کالم/مضامین

عنوان: اساتذہ کرام خود کو پہچانیں

*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*

*عنوان: اساتذہ کرام خود کو پہچانیں*

پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد بھارت سے بہت بڑی تعداد میں ماہر تعلیم نے ہجرت کی جن میں کثیر تعداد آل انڈیا مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالبعلوں کی تھی جو پاکستان بھر میں پھیل کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ علیگیرین جو ہجرت کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے وہ تمام ہمارے ان چند تعلیمی موتیوں جواہرات اور سرمایہ میں سے نایاب ہیں ان میں ابھی کچھ ہم میں موجود ہیں اور بیشتر ہم سے جدا ہوکر خالق حقیقی سے جاملے ہیں’ ان میں میرے والد ماہر تعلیم سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میرپورخاص سردار حسین صدیقی (علیگیرین) مرحوم بھی تھے انھوں نے اپنی تمام عمر درس تعلیم کو عبادت کی طرح ادا کیا۔۔۔۔ معزز قارئین!! آج میں اپنے کالم میں پروفیسر عنایت علی خان کے ان سنہری حروف کو شامل کررہا ہوں جو انھوں نے موجودہ اساتذہ کرام کیلئے کہے ہیں پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مدللسی (تعلیم) سے بہتر پیشہ ہے نہیں دنیا میں’ ایک تو یہ کہ ہمارے بزرگوں نے ان پیشوں کو پیشہ نہیں بنایا خدمت خلق کا ذریعہ بنایا ایک طب دوسرا تعلیم۔۔ آج بدبختی سے ان ہی دونوں پیشوں میں سب سے بڑھ کر استحصال ہے۔ نورالامین ہے لیکن اس سے بہتر پیشہ کوئی نہیں ہے’ یہ جنت بھی ہے اور دوزخ بھی ہے۔ بچوں کو آپ پڑھائیے اخلاق’ سیکھائے’ دین سیکھائیے تو یہ آپ کی جنت ہے شرط یہ ہے کہ آپ کے سامنے دو لفظ ہمیشہ رہیں’ دو لفظ کیا ہیں اساتذہ سے معذرت کیساتھ کہ شائد ان کے کام آجائیں میم بڑی حے نون اور تے یہ تو ہوئی محنت۔ اپنےمضمون پر کامل ہو دسترس آپ کی مجال ہے کہ بچہ اِدھر سے ادھر دیکھ لے مستقل آپ کی طرف متوجہ رہیگا کچھ ملنا ہے اسکو آپ سے یہ تو ہوئی آپکی *محنت* ۔۔ الله کے نبی مثال تھے نا تو محنت میں نون کا نقطہ اوپر ہے اس نون کے نقطے کو نیچے لے آئیے تو یہ لفظ بن جاتا ہے *محبت* اگر آپکو محبت ہے شاگردوں سے جسطرح اپنی اولاد سے جسطرح آپ کو فکر ہے اپنی اولاد کی کامیابی اورمستقبل کی اگر وہی جذبہ آپ کیلئے طالبلعم میں ہے توکہیں نہیں جاتا شاگرد آپ سے باہر یہ واحد پیشہ ہے دنیا کا جہاں ریٹائرڈمنٹ کے بعد عزت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی باقی شعبے ہیں انکے سربراہ ہیں نیک بھی ہوتےہیں ہمدرد بھی ہوتے ہیں لیکن جب تک کرسی پر ہیں تب تک عزت زیادہ ہے اترنے کے بعدکیونکہ ان سے منفعت دست کی امید نہیں رہتی اس لیئے کچھ نہ کچھ کمی ہو ہی جاتی ہے لیکن یہ تعلیم کا پیشہ وہ پیشہ ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے آپ کی عزت فضوں ہوتی جاتی ہے کلاس میں بچہ شوخی بھی کرتا ہے شرارت بھی کرتا ہے لیکن وہی شاگرد بیس سال بعد جب آپ کو ملے گا کیا کوئی مرید اپنے پیر کی محبت و عشق اور عزت کرتا ہےوہ آپکی کیفیت ہوتی ہے یہ لازوال پیشہ ہے پیغمبرانہ پیشہ ہے الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یوں تو ہر پیشے میں’ ہر شعبے میں’ ہر شعبہ حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال’ مثالِ عالی تھی لیکن ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا میں تو بھیجا ہی گیا ھوں معلم بنکر تو یہ پیشہ معلمانہ پیشہ ہے الله تعالی ہمارے اساتذہ کرام کو توفیق دے کہ اس پیشے کی منزلت کو اسکے مقام کو اور اسکی عظمت کو پہچانیں اور بچوں کو سہارا دیکر سمجھا کر اپنی جنت کمالیں۔۔۔معزز قارئین!! یہ موضوع سرکاری درسگاہوں کے اساتذہ کرام کیلئے ہے کیونکہ نجی تعلیمی ادارے مکمل کاروباری سطح پر تعلیم فروخت کرتے ہیں جیسی فزیکلی سہولیات اسی قدر قیمت طے کی ہوئی ہوتی ہیں مقصد دولت کمانا نا اہل شاگردوں کو پاس کرنا چاہے وہ ریاست کے نظام کیلئے ناسور بن جائیں کیونکہ کوٹہ سسٹم کے تحت سرکاری نوکری انکا قانونی حق ہے اہلیت کی شرط نہیں۔ جب اس طرح کے طالبعلم تعلیم گاہوں میں اساتذہ تقرر ہونگے تو نتیجہ یقیناٌ منفی اور نقصان دہ برآمد ہوگا سرکاری تقرر ہونے کی وجہ سے برخاست بھی نہیں کیئے جاسکتے یہی حال تعلیمی افسران اور وزرا و مشیران کا ہے بس میں سندھ کے حوالے سے ایک جملہ ادا کرتا ہوں کہ کوثہ سسثم جب تک ہے اس وقت تک ناہلیت کا راج رہیگا اور تعلیم کا جنازہ نکلتا رہیگا۔۔۔!!

*کالمکار: جاوید صدیقی*

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You