عجائباتِ_کائنات کئی سو نوری سال کی مسافت پر زحل سیارے جیسا ایک اور فلکیاتی حُسن
عجائباتِ_کائنات کئی سو نوری سال کی مسافت پر زحل سیارے جیسا ایک اور فلکیاتی حُسن
سیارہ J1407 B
حافظ یاسر لاہوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نظام شمسی (Solar system) میں بہت سے محیر العقول نظارے موجود ہیں۔ جن میں سے ایک سیارہ زحل (Planet Saturn) بھی ہے۔ اس سیارے کی سب سے بڑی خاص بات اس کے گرد بڑے بڑے اور روشن حلقوں (Rings) کا ہونا ہے۔ اس قدر بڑے اور روشن حلقے اسے ہمارے نظام شمسی کا منفرد اور خوبصورت ترین سیارہ بناتے ہیں۔ زحل کے گرد موجود حلقوں کا حجم (Size) کتنا بڑا ہے؟ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ "ہماری زمین اور چاند کے درمیانی فاصلے میں سے ایک لاکھ کلومیٹر نکال دیئے جائیں تو زحل کے حلقوں کا ڈایا میٹر اس بچ جانے والے فاصلے کے برابر ہو گا (زمین اور چاند کا درمیانی فاصلہ تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر 384000km ہے)
یہاں زحل کا ذکر فقط سرسری سا کیا جا رہا ہے جبکہ ہماری تحریر کا موضوع زحل نہیں بلکہ وہ سیارہ ہے، جو ہماری دنیا سے بہت بہت دور کسی دوسرے نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔ اسی سیارہ کے متعلق کچھ اہم گفتگو اگلی سطور میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 2007 کی بات ہے۔ فلکیاتدانوں کی آوارہ نگاہیں ٹیلی سکوپ و ضروری فلکیاتی آلات کی مدد سے خلاء میں گم تھیں۔ ہمارے سورج سے 434 یا 420 نوری سال دور ایک ستارہ J1407 ڈھونڈا گیا۔ جس کی عمر ہمارے سورج کی عمر سے کافی کم ہے۔ ہمارا سورج ساڑھے چار ارب سالوں پر محیط فلکیاتی زمانہ دیکھ چکا ہے۔ جبکہ یہ ستارہ ابھی صرف 16 ملین (ایک کروڑ ساٹھ لاکھ) سال کی عمر کو پہنچا ہے۔ ماس کے لحاظ سے یہ ستارہ سورج سے تھوڑا ہی کم ہے۔ اس سے پہلے ہم انسانوں نے اس قدر عجیب و نایاب فلکیاتی معلومات حاصل نہیں کی تھی۔
ستارے تو بے شمار تلاش ہو چکے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ تو پھر اس ستارے میں کیا خاص بات تھی؟ اس ستارے کے ساتھ جڑی خاص بات یہ تھی کہ اس کے گرد چکر لگاتا ایک نایاب سا سیارہ بھی فلکیاتدانوں کے علم میں آ گیا۔ جسے بعد میں J1407 B کا نام دیا گیا۔
یہ سیارہ J1407 B زحل کے حلقوں کی طرح کے مگر زحل کے حلقوں سے دو سو گنا بڑے حلقے رکھتا ہے۔ زحل کے حلقوں کا ڈایا میٹر (یعنی قُطر) کم و بیش تین لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، جبکہ J1407 B سیارے کے حلقے پانچ کروڑ کلومیٹر سے بھی زیادہ وسعت والا علاقہ لئے ہوئے ہیں۔ یہ سیارہ ماس میں مشتری سیارے سے 14 گنا جبکہ ہماری زمین سے ساڑھے چار ہزار گنا زیادہ بڑا ہو سکتا ہے۔
یہ خوبصورت و نایاب سیارہ اپنے ستارے J1407 كے گرد چکر لگا رہا ہے۔ جس طرح ہماری زمین سورج کے گرد 365 دن میں ایک چکر مکمل کرتی ہے، J1407 B سیارہ اپنے ستارے کے گرد دس ہزار سے بھی زائد دنوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اسے ہم انگلش میں Orbital period کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#اہم_سوال کہ یہ سیارہ تلاش کیسے کیا گیا؟
ہم جانتے ہیں کہ دور دراز کے فلکیاتی علاقوں میں موجود ستارے زمین سے انتہائی مدھم دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر ستاروں کو دیکھنے کے لئے فلکیاتی دوربینیں استعمال کی جاتی ہیں۔ تو اگر دور کے ستارے (جو کہ از خود روشن ہوتے ہیں) ہمیں بمشکل نظر آتے ہیں تو ان کے گرد چکر لگا رہے سیارے (جو کہ از خود روشن بھی نہیں ہیں اور حجم میں بھی انتہائی چھوٹے ہیں) ہم کیسے تلاش کر لیتے ہیں؟ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو اس سوال کا جواب انتہائی آسان ہے۔
آپ نے یقیناً سورج گرہن تو دیکھا ہو گا۔ سورج گرہن کیسے لگتا ہے؟ جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں سے گزرتا ہوا سورج کی روشنی کو زمین تک آنے سے روک لے تو اسے ہم سورج گرہن (Solar eclipse) كہتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی سیارہ اپنے ستارے کی اس جانب سے گزرتا ہے، جس جانب زمین ہے تو ہم اس ستارے کی چمک/روشنی (Brightness) کے کم ہونے پر کچھ سمے، کچھ گھنٹے یا کچھ دنوں تک توجہ دیتے ہیں۔ سیارے کے ستارے کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے ستارے کی روشنی کتنی کم ہوئی؟ اور کتنی مُدّت تک کے لئے کم ہوئی؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں اس سیارے کا حجم اور اس ستارے سے اس کا فاصلہ وغیرہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے دور دراز کے ستاروں کے گرد چکر لگاتے بے شمار سیارے (Exoplanets) دریافت کئے ہیں۔ اس طریقہ کو Transit method کہا جاتا ہے۔
سیارہ J1407 B کو بھی اسی Transit method کے ذریعے تلاش کیا گیا۔ لیکن اب کی بار کچھ خاص اور الگ تھا۔ وہ کیسے؟ ہوا یہ کہ جب فلکیاتدانوں نے ستارہ J1407 پر فوکس کیا تو اس کی روشنی میں کمی (یعنی اس ستارے کی روشنی گرہن لگنے کی وجہ سے کم) ہونا شروع ہوئی، جو کہ اس بات کا ثبوت تھی کہ اس ستارے کے آگے سے اس کے گرد چکر لگانے والا کوئی سیارہ گزر رہا ہے۔ یہاں تک تو ایک عام بات تھی لیکن یہ گرہن چند گھنٹوں کی بجائےکئی دنوں پر محیط ہوتا چلا گیا۔ اس گرہن کی منفرد بات یہ تھی کہ ستارے کی روشنی مستقل طور پر کم نہیں ہوئی تھی، بلکہ کبھی بڑھ جاتی تھی تو کبھی کم ہو جاتی تھی۔
اس صورت حال کی بنا پر فلکیاتدانوں نے اندازہ لگایا کہ J1407 ستارے کے آگے سے گزرنے والا سیارہ ہمارے نظام شمسی کے سیارے زحل کی طرح اپنے ارد گرد حلقے یعنی Rings رکھتا ہے۔ دراصل ستارے کا روشنی اس لئے ٹمٹما رہی تھی کہ جیسے جیسے اس سیارے کے حلقے ستارے کے آگے سے گزر رہے تھے، ویسے ویسے ستارے کی روشنی کبھی چھپ جاتی تھی تو کبھی عیاں ہو جاتی تھی (ہم جانتے ہیں کہ سیاروں کے گرد حلقوں کا سسٹم اپنے درمیان میں خلاء رکھتا ہے)
سیارہ J1407 B کے اپنے ستارے J1407 کے آگے سے گزرنے کی وجہ لگا ہوا گرہن دو چار دن تک نہیں، بلکہ کم و بیش دو مہینے تک جاری رہا۔ بعد میں فلکیاتدانوں نے اس گرہن کے دورانیے اور ستارے کی ٹمٹماہٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ریاضیاتی مساواتوں اور سائنسی طریقوں سے جو اخذ کیا تو پتہ چلا کہ "اس سیارے J1407 B کے حلقے تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ کلومیٹر سے بھی زیادہ بڑا علاقہ رکھتے ہیں” J1407 B سیارے کے حلقے اس قدر بڑے ہیں کہ اگر اس سیارے کو ہمارے نظام شمسی میں زحل (Saturn) کی جگہ رکھ دیا جائے تو زمین سے اس سیارے کے حلقے ننگی آنکھ کے ساتھ بھی نظر آئیں گے۔ ہم ان حلقوں کو ننگی آنکھ کے ساتھ ایسے واضح دیکھ سکیں گے، جیسے ہم ہبل دوربین کی مدد سے زحل کے حلقوں کو واضح دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#یہ_حلقے_کس چیز سے بنے ہوئے ہیں؟
اندازہ ہے کہ اس سیارے اور اس کے آس پاس کا درجہ حرارت دو ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ ہے۔ اس وجہ سے اس کے حلقوں میں زحل کے حلقوں کی طرح برف کے پارٹیکلز تو موجود نہیں ہوں گے، ہاں بہت زیادہ امید ہے کہ اس کے تمام حلقے خلائی گرد و غبار اور چھوٹے موٹے پتھروں سے بنے ہوئے ہیں۔ ٹرانزٹ کے دوران ستارے کی روشنی ٹمٹمانے کی تعداد سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کے گرد سینتیس 37 حلقے ہیں اور ہر حلقے(Ring) کا ڈایا میٹر کئی لاکھ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سیارے J1407 B کا پہلا حلقہ سیارے سے تقریبا 30 ملین کلومیٹر دور ہے، پھر آگے مزید حلقے پے در پے موجود ہیں۔ 60 ملین کلومیٹر سے تھوڑا آگے اس کے حلقوں کے درمیان میں ایک بہت بڑا خالی علاقہ ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جگہ پر موجود خلائی گرد و غبار کے ذرّات (Dust particles) اکٹھے ہو کر اس کا کوئی چاند بنا چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیارہ J1407 B جس نظام شمسی کا حصہ ہے، یہ نظام شمسی ابھی اپنے لڑکپن میں ہے۔ یہ عمر سٹالر ایجز میں کافی کم عمر ہے۔ اس سیارے کے حلقے ہمارے زحل سیارے کے حلقوں کی طرح اگر سٹیبل نہیں ہیں تو اس نظام شمسی کی کم عمری کی وجہ سے بہت امید ہے کہ اس کے حلقوں کے پارٹیکلز مل کر اس کے چاند بن رہے ہوں۔ اگر واقع ہی ایسا ہے تو ہمارے لئے یہ چیز بہت اہم ہے کہ "ہم ایک ایسے سیارے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ جس کے گرد اس کے چاند تشکیل پا رہے ہیں”
ہے نا یہ، حیرت سے بھری کائنات کی تخلیقی کہانی۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیارہ زحل کی تصویر اور اس کے متعلق اہم معلومات اس لنک میں:
https://m.facebook.com/groups/2100179193327606?view=permalink&id=2764687096876809