عنوان:ملحد کافر قادیانیوں کی فتنہ بازیاں جاری

ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان:ملحد کافر قادیانیوں کی فتنہ بازیاں جاری
گزشتہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں قادیانی قوتوں نے سر اٹھانا شروع کردیئے اور خفیہ سرگرمیوں کو تیز کردیا تھا جو تا حال جاری ہیں۔ سب سے پہلے واضع کرتا چلوں کہ قادیانیوں احمدیوں لاہوریوں سمیت تمام جھوٹے نبوت کے عویداروں کیلئے آئین میں کمی ہوگئی۔ قرآن کی رو سے مرتد اور اسلام سے منحرف کافر ھونے پر قتل واجب ھے جبتک ان خبیثوں کیلئے آئین میں واجب القتل شق عائد نہیں کی جائیگی اس وقت تک یہ قادیانی اور انکے ٹولے مذیب اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔معزز قارئین!! وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پروفاقی کابینہ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں بطور غیر مسلم شامل کرنیکی اصولی منظوری دیدی اور اسطرح انکو وہ سب اقلیتی حقوق مل گئے جو باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں.( یعنی اپنی مرضی کی عبات ، مرضی کی عبادت گاہ وغیرہ کا حق)قادیانیوں نےشروع دن سے یہی اقلیتی حقوق حاصل کرنے کیلئے سر توڑ کوششیں کی تھی لیکن ھر بار ناکام رہے مگر کچھ عرصہ قبل حکومت نے ان کا وہ دیرینہ مطالبہ خاموشی سے تسلیم کرلیا.قادیانی پہلے دن سے خود کو اقلیت تسلیم کرکے اپنے اقلیتی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن انکو اقلیتی حقوق نہیں دیئے جارہے۔ انکے اقلیتی حقوق آخر ہیں کیا اور کیوں نہیں دیئے جارہے؟ جبکہ باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں. قادیانیوں کو کافر یعنی غیر مسلم تو قرار دیدیا گیا اور حکم تھا کہ وہ اپنی عبادتیں اور عبادت گاہیں مسلمانوں جیسی نہیں کریں گے تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ کھا کر ان کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھیں. نہ یہ سرعام ھمارا کلمہ پڑھ سکتے تھے نہ یہ اذان دے سکتے تھے نہ کلمہ لکھ سکتے تھے نہ ہی قرآن پاک کو پکڑ سکتے تھے نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد لکھ سکتے تھے. کافر مرتد قرار دینے سے پہلے یہ ھماری نماز پڑھتے تھے ھمارے قرآن کو اپنی کتاب کہتے تھے ھمارے روزے جیسے روزے رکھتے تھے ھماری مسجد جیسی مسجد ھوتی تھی جسے یہ مسجد کہتے تھے لیکن کافر قرار دینے کے بعد اب سب کچھ بدل گیا تھا. اب انکو چاہیے تھا کہ ھمارے دین کی جان چھوڑ دیتے. ھماری نماز بھی چھوڑ دیتے ھمارے قرآن کو بھی چھوڑ دیتے ھماری مساجد کی جان بھی چھوڑ دیتے.یہ اپنا نیا نبی بناتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی نئی کتاب ایجاد کرلیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ اذان ایجاد کرلیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ طرح کی عبادت بنالیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ عبادت گاہ بنالیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ انکے لئے بہت سخت سزا تھی. یہ معاملہ ان کیلئے موت کے جیسا تھا.یہ سرعام دوسرے مذاھب کیطرح عبادت کرنا چاھتے تھے روزے رکھنا چاھتے تھے اذانیں دینا چاھتے تھے لیکن جب سے کافر مرتد قرار دے دیئے گئے تھے تب سے یہ سب بند ھوگیا تھا. پولیس انکے علاقوں میں گشت لگانے لگی. انکے گھروں مکانوں دفتروں اسکولوں اور عبادت گاہوں سے کلمہ طیبہ اور اللہ کا نام مٹایا جانے لگا جہاں جہاں سے بھی شک پڑتا کہ یہ مسلمان شو ھوتے ہیں وہ نشان مٹا دیئے گئے اگر کوئی قادیانی کلمہ پڑھتا پکڑا جاتا تو پولیس اسے حوالات میں ڈال دیتی اذان دینے کی کوشش کرتے یا سرعام پہلے کیطرح نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تو پولیس انکو اٹھا کر جیل بھیج دیتی رفتہ رفتہ انکی زندگیوں سے اسلام نکال دیا گیا.قادیانیوں کیلئے یہ سب کسی طرح قابل قبول نہیں تھا۔ انکے پاس ایک آپشن تھا کہ قادیانیت سے توبہ کرکے اسلام کیطرف لوٹ آتے لیکن بدقسمتی سے وہ اس طرف بھی نہیں آتے تھے. پولیس آج بھی کسی قادیانی کو اذان دیتے یا تلاوت کرتے پکڑ لے تو اسے سیدھاجیل بھجوا دیتی ھے. سنہ انیس سو تہتر سے لیکر انیس سو چوراسی تک گیارہ سال گزر گئے قادیانی اس دوران کوشش کرتے رھے کہ ھمیں اقلیت ہی سمجھ لیا جائے کافر ہی سمجھ لیا جائےلیکن ھمیں دوسرے غیر مسلموں کے برابر حقوق دیئے جائیں انکی طرح سرعام عبادت کا موقع دیا جائے اور یہ ھو نہیں سکتا تھا انکو ھر جگہ سےمایوسی کا سامنا کرناپڑا. سنہ انیس سو چوراسی میں انہوں نے خود کو اقلیت منوانےاقلیتی حقوق حاصل کرنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرلیا. عدالت نے بتایا کیونکہ یہ مذھبی معاملہ ھے اسے شرعی عدالت میں لے جایا جائےچنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کردی گئی. اس کا حوالہ نمبر یہ ھے۔شریعت درخواست نمبر سترہ/ آئی سنہ انیس سو چوراسی شریعت درخواست نمبری دو ایل سنہ انیس سو چوراسی یہ درخواست دو قادیانی افراد کیطرف سے تھی. جنکے نام یہ ہیں.مجیب الرحمن وغیرہ بنام وفاقی حکومت. ریٹائرڈ عبدالواجد وغیرہ بنام اٹارنی جنرل پاکستان۔اس شرعی عدالت کے جو جج صاحبان کیس سن رہے تھے انکے نام یہ ہیں.جسٹس فخر عالم چیف جسٹس، چوہدری محمد صدیق جسٹس، مولانا ملک غلام علی جسٹس، مولانا عبدالقدوس قاسمی جسٹس کیس میں وکلاء کے علاوہ جن علماء نے وکلاء کی مدد کی انکے نام یہ تھے.
قاضی مجیب الرحمن۔ پروفیسر محمد احمد غازی۔ محمد صدرالدین الرافعی۔علامہ تاج الدین حیدری۔پروفیسر محمد اشرف۔علامہ مرزا محمد یوسف۔پروفیسر محمد طاھر القادری ۔مسلمانوں کیطرف سے پیش ھونے والے وکلاء کے یہ نام تھے. حاجی شیخ غیاث محمد ایڈوکیٹ۔ مسٹر ایم بی زمان ایڈوکیٹ۔ ڈاکٹر سید رضی الحسن گیلانی ایڈوکیٹ۔ کیس میں قادیانیوں کا موقف تھا کیونکہ ھمیں اقلیت قرار دے دیا گیا ہے لیکن اسکےباوجود ھمیں اپنے طریقے کیمطابق عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی. انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ھر انسان کو اپنے مذھب پر چلنے اور مذھبی رسومات و عبادات کرنے کا حق حاصل ھوتا ھے. پاکستان کے اندر باقی سب اقلیتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن صرف قادیانیوں کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی بلکہ انکو پکڑ کر تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جارہا ہے. یہ قادیانیوں کی انتہائی خوفناک چال تھی وہ اس درخواست میں خود کو غیر مسلم تو تسلیم کررہے تھے لیکن بدلے میں جو کچھ مانگ رھے تھے وہ بہت خوفناک تھا اگر انکو اقلیتی حقوق کے تحت عبادت کی اجازت مل جاتی تووہ صرف نام کے قادیانی رہ جاتے لیکن انکو سبھی اجازتیں حاصل ھوجاتیں جن کے تحت وہ مسلمانوں کی طرح عبادات بھی کرتے مسجدیں بھی بناتے اور ھر وہ عبادت کرتے جو مسلمان کرتے ہیں۔قادیانیت کے حوالے سے ملکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ تھا جسمیں بظاھر یہ لگ رہا تھا کہ مسلمان یہ مقدمہ ھارجائیں گے اسکی وجہ یہ تھی کہ دنیا کےکسی مذھب قانون اور آئین میں نہیں لکھا ھوا کہ کسی شخص کو اسکی اپنی مرضی کیمطابق عبادت کرنے کا حق نہیں دیا جائے خود پاکستان کے آئین و قانون اور اسلام میں بھی ھر شخص کو مرضی سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر بھی پابندی نہیں ھے پھر اپنی عبادت گاہ کو اپنی مرضی کےنام سےبھی پکارنے کا حق ھے.مثلاً سکھ اپنا گردوارہ بناسکتے ہیں اسکا نام گردوارہ رکھ سکتے ہیں. ھندو مندر بناسکتے ہیں مندر کو مندر کہہ سکتے ہیں. عیسائی گرجا بناسکتے ہیں اسے گرجا کہہ سکتے ہیں لیکن قادیانیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے کی اجازت تھی. کیس کی سماعت چلتی رہی کئی ماہ گزر گئے۔دونوں جانب سے دلائل کے انبار لگا دیئے گئے چھوٹے سے چھوٹے نقطے پر بحث کی گئی اور آخرکار شرعی عدالت نے بارہ اگست سنہ انیس سوچواسی کو مقدمے کا فیصلہ سنادیا. ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل فیصلے میں بہت ہی واضح الفاظ میں کہا گیا کہ قادیانی جھوٹے کافر مرتد ہیں انکو دوسرے مذاھب کی طرح کھلے عام عبادات کرنے اذان دینے قرآن پاک کی تلاوت کرنے مسجدیں بنانے کلمہ پڑھنے کلمہ لکھنے اور خود کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی یعنی وہ قرآن پاک کے بجائے غلام قادیانی کی کتابوں کو مذھبی کتاب کہہ سکتے تھے. نماز کے بجائے ڈانس کرکے عبادت کرسکتے تھے. اذان کی جگہ چیخیں مار کے لوگوں کو عبادت کیلئے بلا سکتے تھے. مسجد کے بجائے اپنی عبادت گاہ کو ریلوے اسٹیشن یاکوئی اور اسٹیشن کہہ سکتے تھے.کلمےکےبجائے اپنی عبادتگاہ پر غلام قادیانی کانے کی بونگیاں لکھ سکتے تھے لیکن مسلمانوں کیطرح کا کوئی کام نہیں کرسکتے تھے۔ یہ قادیانیوں کی ایک بڑی شکست تھی. قادیانی دوسری بار عدالت سے بھی کافر قرار دے دیئے گئے تھے. اب وہ کسی اور موقع کی تلاش میں تھے. یہ موقع اس فیصلے کے انتیس سال بعد سنہ دوہزار تیرہ کو انکے ہاتھ آتا بائیس ستمبر سنہ دو ہزار تیرہ کوپشاور میں ایک گرجا گھر پر حملہ ھوا جس میں کافی لوگ جاں بحق ھوگئے. اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی بینچ تشکیل دیدیا جسکا مقصد تھا کہ آئین کے آرٹیکل بیس کی روشنی میں اقلیتوں کے جان و مال اور عبادتگاھوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے.یہ قادیانیوں کیلئے ایک طرح سے لاٹری تھی. عاصمہ جہانگیر زندہ تھی اور ماحول بھی سازگار تھا. اس تین رکنی بینچ نے انیس جون سنہ دو ہزار چودہ کو فیصلہ دیا کہ ایک اقلیتی کمیشن قائم کیاجائے. فیصلے میں لکھا گیا ” ھم سمجھتے ہیں کہ اگر مذھبی اقلیتوں کی عبادت گاھوں کی بے حرمتی کرنے والوں کیخلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ھوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہوچکا ھوتا” اس فیصلے کے کچھ دن بعدلاھور کے ایک بڑے ھوٹل میں عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کیجانب سے ایک عوامی اسمبلی بلائی گئی جسمیں تین سو کے قریب صحافی دانشور مزدورراھنما مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وکلا شامل تھے اس عوامی اسمبلی نے اقلیتی کمیشن کے قانون کا مسودہ تیار کیا.اسمیں خاص طور پر عبادت گاھوں کی حفاظت کیلئے خصوصی پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی وہ عبادتگاہیں جنکی پولیس نگرانی کرتی تھی کہ وہاں کوئی قانونی خلاف ورزی تو نہیں ھورہی وہی پولیس اب انکا تحفظ کرتی. یہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتوں کی عبادات کی آزادی کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں اگست کی دس تاریخ کو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر لاھور میں اقلیتوں کے ایک نمائندہ کنونشن میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فی الفور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک بااختیار قومی کمیشن قائم کرے. یاد رھے کہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو رولز آف بزنس سنہ انیس سو تہتر شیڈول دو، (بارہ) چونتیس کے تحت وزارت مذھبی امور کے حوالے کیا گیا تھا. کمیشن کی آخری ہیئت اور نظرثانی شدہ ٹی او آرز کو سنہ دو ہزار چودہ میں ری نوٹیفائی کیا گیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلےکی ھدایت پرکمیشن کو ایک بار پھر تین سال کیلئے نوٹیفائی کیاتھا. اب موجودہ حکومت نے کہاں پر آکر چالاکی دکھائی اور قادیانیوں کو اس میں شامل کیا. اقلیتی کمیشن میں شامل ممبران نے رائے دی کہ کمیشن کی خود مختاری کیلئے ضروری ہے کہ اس میں اقلیتی برادری کو بڑھایا جائے اور کمیشن کا چئیرمین بھی کسی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے جو کہ قادیانی بھی ھوسکتا ھے. اقلیتی کمیشن کے ممبران کی یہ سمری مذھبی امور کو بھیجی گئی (پوائنٹ نمبر ایک) وفاقی کابینہ نےمذھبی امور کیجانب سےجمع کرائی گئی سمری ” نیشنل کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل نو” کی سمری کو اصولی طور پر منظورکرتےہوئےکمیشن کیلئے اصول متعین کئے کہ کمیشن ممبران کی اکثریت کا تعلق اقلیتی برادری سے ھونا چاہئے۔ کمیشن کا سربراہ بھی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے (پوائنٹ نمبر دو)اور احمدی کمیونٹی سے بھی ممبران کوکمیشن میں شامل کیا جائے (پوائنٹ نمبر تین) انتیس اپریل سنہ دو ہزار بیس جیسے ہی قادیانی اس کمیشن میں شامل ھوتا اور اس نے ھوجانا تھا کیونکہ بدلے میں وہ کچھ ملنے والا تھا جو وہ سنہ انیس سو چوراسی میں عدالت سے نہیں لے سکے تھے کیونکہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتی کو انکی کھلے عام عبادت کی اجازت دیتا ھے. عبادت گاھوں کے تحفظ کاحکم دیتا ھے ورنہ اس کمیشن کو نالے پراندے بیچنے کیلئے نہیں بنایا گیا تھا. یہ بکواس کہ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے یہ بالکل جھوٹ ھے وہ اس قیمت کے بدلے ھزار بار خود کو اقلیت ماننے کیلئے تیار ہیں اگر بدلے میں انکو مساجد کی تعمیر اور مسلمانوں کیطرح عبادت کا حق مل جائے. یہ ایک عظیم سازش تھی۔سنہ انیس سو چوراسی کا کیس اسکی شہادت دیتا ہیکہ قادیانی ھمیشہ کوشش کرتے رھے ہیں کہ انکو مسلمانوں جیسی عبادت کرنے کی پوری آزادی دیجائے لیکن ھر بار انکو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اب اس کمیشن میں شامل ھوتے ہی انکو سب کچھ مل جاتا جس کیلئے وہ ترلے لے رھے تھے۔ قادیانیوں کی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کیلئے مجھ سمیت ہر سچا لکھاری ختم نبوت کے سپاہی بن کر قادیانیت کا منہ کالا کرتا رہیگا انشاء الله..غلامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موت بھی بول ھے۔ لبیک یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ الله مجھے قادیانیوں احمدیوں لاہوریوں اور خوارجیوں کے خلاف جنگ میں شہادت نصیب فرمائے أمین۔۔۔!!
کالمکار: جاوید صدیقی