سیارہ ولکن ، ستارہ ایس ٹو اور عمومی اضافیت۔ جہاں کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے
سیارہ ولکن ، ستارہ ایس ٹو اور عمومی اضافیت۔
جہاں کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے
اور اسکے نذدیک اگر کوئی اجسام ہو تو نیوٹن کا قانون ہم کو ناکام ہوتا ہوا ملتا ہے ۔ ایسے ہی مرکری کے مدار کے بارے میں تھا ۔ مرکری سورج کے گرد بیضوی مدار میں جاتا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ یہ پرسیس ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے مرکری سورج کے گرد حرکت کرتا ہے ویسے ویسے اسکا مدار تھوڑا سا پرسیس ہوتا رہتا ہے ۔ اور اگر آپ اس چیز کا حساب لگائیں اور اندازہ کریں کہ یہ کتنی جلدی سے پرسیس ہوگا ۔ اور پھر آپ مشاہدہ کریں کہ یہ کتنی دیر لگاتا ہے پرسس ہونے میں ، دونوں کبھی تجربات میں کوئی اتفاق نہیں پایا جائے گا ۔ یعنی آپکا حساب کے مطابق اندازہ کرنا اور پھر مشاہدہ کرنا۔ان دونوں کی قیمت بالکل مختلف ہوگی ۔اگر زاویہ کے لحاظ سے کہا جائے تو تقریبا ۴۳ آرک سیکنڈ فی صدی ہے ۔ اس بات کو جاننے میں بہت وقت لگا تھا ۔ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ایسا کس وجہ سے ہورہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا ۔ایک سائنسدان کا خیال تھا کہ سورج اور مرکری کے درمیان میں کوئی ایسٹرائڈ بیلٹ ہوگا ۔ جس کی گریوٹی کی وجہ سے یہ عمل ہورہا ہوگا۔ اسکے بعد شاید چند فلکیات دانوں نے مشاہدات کیے تو انہوں نے دیکھا کہ سورج اور مرکری کے درمیان کوئی ایسٹرائڈ بیلٹ تو نہیں ہے مگر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی سیارہ ہو ۔ کوئی ایسا سیارہ جو کہ انکے درمیان میں ہے اور مرکری کے مدار پر اثر انداز ہورہا ہے ۔ اسکا نام انہوں نے ولکن vulcon تجویز کیا ۔ نام اچھا رکھا گیا تھا ۔ مگر مسلہ یہ تھا کہ فلکیات دان جو دوسرے ٹیلی اسکوپ سے بھی مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے اس کی تردید کر دی یعنی انکے بقول انہوں نے کسی بھی فلکی جسم کو نہیں دیکھا ۔
اسکے بعد ولکن کا نام ونشان غائب سا ہوگیا تھا ۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ ہاں یہ ولکن ہی ہے ۔ یہ وہیں کہیں ہے مگر ہے ضرور ۔ اس کے بہت عرصے بعد آئن سٹائن آئے جنہوں نے اپنا ایک نظریہ جو گریوٹی کی تفہیم پر تھا پیش کیا ۔( یقینا ہم جانتے ہیں اب اچھی طرح ولکن نامی کوئی سیارہ سورج اور مرکری کے درمیان نہیں ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان ویلر کے بقول سپس ٹائم مادے کو بتاتی ہے کہ وہ کیسے حرکت کرے ۔ اور مادہ سپیس ٹائم کو بتاتا ہے کہ سپیس ٹائم کو کسطرح سے خمیدہ ہونا ہے ۔
نیل ڈیگراس ٹائسن کہتے ہیں ۔ عمومی اضافیت میں ، سپیس اور ٹائم کو ایک فیبرک کی طرح سوچیں جو کہ ڈیفارم ہوسکتی ہے ۔ گریوٹی کوئی قوت نہیں جو کہ دو اجسام کے درمیان ہوتی ہے بلکہ گریوٹی ایک شیپ ہے اس فیبرک کی اور اجسام وہی جاتے ہیں جہاں یہ شیپ انکو بتاتی ہے ، اگر آئنسٹائن کے دیئے گئے عمومی نظریہ اضافیت کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہم کو پتا چلے گا کہ مرکری ، اسی خمدار راستے کے مطابق ہی حرکت کرتا ہے جو کہ آئنسٹائن کے نظریہ میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پیشن گوئی سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد بھی درست ثابت ہوئی ہے ۔
ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے قلب میں ایک سپر میسیو بلیک ہول ہے ۔ اس کے گرد ایک ستارہ حرکت کر رہا ہے اور اس ستارے کی حرکت بھی عین اسی طرح ہے ۔ اس تصویر میں جو مدار کی شکل دیکھ رہے ہین اسکو جو نام دیا گیا ہے وہ rosette شیپ کے جیسی ہے ، بیضوی نہیں ہے ۔ اور اس اثر کو شیوارڈ پرسیژن Schwarzschild precession کہا جاتا ہے ۔ اور اس سے پہلے یہ کبھی ایسے ستارے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا جو کہ سپر میسیو بلیک ہول کے گرد اس طرح چکر کاٹ رہا ہو ۔ جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں یہ ایک آرٹسٹ نے بنائی ہے ۔ اس کے درمیان میں ایک سپر میسیو بلیک ہول ہے جو آپ کو چھوٹا سا کالا سا دائرہ نظر آرہا ہے ۔ اور یہ بلیک ہول ہماری کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں ہے ۔ اسکی کمیت لگ بھگ چار ملین سورجوں کے برابر ہوگی ۔ اس کے گرد جو رنگ برنگی لائنیں ہیں ۔ یعنی نیلی اور سرخ سی یہ ستارے کی حرکت کا مدار ہے ۔ ستارے کا نام اسی تو ہے ۔اور روشنی کی تین فیصد رفتار سے حرکت کرتا ہے ۔ اپنا ایک چکر سولہ سال میں پورا کرتا ہے ۔ایک بار آئنسٹائن کے نظریہ تجربات کی کسوٹی پر صداقت کا اظہار کررہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔