاری کے بارے میں جاننے کے بعد خیال اس طرف جاتا ھے اور قران پاک کی ان آیات کےمفہوم واضح ھونے لگے۔ ایک ایسا بادل جو نہایت برق رفتاری سے بڑھتا ھے اور پھر آناً فاناً تباہی مچا دیتا ھے کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا پھر اس کے بعد ایک ایسی بانجھ ھوا جو سب کچھ ختم کرکے ہزاروں سال تک وہاں کچھ پیدا نہیں ھونے دیتی ۔اللہ پاک ھم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنے حبیب ﷺ کے صدقے کسی بھی ایسی پکڑ سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔معزز قارئین!! بات یہاں مکمل نہی ھوتی میرے کالم کا عنوان تو یہ کہتا ھے کہ موجودہ زمانے میں بھی انسان پہلے کی نسبت کئی گناہ طاقتور سںبک رفتار ھونے کے ساتھ ساتھ منکر خدا اور لادینی رجحان کی طرف زیادہ تیزی سے بڑھ رھا ھے اور اگر مسلمانان عالم کی بات کی جائے تو ارض زمین پر سب سے زیادہ مسلمانوں کی ھے کیا وجہ ھے کہ ھم کثیر تعداد میں ھوتے ھوئے بھی قلیل یہودیوں کفار و مشرکین سے بری طرح مار کھا رہے ہیں پھر بھی ہماری عقلوں پر پردے چھائے ھوئے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے اور ریاست میں عدل و انصاف کا خاتمہ غرور و تکبر حرص و حسد اور سب سے بڑھ کر دین سے دوری ھے۔ منافقت اور ریاکاری کے فروغ نے ہمیں کہیں کا نہی چھوڑا ھے۔ حرام کی دولت اور عیاشیاں اب گناہ میں تصور نہیں گویا مسلماں تو ھیں پر ایمان نہیں اور جو ایمان سچ و حق پر قائم ہیں ان پر سخت سے سخت ترین آزمائش ہوتی ہیں درحقیقت آزمائش میں کامیابی پانے والے ہی الله کے مقرب بندے اور رسول خدا کے غلامی کا شرف پاتے ھیں
الله مجھے بھی اپنے نیک بندوں اور آقا کے غلامی کا شرف بخش دے آمین ثما آمین
کالمکار: جاوید صدیقی