عنوان:ریاست مدینہ ثانی (پاکستان) کے لوگو غفلت سے بیدار ہوجاؤ
ٹائٹل: بیدار ھونے تک
عنوان:ریاست مدینہ ثانی (پاکستان) کے لوگو غفلت سے بیدار ہوجاؤ
دنیا کی دوسری نظریہ اسلام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان جو موجودہ حکومت کے اعلان کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاست مدینہ ثانی بن چکی ہے۔ یہودی و نصرانی نظام کے خاتمے کی شروعات بھی کردی گئی ہیں اس بہترین اسلامی نظام کے اجراء اور نفاذ کیلئے عدالت عظمیٰ اور سپہ سالار اعلیٰ کا بھی بھرپور تعاون شامل حال ہے لیکن اب ہماری عوام الناس کو بھی اپنے کردار اور اعمال سے ریاست مدینہ ثانی ثابت کرنا ہے۔ تمام اداروں کے سربراہان اورمملکت پاکستان کی قوم کو غفلت سے بیداری کیلئے نقش حیات حضور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی ہمت کررہا ہوں الله مجھے ہدایت نصیب فرمائے آمین۔ ہماری زندگیوں کی کامیابی و کامرانی سنت رسول اور احکامات رسول میں پنہا ہیں۔ معزز قارئین!! وفات سے تین روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ”میری بیویوں کو جمع کرو۔” تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:”کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟” سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہےپھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگےرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور مسجدنبوی میں ایک رش لگ گیا ۔آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا اور فرماتی ہیں:”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔” مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ”لا إله إلا الله،بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔”اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر سات مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:” اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟”سب نے کہا:”جی ہاں اے اللہ کے رسول” ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔”پھر مزید ارشاد فرمایا:”اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔”(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا:”اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔” مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے”اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کرکے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پرقربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان…..”روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔”آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:”اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔”پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسےاستعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:” آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کردیا۔”أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:”پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ نہ سکے کیونکہ نبی کریم علیہ الصلواۃ و السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔”پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔”دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔”جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آملو گی۔۔۔”جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:”عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔”جبرئیل امین علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہوکر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔”آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔”ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:”السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟”فرمایا:
"مجھے اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسند ہے۔”ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:”اے پاکیزہ روح۔۔۔!اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!” سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔۔مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد نبوی کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔”رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!”مسجد آہوں اور ہچکیوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:”خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔”اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبرکرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دو عالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھ کر رو دیئے۔۔۔کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:”یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔”
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:”جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔” سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کردی گئی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کرلیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟”پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه.”
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علیٰ محمد کما تحب وترضالہ ۔۔۔۔ !! ۔۔۔۔ معزز قارئین!! ریاست مدینہ میں عشق سے معمور اطاعت گزاری سے سرشار سچے پکے ایمان کی دولت سے مالامال مسلمان تھے اب ریاست مدینہ ثانی پاکستان کو بھی نظام مصطفیٰ کو رائج و قائم کرکے ہی عدل و انصاف کو قائم کیا جاسکتا ہے دیکھتا ہوں کہ میری زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ نہیں لیکن ایک بات اچھی طرح سے سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے مجھے خود بدلنا ہے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احکام الہٰی کی پیروی میں بقیہ زندگی گزار کر اپنی نسل کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کرونگا الله مجھے ایمان کی موت عطا کرے آمین ثما آمین۔۔۔ !!
کالمکار: جاوید صدیقی